اسکولوں میں بھرتیوں کوقانونی شکل دینے کامعاملہ کھٹائی میں پڑگیا
اشتہارات، ٹیسٹ اوردیگر قانونی تقاضے مکمل نہیں کیے گئے،ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم
سابق وزیرتعلیم پیر مظہرالحق کے دور میں سرکاری اسکولوں میں کی گئی بھرتیوں کو قانونی شکل دینے کا معاملہ پھر کھٹائی میں پڑگیا اورصوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو نے تدریسی وغیرتدریسی اسامیوں پرکی گئی ان بھرتیوں کے سلسلے میں جاری اسکروٹنی کے عمل کو ماننے سے انکارکردیا اورکہا ہے کہ باقاعدہ درخواستوں کے ریکارڈ، ٹیسٹ اور اس کے نتائج کے ریکارڈ ، سیکشن پوسٹ کی دستیابی اور شعبہ جاتی پرموشن کمیٹی کی سفارشات کے بغیر محکمہ تعلیم ان بھرتیوں کوتسلیم نہیں کرے گا اگر اسکروٹنی کی سمری ان شرائط کوپورا کیے بغیر بھجوائی گئی تواسے مستردکردیا جائے گا۔
یہ بات انھوں نے اپنے دفترمیں ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کہی، صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں بھرتیوں کے لیے اشتہارات ، درخواستیں ، ٹیسٹ اور اس کے نتائج اورشعبہ جاتی پروموشن کمیٹی کی جانب سے ٹیسٹ اورانٹرویوکے نتائج کی سفارشات کے بعدہی بھرتیاں کی جاتی ہیں، ان بھرتیوں میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں لہٰذا انھیں قانونی شکل نہیں دی جاسکتی، واضح رہے کہ صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکی ایک ماہ کی عدم موجودگی میں قائم مقام سیکریٹری تعلیم نذیرجمالی نے اجلاس کے بعد5رکنی کمیٹی ڈائریکٹراسکولز کراچی کی سربراہی میں تشکیل دی تھی اس کمیٹی کی جانب سے23ستمبر سے کراچی کے 2 سرکاری تعلیمی اداروں صیفیہ خان میموریل اسکول اور این جے وی اسکول میں خواتین اورمرد امیدواروں کی دستاویزات کی اسکروٹنی شروع کی تھی، شیڈول کے مطابق اس مرحلے کاآج آخری دن ہے۔
ان امیدواروں کی دستاویزات کی تصدیق متعلقہ تعلیمی اداروں سے کرانے کے بعد درست دستاویزات کے حامل امیدواروں کی بھرتیوں کو قانونی شکل دینے کیلیے ڈائریکٹر اسکولز کراچی کی جانب سے سمری محکمہ تعلیم کوبھجوائی جانی ہے، صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم کے بھرتیوں کے حوالے سے اس فیصلے کے بعد ان بھرتیوں کامعاملہ ایک بار پھر لٹک گیا، واضح رہے کہ سابق وزیر تعلیم پیرمظہرالحق کے دورمیں یہ بھرتیاں اگست 2012 سے مارچ2013تک کی گئی تھیں،سندھ کے دیگراضلاع کی طرح ان بھرتیوں میں قواعد وضوابط کوملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور خلاف ضابطہ بھرتیوں سے خود کو بچانے کیلیے موجودہ ڈائریکٹر اسکولز کراچی نیازلغاری اس وقت دوماہ کی رخصت پرچلے گئے تھے، قابل ذکرامریہ ہے کہ کراچی میں کی گئی بھرتیوں کوروک دیاگیاجبکہ سندھ کے دیگراضلاع میں ان بھرتیوں کے حامل امیدواروں کوتنخواہیں دی جارہی ہیں۔
یہ بات انھوں نے اپنے دفترمیں ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کہی، صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں بھرتیوں کے لیے اشتہارات ، درخواستیں ، ٹیسٹ اور اس کے نتائج اورشعبہ جاتی پروموشن کمیٹی کی جانب سے ٹیسٹ اورانٹرویوکے نتائج کی سفارشات کے بعدہی بھرتیاں کی جاتی ہیں، ان بھرتیوں میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں لہٰذا انھیں قانونی شکل نہیں دی جاسکتی، واضح رہے کہ صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہوکی ایک ماہ کی عدم موجودگی میں قائم مقام سیکریٹری تعلیم نذیرجمالی نے اجلاس کے بعد5رکنی کمیٹی ڈائریکٹراسکولز کراچی کی سربراہی میں تشکیل دی تھی اس کمیٹی کی جانب سے23ستمبر سے کراچی کے 2 سرکاری تعلیمی اداروں صیفیہ خان میموریل اسکول اور این جے وی اسکول میں خواتین اورمرد امیدواروں کی دستاویزات کی اسکروٹنی شروع کی تھی، شیڈول کے مطابق اس مرحلے کاآج آخری دن ہے۔
ان امیدواروں کی دستاویزات کی تصدیق متعلقہ تعلیمی اداروں سے کرانے کے بعد درست دستاویزات کے حامل امیدواروں کی بھرتیوں کو قانونی شکل دینے کیلیے ڈائریکٹر اسکولز کراچی کی جانب سے سمری محکمہ تعلیم کوبھجوائی جانی ہے، صوبائی ایڈیشنل سیکریٹری تعلیم کے بھرتیوں کے حوالے سے اس فیصلے کے بعد ان بھرتیوں کامعاملہ ایک بار پھر لٹک گیا، واضح رہے کہ سابق وزیر تعلیم پیرمظہرالحق کے دورمیں یہ بھرتیاں اگست 2012 سے مارچ2013تک کی گئی تھیں،سندھ کے دیگراضلاع کی طرح ان بھرتیوں میں قواعد وضوابط کوملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور خلاف ضابطہ بھرتیوں سے خود کو بچانے کیلیے موجودہ ڈائریکٹر اسکولز کراچی نیازلغاری اس وقت دوماہ کی رخصت پرچلے گئے تھے، قابل ذکرامریہ ہے کہ کراچی میں کی گئی بھرتیوں کوروک دیاگیاجبکہ سندھ کے دیگراضلاع میں ان بھرتیوں کے حامل امیدواروں کوتنخواہیں دی جارہی ہیں۔