کشمیر منزل بہ منزل

کشمیر کے دونوں سمت جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدوجہد اور نئے خیالات بھی جنم لیتے رہے۔

anisbaqar@hotmail.com

ستر سال قبل پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیرکا جو مستقبل بنایا تھا، اس میں وہ بار بار تبدیلیاں کرتے رہے اور کشمیرکے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ سے مشورے کے بعد کوئی بھی مستقبل کا فیصلہ حتمی نہ رہا۔ یہاں تک کہ جب پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان منتخب ہوئے تو انھوں نے مغربی اور امریکی ممالک میں کشمیری بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کی ٹھان لی، تاکہ بھارت پر اس کا دباؤ عالمی پیمانے پر پیدا ہو۔

بھارتی حکمرانوں نے یہ جانچ لیا کہ کشمیر کی آئینی حیثیت جو موجود ہے اس میں بھارت کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی لہٰذا بھارتی حکومت نے من مانے طور پر کشمیر کو غیر قانونی طور پر بھارت کا حصہ قرار دے دیا۔ لیکن چونکہ ستر سال سے کشمیرکی صورتحال بھارت کے اٹوٹ انگ کی نہ تھی، اس لیے دنیا نے بھی نریندر مودی کے خودساختہ بیان کو وہ اہمیت نہ دی جوکہ ملنی چاہیے تھی۔

دوسری جانب پاکستان نے بھی امریکا اور برطانیہ میں موجود پاکستانیوں کو کشمیر کے مسئلے پر سرگرم کرنا شروع کیا۔ امریکا کی صورتحال یہ رہی کہ وہاں کے کئی شہروں میں کشمیریوں کے حقوق پر بڑے جلوس نکالے گئے۔ خصوصاً مشی گن اسٹیٹ کے شہر ڈیٹرائٹ اور برطانیہ کے کئی شہروں میں جلوس نکالے گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا مضبوط رخ تھا، مگر پاکستان میں بھی کشمیرکے مسئلے پر مختلف تنظیموں کی مختلف آرا موجود ہیں۔

جس کا تذکرہ بعد ازاں کیا جائے گا البتہ ایک نیا اور خطرناک پہلو دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ دونوں ملکوں میں جس قسم کی اجناس کی صلاحیت موجود ہے وہ نہ صرف یہاں کے انسانوں بلکہ حیوانوں اور ذی حیات کے لیے بھی میسر ہے۔ لہٰذا معمولی جنگ بھی عوام کے اور حیاتیات کے لیے زہر قاتل بنے گی۔ اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ جب سے بھارت نے سبزی اور اجناس کی سرحدی تجارتی پابندی عائدکی ہے بھارتی کسان زبردست پریشانی کے عالم میں ہیں۔

دونوں طرف کے انتہا پسند کشمیر کے مسائل کا حل صرف جنگ میں ہی ڈھونڈتے ہیں۔ صرف کشمیر کی پہلی جنگ جو 1948میں ہوئی تھی جس کو جنرل اکبر خان کی قیادت حاصل تھی وہ فیصلہ کن یقینا تھی مگر پاکستان کے پہلے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے برطانیہ کے اشارے پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ جب کہ جنرل اکبر خان کی فوجیں جو پاکستان کا پرچم لیے ہوئے تھیں سری نگر تک پہنچ گئی تھیں۔

اس میں عوام کا نقصان بھی کم تھا کیونکہ یہ جنگ زمینی تھی۔ ابھی یہ جنگ کسی نتیجے پر بھی نہ پہنچی تھی کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔ یہ وہی اعلان ہے جو ستر برس سے کشمیریوں کے جسم وجان سے چمٹا ہوا ہے۔ امید یہ تھی کہ شیخ عبداللہ جو کشمیر کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔

کوئی اہم اعلان کریں گے، مگر شیخ عبداللہ نے پنڈت نہرو کے قریبی دوست ہونے کے سبب ماضی کی رسموں کو جاری رکھے رہے۔ دونوں جانب کی حکومتیں بدلتی رہیں اور سیاسی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔ یہاں تک ایک ایسا وقت آیا کہ پنڈت جی کی جگہ RSS کی تنظیم برسر اقتدار آ گئی اور ہماری طرف ضیا الحق کی انتہا پسندانہ سوچ غالب آگئی۔ دونوں طرف کی سوچ عوام دوستی کے بجائے عوام دشمنی پر ہی لیڈرشپ تعمیر کر رہی تھی۔

یہاں تک کہ بھارت نے بابری مسجد کا شوشہ چھوڑا تاکہ پاکستان میں بھی انتہا پسندی فروغ پائے اور ایسا ہی ہوا بلکہ دونوں طرف ایٹمی جنگ کی باتیں ہونے لگیں آخر کون ان ناسمجھ لوگوں کو بتائے کہ ایٹمی جنگیں ایسے ملکوں کے درمیان نہیں ہو سکتیں جہاں پیدل آمد و رفت ہوتی ہو۔ جہاں کبھی ہوا مشرق سے چلتی ہو تو معلوم ہوا کہ دوسرے وقت شمال مغرب سے۔ پھر ایسے میں ایٹمی جنگوں کا فیصلہ کون کرے گا کہ ایٹم بم تو گرا دیا۔ لیکن ہوا کا رخ بے قابو ہوگیا۔ لہٰذا ایسے ملکوں کے مابین تو روایتی جنگیں ہی بہتر ہیں اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ انصاف اور منطق کی گفتگو تمام مسائل کا بہترین حل ہے۔


1965 میں بھی ہماری اور بھارت کی جنگ ہوئی تھی جس کا انجام معاہدہ تاشقند تھا جس کا شوشہ پکڑ کے نیا انتخاب ہوا اور اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں شملہ میں ایک نیا معاہدہ ہوا جس کی بازگشت آج کل سنائی دے رہی ہے کہ شملہ معاہدہ ختم کیا جائے۔ بہرصورت کشمیر کی حالت جوں کی توں رہی۔

واقعات تو جامد رہتے ہیں لیکن فکریں جامد نہیں رہتیں۔ کشمیر کے دونوں سمت جمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدوجہد اور نئے خیالات بھی جنم لیتے رہے۔ اس میں جے کے ایل ایف نے ایسے خیالات کو جنم دیا جو بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے ایک انہونی تصویر تھی۔ ممکن ہے کہ یہ تصویر کشمیریوں کو پسند ہو مگر اس کا فیصلہ تو ہم نہیں کر سکتے۔

بقول الجزیرہ ٹی وی کے 7 ستمبر کو جے کے ایل ایف نے ایک بہت بڑا جلوس نکالا جو بھارتی باؤنڈری لائن کو پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر پاکستانی گورنمنٹ نے اس اقدام کو روکا جو کہ پاکستان کا اچھا قدم ہے مگر جے کے ایل ایف نے جو قدم اٹھایا بظاہر وہ ذاتی اور کشمیریوں کے حق میں تھا۔ لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو جے کے ایل ایف کے پیچھے منفی رویے بھی کام کر رہے تھے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر تھے۔ آزاد کشمیر کی انتظامیہ سے تصادم اور اس میں بلاتفریق بھارتی اور پاکستانی افواج کو ایک صف میں کھڑا کر دیا جو یقینا بھارتی ایوانوں کی آواز کا آئینہ محسوس ہوتا ہے۔

بہرصورت جوں جوں وقت گزرتا جائے گا نئی نئی بولیاں بولنے والے لوگ سامنے آتے رہیں گے مگر کشمیری اور پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز کی ترجمانی تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے کشمیریوں کی صورتحال کو دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں۔

یہاں تک کہ انڈین چیف جسٹس کو بھی کشمیریوں کی حالت زار پر یہ کہنا پڑا کہ ان پر انسانی حقوق کے دروازے تو بند نہ کرو۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم کشمیریوں کے اوپر روا رکھے گئے مظالم کو پیش کرتے ہیں تو یہاں بھی ہمیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملتی البتہ عالمی ضمیر پہلے کے مقابلے میں کشمیریوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔

خصوصاً مغربی دنیا اور بیشتر امریکی باشندے۔ مگر مقابلتاً مغربی اور مشرقی دنیا کے علاوہ جب ہم عرب دنیا کی طرف نظر ڈالتے ہیں توہمیں اپنے تعلقات عرب دنیا سے بڑے والہانہ محسوس ہوتے ہیں۔ وہ گاہے بہ گاہے ہمارے اقتصادی معاون بھی ہیں، مگر سیاسی طور پر وہ بھارت کی کشمیریوں کی داستان ظلم کو کھولنا مناسب نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ان کے بھارتی حکومتوں سے اربوں روپے کے تجارتی معاہدے ہیں۔

نریندر مودی صاحب کو عرب دنیا بڑے بڑے اعزازات سے نوازتی ہے۔ سعودی عرب ہو، بحرین ہو یا متحدہ عرب امارات۔ سب بھارتی، تجارتی اور ثقافتی وراثتوں میں منسلک ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زایدالنہیان پاکستانی دورے پر تشریف لائے تھے جنھوں نے کشمیر کے مسئلے پر جو الفاظ ادا کیے انھیں انگریزی اخبارات نے خاصا نمایاں طور پر پیش کیا۔ جس میں انھوں نے فرمایا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل اسلامی امہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دو ممالک کے درمیان سیاسی اختلافات کا معاملہ ہے۔ ان تمام امور کو منزل بہ منزل گزرتے ہوئے حالات کو اگر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں کشمیر کو مزید اجاگر ہونا باقی ہے۔

اس سلسلے میں کوئی زور زبردستی سے نہیں بلکہ علم و دانش، فکر و خیال، ماضی و حال کے واقعات کو ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ذریعے اجاگر کرنا ہوگا۔ کیونکہ روز مرہ کی نعرے بازی اثر انداز تو ہوتی ہے مگر اس کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔
Load Next Story