صدیاں حسینؓ کی ہیں‘ زمانہ حسینؓ کا
حق و باطل کے اس معرکے میں شیطانی قوت نے رحمانی قوت پر بھرپور حملہ کیا لیکن رحمانی قوت استقامت کا پیکر بنی رہی۔
محرم الحرام اسلامی مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ ہے، اس کو محرم اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس مہینے میں جنگ وقتال حرام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں بہت سی فضیلتیں ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ افضل روزہ رمضان کے بعد محرم الحرام کا ہے اور افضل نماز فرض کے بعد نماز تہجد ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ، ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں۔
حضورؐ نے فرمایا ''ہم موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں'' چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ تمام سابقہ اقوام میں محرم کی دس تاریخ کا روزہ معروف تھا، حتیٰ کہ منقول ہے کہ رمضان سے قبل یہ روزہ فرض تھا مگر رمضان کے بعد اس روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ حضور نبی کریمؐ نے ہجرت سے پہلے یہ روزہ رکھا اور جب مدینہ تشریف لائے تو اس کی تاکید فرمائی اور فرمایا '' اگر میں آیندہ سال رہا تو 9 اور 10 محرم کو روزہ رکھوں گا'' مگر (آپ نے اسی سال دنیا سے پردہ فرمایا اور دس محرم کے سوا روزہ نہ رکھ سکے مگر اس کی تاکید ضرور فرمادی۔ (بحوالہ مکاشفۃالقلوب،ص:698)
عاشورہ، محرم کی 10 تاریخ کو کہتے ہیں، اسی تاریخ کو امام عالی مقام حضرت حسینؓ میدان کربلا میں شہید ہوئے، اس لیے بھی اس تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے، اس تاریخ میں شہید کربلا نے نئے مشن اور نئے پیغام کی نشاندہی کی، جوش آفرینی اور شجاعت آموزی کی اعلیٰ یادگار قائم کی۔ واقعہ کربلا کا مقصد اس قانون کی حمایت اور حفاظت کرنا تھا جو خداوند قدوس کی طرف سے حکومت کے لیے ضروری تھا۔
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے جو 61 ہجری میں پیش آیا ، مجاہدین اسلام کا ایک چھوٹا سا گروہ امام حسینؓ کی سربراہی میں نکلا، جنھوں نے مفاد پرستی، خود پسندی اور انسانیت دشمن طور طریقوں کے خلاف آزادی کا پرچم بلند کیا اور حکومت یزید کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ دنیا کا کوئی انقلاب اتنی مختصر جماعت اور دنیا کے اہم ترین مقامات سے اتنی دور زمین پر رونما نہیں ہوا اور پھر اتنی وسعت، اتنا پھیلاؤ، اتنا زیادہ اثر اور اتنا عظیم الشان پیغام دنیا کے کسی اور واقعے سے نوع انسانی کو نہیں ملتا۔
امام عالی مقام حضرت حسینؓ اپنے 72 جانثاروں کے ہمراہ دشمنان اسلام کی جانب بڑھے اور شیطانی و طاغوتی قوت سے سینہ سپر ہوکر لڑے، آپ ؓ کے تمام ساتھی باطل کے خلاف سروں کی بازی لگائے اور اپنی جانوں پر کھیلے ہوئے تھے کہ آج حق کو پامال نہ ہونے دیں۔ ان کے رعب و جلال سے دشمن کے لشکر پر افسردگی چھائی ہوئی تھی اور لرزہ طاری تھا۔
آپ نے میدان کربلا میں عظیم الشان تاریخ رقم کی، انتہائی بہادری سے لڑے اور اپنی جان حق پر قربان کرکے شہادت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوئے۔ آپؓ کے جانثاروں میں عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے سب شامل تھے اور سب کا خیال تھا کہ اپنے گلے کا خون رواں اور اپنی ہتھیلی پر جاں رکھیں تاکہ جانثاری کے بعد شجر اسلام سوکھنے نہ پائے۔ ان کی جدوجہد کا رخ کلمہ توحید کی سربلندی کی طرف تھا، عاشورہ کے دن ایک طرف شرف و کرامت اور بلند فطرتی تھی اور دوسری طرف ذلت و پستی کے مجسمے تیار تھے گویا روز عاشورہ حق و باطل کے درمیان نبرد آزمائی کی واضح علامت ہے۔
حق و باطل کے اس معرکے میں شیطانی قوت نے رحمانی قوت پر بھرپور حملہ کیا لیکن رحمانی قوت استقامت کا پیکر بنی رہی، شیطانی طاقت نے آواز دی اب بھی مجھے حق تسلیم کرلو، رحمانی طاقت نے جواب دیا یہ ناممکن ہے۔ شیطانی قوت نے کہا میں تمہاری گردنوں پر تلوار پھیر دوں گی، رحمانی قوت نے کہا میں تیرا نام و نشان مٹا دوں گی، شیطانی قوت نے للکارا میں تجھے خانماں برباد کردوں گی، رحمانی قوت نے کہا میں خانہ وفا آباد کروں گی اور پھر رحمانی قوت کے عظیم پیکر امام حسینؓ جبر و تشدد اور ظلم و استبداد کے یزیدی طوفان سے اس طرح ٹکرا گئے کہ بقول فیض احمد فیض:
کچھ خوف تھا چہرے پر نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہر تسلیم و رضا تھی
ہر ایک ادا شاہد اقرار وفا تھی
ہر جنبش لب منکر دستور جفا تھی
عاشورہ اضطراب و ہیجان کا دن تھا، شمشیر و سناں کا دن تھا، دلیری اور ہمت آفرینی کا دن تھا، حکم خداوندی پر جان نچھاور کرنے کا دن تھا۔ واقعہ کربلا میں عظمت وجلالت، حلم و بردباری، عزم و استقلال، شجاعت و دلیری اور حق و صداقت کا سبق پنہاں ہے اور یہی انسانیت کی وہ اقدار ہیں جس کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے جابر اور ظالم اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔
اگر آج بھی یہ عظیم سبق جہان فکر و نظر کا مرکز بن جائے تو مسلمان دنیا کی طاغوتی طاقتوں کو پاش پاش کردیں، اس معرکہ حق و باطل میں امام حسینؓ اور ان کے فداکاروں نے جو قربانی دی تھی اس کا مقصد اسلامی روایات، اسلامی معاشرہ اور اسلامی عدل کا قیام تھا اور محرم، یوم عاشورہ اور واقعہ کربلا کا تقدس ہم سے بھی یہی تقاضا کرتا ہے، امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں اور عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حق و انصاف، شرف و کرامت اور عظمت و عزیمت کی ایسی مثال قائم فرمائی جو قیامت تک حق و انصاف کے علم برداروں کے حوصلے بلند کرتی رہے گی اور انھیں راہ خدا میں یاد خدا کے ساتھ جانثاری کی دعوت دیتی رہے گی اور امام عالی مقام حسینؓ انسانیت کے دل میں ہمیشہ پایندہ اور تابندہ رہیں گے۔
آج 14 سو برس گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا تاریخ انسانیت میں اسی طرح زندہ ہے جیسے یہ حال ہی کا واقعہ ہو۔ اس واقعے کو انسانیت کبھی بھلا نہیں سکتی، یہ حق و باطل اور سچ و جھوٹ کے درمیان ہونے والی وہ عظیم جنگ تھی، جس نے آج تک اپنا اثر نہیں کھویا، اس عظیم معرکے کے اسباب اور سید الشہدا امام مظلوم، حسینؓ کی شہادت کے انقلاب آفرین نتائج کل بھی انسانی تاریخ و انسانی تہذیب و تمدن کا اثر انگیز اور جلی عنوان تھے اور آج بھی ہیں جب کہ انسان کا ذہن اور قوت فکر فلک رسا بن گئی ہے لیکن حیات انسانی کی تاریخ کے اس روشن باب اور عظیم و جلیل القدر واقعے کی اہمیت میں کمی آئی اور نہ ہی کبھی آئے گی۔
آپ کی یہ گراں قدر قربانی عالم انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا عظیم مینارہ نور اور رہنمائی کا منبع و مخرج نیز آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ کی اسی عظیم قربانی کی بدولت آج اسلام زندہ اور پرچم اسلام سربلند ہے۔
اک پل بس ایک پل تھی، حکومت یزید کی
صدیاں حسینؓ کی ہیں' زمانہ حسینؓ کا
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔جب ان سے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا ، ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں۔
حضورؐ نے فرمایا ''ہم موسیٰ کے زیادہ قریب ہیں'' چنانچہ آپؐ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ تمام سابقہ اقوام میں محرم کی دس تاریخ کا روزہ معروف تھا، حتیٰ کہ منقول ہے کہ رمضان سے قبل یہ روزہ فرض تھا مگر رمضان کے بعد اس روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ حضور نبی کریمؐ نے ہجرت سے پہلے یہ روزہ رکھا اور جب مدینہ تشریف لائے تو اس کی تاکید فرمائی اور فرمایا '' اگر میں آیندہ سال رہا تو 9 اور 10 محرم کو روزہ رکھوں گا'' مگر (آپ نے اسی سال دنیا سے پردہ فرمایا اور دس محرم کے سوا روزہ نہ رکھ سکے مگر اس کی تاکید ضرور فرمادی۔ (بحوالہ مکاشفۃالقلوب،ص:698)
عاشورہ، محرم کی 10 تاریخ کو کہتے ہیں، اسی تاریخ کو امام عالی مقام حضرت حسینؓ میدان کربلا میں شہید ہوئے، اس لیے بھی اس تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے، اس تاریخ میں شہید کربلا نے نئے مشن اور نئے پیغام کی نشاندہی کی، جوش آفرینی اور شجاعت آموزی کی اعلیٰ یادگار قائم کی۔ واقعہ کربلا کا مقصد اس قانون کی حمایت اور حفاظت کرنا تھا جو خداوند قدوس کی طرف سے حکومت کے لیے ضروری تھا۔
واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے جو 61 ہجری میں پیش آیا ، مجاہدین اسلام کا ایک چھوٹا سا گروہ امام حسینؓ کی سربراہی میں نکلا، جنھوں نے مفاد پرستی، خود پسندی اور انسانیت دشمن طور طریقوں کے خلاف آزادی کا پرچم بلند کیا اور حکومت یزید کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ دنیا کا کوئی انقلاب اتنی مختصر جماعت اور دنیا کے اہم ترین مقامات سے اتنی دور زمین پر رونما نہیں ہوا اور پھر اتنی وسعت، اتنا پھیلاؤ، اتنا زیادہ اثر اور اتنا عظیم الشان پیغام دنیا کے کسی اور واقعے سے نوع انسانی کو نہیں ملتا۔
امام عالی مقام حضرت حسینؓ اپنے 72 جانثاروں کے ہمراہ دشمنان اسلام کی جانب بڑھے اور شیطانی و طاغوتی قوت سے سینہ سپر ہوکر لڑے، آپ ؓ کے تمام ساتھی باطل کے خلاف سروں کی بازی لگائے اور اپنی جانوں پر کھیلے ہوئے تھے کہ آج حق کو پامال نہ ہونے دیں۔ ان کے رعب و جلال سے دشمن کے لشکر پر افسردگی چھائی ہوئی تھی اور لرزہ طاری تھا۔
آپ نے میدان کربلا میں عظیم الشان تاریخ رقم کی، انتہائی بہادری سے لڑے اور اپنی جان حق پر قربان کرکے شہادت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہوئے۔ آپؓ کے جانثاروں میں عورتیں، مرد، بوڑھے، جوان اور بچے سب شامل تھے اور سب کا خیال تھا کہ اپنے گلے کا خون رواں اور اپنی ہتھیلی پر جاں رکھیں تاکہ جانثاری کے بعد شجر اسلام سوکھنے نہ پائے۔ ان کی جدوجہد کا رخ کلمہ توحید کی سربلندی کی طرف تھا، عاشورہ کے دن ایک طرف شرف و کرامت اور بلند فطرتی تھی اور دوسری طرف ذلت و پستی کے مجسمے تیار تھے گویا روز عاشورہ حق و باطل کے درمیان نبرد آزمائی کی واضح علامت ہے۔
حق و باطل کے اس معرکے میں شیطانی قوت نے رحمانی قوت پر بھرپور حملہ کیا لیکن رحمانی قوت استقامت کا پیکر بنی رہی، شیطانی طاقت نے آواز دی اب بھی مجھے حق تسلیم کرلو، رحمانی طاقت نے جواب دیا یہ ناممکن ہے۔ شیطانی قوت نے کہا میں تمہاری گردنوں پر تلوار پھیر دوں گی، رحمانی قوت نے کہا میں تیرا نام و نشان مٹا دوں گی، شیطانی قوت نے للکارا میں تجھے خانماں برباد کردوں گی، رحمانی قوت نے کہا میں خانہ وفا آباد کروں گی اور پھر رحمانی قوت کے عظیم پیکر امام حسینؓ جبر و تشدد اور ظلم و استبداد کے یزیدی طوفان سے اس طرح ٹکرا گئے کہ بقول فیض احمد فیض:
کچھ خوف تھا چہرے پر نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہر تسلیم و رضا تھی
ہر ایک ادا شاہد اقرار وفا تھی
ہر جنبش لب منکر دستور جفا تھی
عاشورہ اضطراب و ہیجان کا دن تھا، شمشیر و سناں کا دن تھا، دلیری اور ہمت آفرینی کا دن تھا، حکم خداوندی پر جان نچھاور کرنے کا دن تھا۔ واقعہ کربلا میں عظمت وجلالت، حلم و بردباری، عزم و استقلال، شجاعت و دلیری اور حق و صداقت کا سبق پنہاں ہے اور یہی انسانیت کی وہ اقدار ہیں جس کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے جابر اور ظالم اپنی گردنیں جھکا دیتے ہیں۔
اگر آج بھی یہ عظیم سبق جہان فکر و نظر کا مرکز بن جائے تو مسلمان دنیا کی طاغوتی طاقتوں کو پاش پاش کردیں، اس معرکہ حق و باطل میں امام حسینؓ اور ان کے فداکاروں نے جو قربانی دی تھی اس کا مقصد اسلامی روایات، اسلامی معاشرہ اور اسلامی عدل کا قیام تھا اور محرم، یوم عاشورہ اور واقعہ کربلا کا تقدس ہم سے بھی یہی تقاضا کرتا ہے، امام حسینؓ نے اپنے ساتھیوں اور عزیزوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے حق و انصاف، شرف و کرامت اور عظمت و عزیمت کی ایسی مثال قائم فرمائی جو قیامت تک حق و انصاف کے علم برداروں کے حوصلے بلند کرتی رہے گی اور انھیں راہ خدا میں یاد خدا کے ساتھ جانثاری کی دعوت دیتی رہے گی اور امام عالی مقام حسینؓ انسانیت کے دل میں ہمیشہ پایندہ اور تابندہ رہیں گے۔
آج 14 سو برس گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا تاریخ انسانیت میں اسی طرح زندہ ہے جیسے یہ حال ہی کا واقعہ ہو۔ اس واقعے کو انسانیت کبھی بھلا نہیں سکتی، یہ حق و باطل اور سچ و جھوٹ کے درمیان ہونے والی وہ عظیم جنگ تھی، جس نے آج تک اپنا اثر نہیں کھویا، اس عظیم معرکے کے اسباب اور سید الشہدا امام مظلوم، حسینؓ کی شہادت کے انقلاب آفرین نتائج کل بھی انسانی تاریخ و انسانی تہذیب و تمدن کا اثر انگیز اور جلی عنوان تھے اور آج بھی ہیں جب کہ انسان کا ذہن اور قوت فکر فلک رسا بن گئی ہے لیکن حیات انسانی کی تاریخ کے اس روشن باب اور عظیم و جلیل القدر واقعے کی اہمیت میں کمی آئی اور نہ ہی کبھی آئے گی۔
آپ کی یہ گراں قدر قربانی عالم انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا عظیم مینارہ نور اور رہنمائی کا منبع و مخرج نیز آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ کی اسی عظیم قربانی کی بدولت آج اسلام زندہ اور پرچم اسلام سربلند ہے۔
اک پل بس ایک پل تھی، حکومت یزید کی
صدیاں حسینؓ کی ہیں' زمانہ حسینؓ کا