یہ قیمہ بھرے نان والے ووٹ نہیں تھے
جناب وزیر اعظم آپ کو ووٹ تبدیلی کے لیے ملے تھے یہ قیمے بھرے نان والے ووٹ نہیں تھے۔
'' نوٹس لیا، معطل کیا، ڈرامہ مکمل ہوا '' یہ تبدیلی سے پہلے ہوتا تھا۔ تبدیلی کے بعد یہ ہوتا ہے '' نوٹس لیا، معطل کیا، ڈرامہ مکمل ہوا۔'' تبدیلی کے بعد بھی تبدیلی نہیں آئی۔
عوام خاص طور پر وہ لوگ جنھوں نے تبدیلی کے لیے تحریک انصاف کو ووٹ دیے پچھلے ایک سال سے تحریک انصاف کی حکومت کے مخالفوں کو یہ جواب دیتے آرہے ہیں کہ پچھلے پچاس سال خصوصاً پچھلے دس سالوں میں پاکستان میں اتنی کرپشن ہوئی ہے اور ریاستی اداروں اور انھیں چلانے والی نوکرشاہی کی ایسی بربادی ہوئی ہے کہ ایک دم سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس وقت افراط زر بڑھتی بڑھتی 11.63 فیصد ہوچکی ہے۔
پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح گرتے گرتے 3.29 فیصد ہوچکی ہے اور معاشی پیداواری سطح کی گراوٹ اسی طرح جاری رہی تو موجودہ سہ ماہی کے اختتام تک 3 فیصد سے بھی نیچے گرکر 2.80 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ٹیکس چوری اور بینکوں کے قرضے ہڑپ کرنے کا عادی کاروباری طبقہ نئی صنعتیں نہیں لگا رہا ، لینڈ مافیا زمینوں پہ قبضے کے اپنے کاروبارکے خلاف پہلی بارکچھ قانونی کارروائیوں کے ہونے کے ردعمل میں نئے ہاؤسنگ منصوبے لانچ نہیں کر رہی، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کرپشن کے اربوں کھربوں روپے انویسٹ کرنے والے کرپٹ عناصر نے نیب اور ایف بی آر کے ریڈار پہ آنے کے امکان کے پیش نظر اپنا لوٹ کا مال گھروں میں قائم خفیہ بینکوں میں جمع کرنے اور جو ہو سکے۔
وہ ملک سے باہر بھیجنے پہ اس وقت اپنا فوکس رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کے عوامل کی وجہ سے ملک میں کاروبار سکڑ رہے ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اس ملک کی کالی اور غیر دستاویزی معیشت خود کو دستاویزی معیشت بنانے کی ہر طرح سے اور بھرپور مزاحمت کر رہی ہے اور اسے اس مزاحمت میں کرپٹ نوکر شاہی، اپوزیشن اور میڈیا کے بڑے حصے کا مستقل تعاون حاصل ہے۔ لوگ یہ بات سمجھتے ہیں خاص طور پہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ۔ یہ لوگ اب تک مایوس نہیں ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے عمران خان پہ جو اعتماد کیا تھا اس پہ اب تک یہ قائم تھے۔
عمران خان کے کیے گئے وعدوں پہ لوگوں کے یقین میں ابھی تک دراڑ نہیں پڑی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کم ازکم اہم ترین عہدوں پہ اہل ترین افراد لگائیں گے، لوگوں کو توقع تھی کہ عمران خان ایک آدھ سال میں کم ازکم بڑے مسائل پہ ٹھوس منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کا لائحہ عمل اور شیڈول ضرور سامنے لے آئیں گے۔
نہ صرف پی ٹی آئی ووٹر بلکہ زیادہ تر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے کرپٹ نا اہل اور نا انصاف حکومتی، انتظامی، عدالتی اور مجموعی جمہوری نظام کو پاکستان اور پاکستانی دوست نظام میں بدلنے کی آخری امید، کم ازکم موجودہ جمہوری انتظام جسے اس ملک کو لوٹنے والی بڑی بڑی سیاسی مافیاؤں کو دیے گئے این آر او نے جنم دیا تھا۔ اس انتظام میں سے اس ملک کے عام لوگوں کے لیے بھلائی کا پہلو ممکن بنانے کی امید ابھی بھی عمران خان ہیں۔
تاہم اب لوگ مایوس نظر آرہے ہیں۔ جنھوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے وہ بھی تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی پہ تنقید کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ اب شریف یا زرداری خاندان کی دوبارہ سے حکومت چاہ رہے ہیں۔ پاکستانی پچھلے پچاس سالوں میں ان کی حکمرانی اور اس حکمرانی کی پیدا کردہ تباہی بھگتتے رہے ہیں، کراچی کے لوگ تو اب بھی بھگت رہے ہیں۔ تاہم لوگ اب تحریک انصاف سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔
وہ لوگ جو مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کے بڑھتے بل، کاروباری نقصان تبدیلی کی امید میں برداشت کیے جا رہے تھے وہ اس ایک مہینے میں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ایک دم اتنے مایوس ہوگئے ہیں؟ یہ دو ایسے واقعات اور ان پر حکومتی ردعمل خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کا ردعمل ہے جس نے ان کے کٹر حامیوں تک کو شاک اور دکھ پہنچایا ہے۔
پہلا واقعہ جب حکومت نے اپنی صفوں میں موجود مختلف صنعتی مافیاؤں کے نمایندوں کے اشارے پہ فرٹیلائزر،گیس اور بجلی کی کمپنیوں جن میں ایل این جی ٹرمینل اسکینڈل میں مبینہ طور پر پاکستان کو بھاری نقصان پہنچانے والے اور مقبول عام عوام دشمن کمپنی جس پہ نیپرا کے مطابق کراچی کی حالیہ بارشوں میں ہونے والی 19 اموات کی ذمے داری عائد ہوتی ہے کو ان کے 208 ارب روپے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کردیے۔
وہ 208 ارب روپے معاف کردیے جو ان کمپنیوں نے عوام سے بٹورے تھے، یہ لوگوں کے اس حکومت پہ تبدیلی لانے کے اعتماد کو بڑا دھچکا تھا کہ حکومت نے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری بھی کیا تو وہ عوام کے مال کو ان کمپنیوں کے لیے حلال کرنے کے لیے کیا۔ لوگوں کو دکھ ہوا کہ اس حکومت نے ملک کو لوٹنے والے بڑے بڑے لٹیروں کو جیل اور اسپتال میں ملنے والی وی وی آئی پی سہولتوں اور پروٹو کول سے محروم کرنے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔
کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگانے والی اس حکومت نے ایف بی آر، ایف آئی اے سمیت دوسرے کرپٹ محکموں کے بڑے بڑے کرپٹ افسروں کو نوکریوں سے برطرف کرکے ان سے کرپشن کا مال نکلوانے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔ اس حکومت نے بڑی بڑی نجی کمپنیوں کے عوام کے اربوں روپے ڈکارنے اور پھر اس ملک کی عدالتوں سے نہ ختم ہونے والے اسٹے آرڈرز لینے کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔
دوسرا واقعہ ذہنی معذور انسان صلاح الدین کی بدنام زمانہ پنجاب پولیس کی تحویل میں شدید ٹارچر سے موت ہے۔ لوگ آج تک سانحہ ساہیوال نہیں بھولے تھے کہ پولیس کے تشدد سے لوگوں کی ہلاکتوں اور دوسری زیادتیوں پہ مبنی ویڈیو تواتر سے سامنے آنے لگیں۔
ان ویڈیوز اور ان پہ تحریک انصاف کی حکومت کا رویہ لوگوں کو جھنجھوڑ گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی زرداری اور شریف حکومتوں اور اس سے پہلے کی حکومتوں کی طرح چند نچلے درجے کے پولیس والے معطل کیے، چند ایک کو گرفتار کیا مگر ان کے خلاف ایف آئی آر کمزور بنائی گئیں جیساکہ دستور ہے۔
پنجاب حکومت نے ایک سال بعد پولیس کے تشدد کے سدباب کے لیے تو نہیں البتہ پولیس کے تشدد کے ویڈیوز منظر عام پہ آنے کی روک تھام کے لیے تھانوں میں کیمروں والے موبائل فونز پر پابندی لگادی۔ اسی پنجاب حکومت نے سرکاری اسپتالوں میں ملنے والی مفت ٹیسٹ کرانے کی سہولتیں بھی عوام سے چھین لی ہیں اور عمران خان لوگوں خصوصاً اپنے حامیوں کے زخموں پہ عثمان بزدار کا دفاع کرکے اور وسیم اکرم پلس کی حکمرانی جاری رکھنے کے عزم سے نمک چھڑک رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم آپ بے شک عثمان بزدارکو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنائے رکھنے کو اپنی انا اور عوام کی چڑ بنالیں مگر یہ نہ بھولیں کہ آپ کو ووٹ دینے والے نہ ہی دیہی سندھ کی وڈیرہ پارٹی کے غلام ہاری ہیں اور نہ ہی وسطی پنجاب کی پارٹی کے برادری ازم اور موروثی سیاست کے اندھے پیرو کار۔ جناب وزیر اعظم آپ کو ووٹ تبدیلی کے لیے ملے تھے یہ قیمے بھرے نان والے ووٹ نہیں تھے۔
عوام خاص طور پر وہ لوگ جنھوں نے تبدیلی کے لیے تحریک انصاف کو ووٹ دیے پچھلے ایک سال سے تحریک انصاف کی حکومت کے مخالفوں کو یہ جواب دیتے آرہے ہیں کہ پچھلے پچاس سال خصوصاً پچھلے دس سالوں میں پاکستان میں اتنی کرپشن ہوئی ہے اور ریاستی اداروں اور انھیں چلانے والی نوکرشاہی کی ایسی بربادی ہوئی ہے کہ ایک دم سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس وقت افراط زر بڑھتی بڑھتی 11.63 فیصد ہوچکی ہے۔
پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح گرتے گرتے 3.29 فیصد ہوچکی ہے اور معاشی پیداواری سطح کی گراوٹ اسی طرح جاری رہی تو موجودہ سہ ماہی کے اختتام تک 3 فیصد سے بھی نیچے گرکر 2.80 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
ٹیکس چوری اور بینکوں کے قرضے ہڑپ کرنے کا عادی کاروباری طبقہ نئی صنعتیں نہیں لگا رہا ، لینڈ مافیا زمینوں پہ قبضے کے اپنے کاروبارکے خلاف پہلی بارکچھ قانونی کارروائیوں کے ہونے کے ردعمل میں نئے ہاؤسنگ منصوبے لانچ نہیں کر رہی، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کرپشن کے اربوں کھربوں روپے انویسٹ کرنے والے کرپٹ عناصر نے نیب اور ایف بی آر کے ریڈار پہ آنے کے امکان کے پیش نظر اپنا لوٹ کا مال گھروں میں قائم خفیہ بینکوں میں جمع کرنے اور جو ہو سکے۔
وہ ملک سے باہر بھیجنے پہ اس وقت اپنا فوکس رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح کے عوامل کی وجہ سے ملک میں کاروبار سکڑ رہے ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ اس ملک کی کالی اور غیر دستاویزی معیشت خود کو دستاویزی معیشت بنانے کی ہر طرح سے اور بھرپور مزاحمت کر رہی ہے اور اسے اس مزاحمت میں کرپٹ نوکر شاہی، اپوزیشن اور میڈیا کے بڑے حصے کا مستقل تعاون حاصل ہے۔ لوگ یہ بات سمجھتے ہیں خاص طور پہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ۔ یہ لوگ اب تک مایوس نہیں ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے عمران خان پہ جو اعتماد کیا تھا اس پہ اب تک یہ قائم تھے۔
عمران خان کے کیے گئے وعدوں پہ لوگوں کے یقین میں ابھی تک دراڑ نہیں پڑی تھی۔ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کم ازکم اہم ترین عہدوں پہ اہل ترین افراد لگائیں گے، لوگوں کو توقع تھی کہ عمران خان ایک آدھ سال میں کم ازکم بڑے مسائل پہ ٹھوس منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کا لائحہ عمل اور شیڈول ضرور سامنے لے آئیں گے۔
نہ صرف پی ٹی آئی ووٹر بلکہ زیادہ تر پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے کرپٹ نا اہل اور نا انصاف حکومتی، انتظامی، عدالتی اور مجموعی جمہوری نظام کو پاکستان اور پاکستانی دوست نظام میں بدلنے کی آخری امید، کم ازکم موجودہ جمہوری انتظام جسے اس ملک کو لوٹنے والی بڑی بڑی سیاسی مافیاؤں کو دیے گئے این آر او نے جنم دیا تھا۔ اس انتظام میں سے اس ملک کے عام لوگوں کے لیے بھلائی کا پہلو ممکن بنانے کی امید ابھی بھی عمران خان ہیں۔
تاہم اب لوگ مایوس نظر آرہے ہیں۔ جنھوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے وہ بھی تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی پہ تنقید کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ اب شریف یا زرداری خاندان کی دوبارہ سے حکومت چاہ رہے ہیں۔ پاکستانی پچھلے پچاس سالوں میں ان کی حکمرانی اور اس حکمرانی کی پیدا کردہ تباہی بھگتتے رہے ہیں، کراچی کے لوگ تو اب بھی بھگت رہے ہیں۔ تاہم لوگ اب تحریک انصاف سے بھی مایوس ہو رہے ہیں۔
وہ لوگ جو مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کے بڑھتے بل، کاروباری نقصان تبدیلی کی امید میں برداشت کیے جا رہے تھے وہ اس ایک مہینے میں ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ایک دم اتنے مایوس ہوگئے ہیں؟ یہ دو ایسے واقعات اور ان پر حکومتی ردعمل خصوصاً وزیر اعظم عمران خان کا ردعمل ہے جس نے ان کے کٹر حامیوں تک کو شاک اور دکھ پہنچایا ہے۔
پہلا واقعہ جب حکومت نے اپنی صفوں میں موجود مختلف صنعتی مافیاؤں کے نمایندوں کے اشارے پہ فرٹیلائزر،گیس اور بجلی کی کمپنیوں جن میں ایل این جی ٹرمینل اسکینڈل میں مبینہ طور پر پاکستان کو بھاری نقصان پہنچانے والے اور مقبول عام عوام دشمن کمپنی جس پہ نیپرا کے مطابق کراچی کی حالیہ بارشوں میں ہونے والی 19 اموات کی ذمے داری عائد ہوتی ہے کو ان کے 208 ارب روپے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معاف کردیے۔
وہ 208 ارب روپے معاف کردیے جو ان کمپنیوں نے عوام سے بٹورے تھے، یہ لوگوں کے اس حکومت پہ تبدیلی لانے کے اعتماد کو بڑا دھچکا تھا کہ حکومت نے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری بھی کیا تو وہ عوام کے مال کو ان کمپنیوں کے لیے حلال کرنے کے لیے کیا۔ لوگوں کو دکھ ہوا کہ اس حکومت نے ملک کو لوٹنے والے بڑے بڑے لٹیروں کو جیل اور اسپتال میں ملنے والی وی وی آئی پی سہولتوں اور پروٹو کول سے محروم کرنے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔
کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگانے والی اس حکومت نے ایف بی آر، ایف آئی اے سمیت دوسرے کرپٹ محکموں کے بڑے بڑے کرپٹ افسروں کو نوکریوں سے برطرف کرکے ان سے کرپشن کا مال نکلوانے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔ اس حکومت نے بڑی بڑی نجی کمپنیوں کے عوام کے اربوں روپے ڈکارنے اور پھر اس ملک کی عدالتوں سے نہ ختم ہونے والے اسٹے آرڈرز لینے کے سلسلے کو ختم کرنے کے لیے کوئی صدارتی آرڈیننس جاری نہیں کیا۔
دوسرا واقعہ ذہنی معذور انسان صلاح الدین کی بدنام زمانہ پنجاب پولیس کی تحویل میں شدید ٹارچر سے موت ہے۔ لوگ آج تک سانحہ ساہیوال نہیں بھولے تھے کہ پولیس کے تشدد سے لوگوں کی ہلاکتوں اور دوسری زیادتیوں پہ مبنی ویڈیو تواتر سے سامنے آنے لگیں۔
ان ویڈیوز اور ان پہ تحریک انصاف کی حکومت کا رویہ لوگوں کو جھنجھوڑ گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی زرداری اور شریف حکومتوں اور اس سے پہلے کی حکومتوں کی طرح چند نچلے درجے کے پولیس والے معطل کیے، چند ایک کو گرفتار کیا مگر ان کے خلاف ایف آئی آر کمزور بنائی گئیں جیساکہ دستور ہے۔
پنجاب حکومت نے ایک سال بعد پولیس کے تشدد کے سدباب کے لیے تو نہیں البتہ پولیس کے تشدد کے ویڈیوز منظر عام پہ آنے کی روک تھام کے لیے تھانوں میں کیمروں والے موبائل فونز پر پابندی لگادی۔ اسی پنجاب حکومت نے سرکاری اسپتالوں میں ملنے والی مفت ٹیسٹ کرانے کی سہولتیں بھی عوام سے چھین لی ہیں اور عمران خان لوگوں خصوصاً اپنے حامیوں کے زخموں پہ عثمان بزدار کا دفاع کرکے اور وسیم اکرم پلس کی حکمرانی جاری رکھنے کے عزم سے نمک چھڑک رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم آپ بے شک عثمان بزدارکو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنائے رکھنے کو اپنی انا اور عوام کی چڑ بنالیں مگر یہ نہ بھولیں کہ آپ کو ووٹ دینے والے نہ ہی دیہی سندھ کی وڈیرہ پارٹی کے غلام ہاری ہیں اور نہ ہی وسطی پنجاب کی پارٹی کے برادری ازم اور موروثی سیاست کے اندھے پیرو کار۔ جناب وزیر اعظم آپ کو ووٹ تبدیلی کے لیے ملے تھے یہ قیمے بھرے نان والے ووٹ نہیں تھے۔