صحافتی نشیب و فراز
یہ سب کچھ عمران خان کی حکومت میں ہو رہا ہے جن کے دھرنوں کو میڈیا نے بے انتہا کوریج دی تھی۔
صحافت کبھی مقدس و باعزت پیشہ تھا مگر اب صحافت تبدیل ہوگئی ہے۔ صحافت سے منسلک ہونا پہلے اخبارات سے منسلک ہونے کو سمجھا جاتا تھا اور 1988 تک اخبارات و رسائل کے ڈیکلیریشن کا حصول بہت مشکل تھا اور مہینوں نہیں بلکہ سالوں کے بعد پی آئی ڈی اسلام آباد کی اجازت کے بعد ڈیکلیریشن ملا کرتی تھی۔
جنرل ایوب خان کے مارشل لا میں اخبارات پر سنسر بھی تھا مگر کئی مسائل پر شایع ہونے والی خبروں پر سرکاری طور پر ایکشن بھی ہوتا تھا۔ جہاں محکمہ اطلاعات کے دفاتر ہوتے تھے وہاں سے ایسی خبروں کی کٹنگ متعلقہ دفاتر کو بھیجی جاتی تھیں اور اخباروں میں شایع ہونے والے مراسلوں پر بھی متعلقہ محکمے ایکشن لے کر عوام کے مسائل حل کرا دیا کرتے تھے۔
ایک بڑا اخبار دہائیوں تک چھایا رہا جس میں خبریں کم اور اشتہارات کی بھرمار ہوتی تھی جس کے مقابلے پر کئی اخبار نکلے مگر بڑے اخبار کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے، جس کا توڑ 22 سال قبل کراچی سے شایع ہونے والے روزنامہ ''ایکسپریس'' سے ممکن ہوا جس نے تین روپے کی معمولی قیمت پر ایک مکمل اور ضخیم اخبار پیش کیا جس میں کھیلوں کی خصوصاً اور ہر اہم خبریں مکمل غیر جانبداری اور تفصیل سے پیش کی جاتی تھیں۔
روزنامہ ایکسپریس اپنی پالیسی سے نہ صرف کراچی سے کامیاب ہوا اور ملک میں پھیلتے پھیلتے اب ملک کے گیارہ شہروں سے کامیابی سے شایع ہو رہا ہے اورگزشتہ کئی سالوں سے بڑے اخبار کے پرانے بڑے کالم نگار ایکسپریس سے منسلک چلے آرہے ہیں۔
راقم نے 18 سال قبل روزنامہ ایکسپریس سے کالم نگار کی حیثیت سے وابستگی اختیار کی تھی جسے اس سال 20 ستمبرکو 18 سال مکمل ہوجائیں گے جب کہ اپنی صحافت کے 51 سالہ رفاقت میں راقم اپنے آبائی شہر شکارپور میں 13 سال بڑے اخبارکا رپورٹر بھی رہا جہاں مصلحت کے باعث نہ صرف بعض خبریں روک لی جاتی تھیں بلکہ حیرت انگیز طور پر کراچی ایڈیشن میں روکی جانے والی ایکسکلوسیو خبریں دوسرے شہروں کے ایڈیشنوں میں شایع ہوجاتی تھیں اور اسی پالیسی کے باعث راقم کو اپنا شہر اس لیے چھوڑنا پڑا تھا کہ شکارپور آنے والے ایڈیشن میں بے نظیر بھٹو اور جی ایم سید کے شکارپور کے جلسوں کی خبریں شایع کرنے کی بجائے لوکل ایڈیشن میں لگا دی جاتی تھیں جس کا ذمے دار ادارہ تھا مگر سزا راقم کو ملی تھی۔
1988 میں پریس آرڈیننس کی منسوخی کے بعد جب غلام اسحق خان قائم مقام صدر تھے صحافت سے ایک کالے قانون کا خاتمہ ہوا اور نئے ڈکلیریشن کے اجرا کا اختیار وفاق سے صوبوں کو ملا تو ہر ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے صوبائی محکمہ اطلاعات سے نام کا این او سی لے کر اخبارات کی اشاعت کا ڈکلیریشن باآسانی دینا شروع کیا تو ملک میں نئے اخبارات کی بھرمار ہوگئی اور جن ضلعی صدر مقامات تو کیا چھوٹے شہروں سے بھی نئے اخبارات نکل پڑے اور صحافت سے عوام کا اعتماد بھی اسی نتیجے میں ختم ہونا شروع ہوا اور صحافت میں بگاڑ بھی آگیا۔
جس کو صحافت کے ''ص'' کا بھی نہ پتا تھا وہ چیف ایڈیٹر اور پبلشر بن گئے اور اخباری اخراجات نکالنے کے لیے بلیک میلنگ شروع ہوئی تو اخبارات سے منسلک سنجیدہ اور مخلص صحافیوں کی عزت بھی متاثر ہوئی اور صحافیوں کی اہمیت بھی ختم ہونے لگی مگر عوام کے بااعتماد اخبارات اور صحافیوں کی ساکھ برقرار رہی۔ اخبارات کی بہتات سینئر صحافیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی اور صحافت مشن کی بجائے کاروبار کی شکل اختیار کرگئی جس سے حقیقی صحافیوں کی ساکھ متاثر ہوئی۔
جنرل پرویز مشرف ایک آمر حکمران کہلاتے تھے مگر سینئر صحافی ان کے دور میں پریس کی آزادی کو نام نہاد جمہوری حکومتوں کے دور سے زیادہ بہتر قرار دیتے ہیں اور صحافت کی موجودہ آزادی اور ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کا سہرا بلاشبہ جنرل پرویز مشرف ہی کی حکومت کو جائے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی حکومت تو نہیں تھی مگر ان کی سربراہی میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی جس کے دو سیاستدان وزیر اعظم تھے۔
جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت حسین تین ماہ وزیر اعظم رہے اور ایک غیر سیاسی شخص شوکت عزیز کو جنرل پرویز مشرف نے اپنی مرضی سے وزیر اعظم بنایا تھا۔ مشرف دور میں میڈیا پر شوکت عزیز سے زیادہ جنرل پرویز مشرف پر تنقید کی جاتی تھی مگر جنرل پرویز مشرف نے فوجی ہوتے ہوئے میڈیا پر پابندی لگائی نہ ایسا سلوک کیا جو موجودہ حکومت میں میڈیا کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ تبدیلی حکومت میں اظہار رائے پر پابندی ہے اور میڈیا کو ایڈوائس دے کر مخالفین کی میڈیا کوریج رکوائی جا رہی ہے۔
نواز حکومت میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے طویل دھرنوں میں میڈیا ان کی بھرپور کوریج کر رہا تھا اور میڈیا کو کوئی ہدایات نہیں دی جا رہی تھیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور میں مخالف اخبارات کو بند کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی اور یہ سب کچھ سینیٹر سیف الرحمن اور صحافت سے تعلق رکھنے والے مشاہد حسین سید کی وزارت اطلاعات میں ہوا تھا اور ایک بڑا اخبار صرف چار صفحات تک محدود کرا دیا گیا تھا۔
آج کل کہا جا رہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے اخبارات بری طرح متاثر ہوئے ہیں،شاید ایسا ہو مگر موجودہ حکومت میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو جو نقصان پہنچا ہے وہ کبھی ماضی میں نہیں پہنچا تھا۔ اب بے شمار اخبارات و ٹی وی چینلز بند، دس ہزار سے زائد میڈیا ملازمین بے روزگار کر دیے گئے ہیں۔ میڈیا کو بزنس برائے نام مل رہا ہے جب کہ حکومتوں کی طرف میڈیا کے کروڑوں روپے واجب الادا ہیں جس کی ادائیگی کے لیے اے پی این ایس اور صحافتی تنظیمیں مسلسل مطالبات کر رہی ہیں مگر حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور میڈیا اور میڈیا پرسنز کو درپیش مشکلات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
یہ سب کچھ عمران خان کی حکومت میں ہو رہا ہے جن کے دھرنوں کو میڈیا نے بے انتہا کوریج دی تھی اور انھیں وزیر اعظم بنوانے میں میڈیا نے نہایت ہی اہم کردار ادا کیا تھا جس کی سزا میڈیا بھگت رہا ہے۔ حکومت کے محکمہ اطلاعات میں صرف یہ تبدیلی آئی ہے کہ اخبارات کی اے بی سی کی مدت ایک سال سے بڑھا کر تین سال کردی گئی ہے۔ دو سال سے سرکاری اشتہارات کے نرخ نہیں بڑھائے گئے اور حکومت نے صرف مہنگائی بڑھائی ہے اور صحافت مشکل ترین حالات سے گزر رہی ہے مگر صحافیوں سے ماضی میں بڑی ہمدردی جتانے والے خاموش ہیں صرف وعدے ہو رہے ہیں دیکھیے عمل کی نوبت کب آتی ہے۔