زندگی کا نصب العین

 کیا ہم نیک کام کرنے والے مومنین کو ان لوگوں کی طرح رکھیں گے جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ؟

کیا ہم نیک کام کرنے والے مومنین کو ان لوگوں کی طرح رکھیں گے جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ؟ فوٹو : فائل

اسلام کے تمام شعبوں کو اگر دیکھا جائے چاہے وہ عبادات ہوں یا معاملات، اخلاق ہوں یا آداب' معاشرت ہو یا معیشت ان سب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ان سب ہدایات کا اصل مقصد اعلی کیا ہے۔

لفظ مقصد اور نصب العین میں تھوڑا سا فرق ہے۔ جس بات کے لیے ہم کوئی کام کریں وہ بات اس کام کا مقصد ہوتا ہے لیکن نصب العین مقصد اعلیٰ کو کہتے ہیں۔ جیسے ہم محنت مزدوری کریں یا تجارت کریں تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ روپیا پیسہ حاصل ہوگا، زندگی گزارنے کا سامان پیدا ہوگا، یہ تجارت و صنعت کا مقصد ہے۔

لیکن اس کا مقصد اعلیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو پورا کرتے ہوئے ہم روزی کمائیں پھر اپنے بیوی بچوں، اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کے اخراجات کو پورا کریں، رشتے داروں، غرباء اور مساکین کا خیال رکھیں کیوں کہ ان تمام باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ تجارت کا مقصد اعلیٰ ہے جسے نصب العین کہتے ہیں۔ اگر مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان کا نصب العین صرف اور صرف اطاعت الٰہی ہے۔

اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر بے مقصد زندگی گزاری جائے تو پھر یہ انسان، انسانیت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے جب کہ ایک بے شعور بچہ بھی ماں کی گود میں بے مقصد نہیں روتا۔ یا اسے بھوک لگتی ہے یا کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پھر ایک عقل مند انسان بے مقصد زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اسی بات کو سوالیہ انداز میں خود انسان سے پوچھا، مفہوم: '' کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بے کار پیدا کیا۔''

یہ اللہ رب العزت کا حکیمانہ انداز ہے کہ خود انسان کو اس بات پر غور و فکر کر کے قائل کروا لیا جائے کہ تمہارا کوئی نصب العین ہونا چاہیے اگر انسان کا نصب العین نہ ہو تو پھر نیک آدمی کو کس طرح نیکی پر آمادہ کیا جا سکے گا ؟ بُرے شخص کو بُرائی سے کس طرح روکا جا سکے گا ؟ اس لیے کہ نیک کام کی خواہش اور بُرے کام سے پرہیز جب ہی ممکن ہے جب کوئی نصب العین ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' کیا ہم نیک کام کرنے والے مومنین کو ان لوگوں کی طرح رکھیں گے جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ؟ کیا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کی طرح رکھیں گے۔؟ ''


جب سے دنیا و جود میں آئی ہے اس وقت سے آج تک پوری انسانیت کا نصب العین صرف ایک ہی چیز کو قرار دیا گیا ہے، یعنی انسان کو اپنے رب کو پہچاننا چاہیے اور جس طرح اُس نے حکم دیا ہے اُس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارنا چاہیے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کا نصب العین صرف ایک ہی تھا کہ ایک خدا کی عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ارشاد نبویؐ کو ذہن میں نقش کر لیا جائے۔

رسول کریمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : '' میں نے تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے گم راہ نہ ہو گے، ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔''

بخاری شریف کے ''باب الزکوٰۃ من الاسلام'' کی پہلی روایت میں ایک صحابیؓ کو رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تعلیمات سکھائیں آپؐ کے ارشادات کو سن کر جب وہ صحابیؓ جانے لگے۔ تو انہوں نے کہا: ''خدا کی قسم میں اس میں نہ زیادتی کروں گا نہ اس میں کمی کروں گا۔''

اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اگر یہ سچ کہتا ہے تو کام یاب ہے۔''

اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت الٰہی صرف جب ہی ممکن ہے جب ان دونوں راستوں کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے۔ کیوں کہ یہی نصب العین فلاح و کام یابی کا راستہ ہے۔ لیکن مسلمان اگر اپنا نصب العین کچھ اور بنا لیں، آخرت کی طرف سے رخ موڑ کر دنیا کو مقصد اعلیٰ قرار دے لیں تو وہ مقصد بھی ضرور حاصل ہوگا۔ لیکن ہم اصل نصب العین سے ہٹ کر الگ ہو جائیں گے اور سوائے خسارے کے کچھ بھی نہ ملے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ جو شخص دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کی کھیتی میں اور اضافہ کریں گے، اگر کوئی شخص صرف دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اسے دے دیں گے لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔

اللہ رب العزت ہمیں ہر کام میں خلوص اور محض اطاعتِ الٰہی کے لیے اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story