پی سی بی اور فرنچائزز میں دوریاں پی ایس ایل کی کشتی طوفانوں میں گھرنے لگی
مفاہمت کی پالیسی کے بجائے سخت رویہ اپنانے سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑگئے،نوبت دھمکیوں تک پہنچ گئی،ذرائع
پی سی بی اور فرنچائزز میں دوریاں بڑھنے سے پی ایس ایل کی کشتی طوفانوں میں گھرنے لگی۔
پی سی بی اور فرنچائزز میں دوریاں بڑھنے سے پی ایس ایل مسائل کا شکار ہے، حکام نے کئی بار وعدے کرنے کے باوجود ٹیم اونرز کے تحفظات دور نہ کیے بلکہ انھیں زیرالتوا رکھنے کا انداز اپنایا، جس کی وجہ سے اب لیگ چند ماہ کی دوری پر ہے لیکن لاتعداد مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
تاخیری حربوں اور رابطے کے فقدان کی وجہ سے بورڈ اور فرنچائزز میں دوریاں بڑھ گئیں اور اب ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا قائم ہو چکی ہے، ایسے میں مفاہمت کی پالیسی کے بجائے سخت رویہ اپنانے سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑنے لگے اور نوبت دھمکیوں تک پہنچ گئی ہے۔
فرنچائزز کو6ماہ قبل مکمل فیس کے مساوی رقم کی بینک گارنٹی جمع کرانا پڑتی ہے،اس حوالے سے بورڈ کی جانب سے کئی ماہ قبل ہی خطوط بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا، مگر تاحال کسی ایک فرنچائز نے بھی ایسا نہیں کیا، ان کا جواز ہے کہ اب لیگ کو کئی برس گذر چکے لہذا بداعتمادی کی فضا ختم ہو جانی چاہیے۔
اگر گارٹنی لینا ضروری ہے تو صرف نئی فرنچائز سے لیں، مگر بورڈ یہ بات ماننے کو تیار نہیں،اس کی وجہ بعض تلخ تجربات ہیں، ماضی میں فیس کی عدم ادائیگی پر چند ٹیموں کی بینک گارنٹی کیش بھی کرائی جا چکی،ایک کا چیک باؤنس ہونے پر ایف آئی آر تک کٹوانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اسی لیے حکام کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتے۔
دوسری جانب بورڈ نے6ماہ سے زائد وقت گذرنے کے باوجود تاحال پی ایس ایل فور کے حسابات کو حتمی شکل نہیں دی، ایونٹ کا فائنل15مارچ کونیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا۔
قوانین کے مطابق اب تک ادائیگی ہو جانی چاہیے تھی مگر حیران کن طور پر پی سی بی ایسا نہیں کر سکا، اس پر فرنچائز مالکان نے مشترکہ طورپر فیصلہ کیا ہے کہ جب تک انھیں رواں برس منعقدہ ایڈیشن کے حتمی حسابات نہیں دیے جاتے وہ بینک گارنٹی جمع نہیں کرائیں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ بورڈ کی نئی انتظامیہ پی ایس ایل کے معاملات کو کنٹرول کرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔
چیئرمین احسان مانی نے یہ کام سی ای او وسیم خان کو سونپا تھا، انھوں نے ڈائریکٹر کمرشل بابرحمید کا تقرر کرتے ہوئے ان کو لیگ کے معاملات ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا مگر وہ بھی کچھ نہیں کر سکے، پہلے مفادات کے عدم ٹکراؤ کی پالیسی بنانے کے بعد اب مصباح الحق کو قومی ٹیم کے ساتھ فرنچائز کیلیے کام کی اجازت پر بھی کئی مالکان ناراض ہیں، ان تنازعات سے لیگ کو ہی سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پی سی بی نے بھی معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے سخت رویہ اپنا لیا ہے،چیف فنانشل آفیسر بدر منظور خان کی فرنچائز مالکان کو ای میل سے بھی معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس اس کی کاپی بھی موجود ہے۔
انھوں نے واضح طورپر لکھا کہ ''فرنچائزز کی جانب سے بورڈ کو بینک گارنٹی جمع نہ کرانے کا فوری اثر پی ایس ایل ڈرافٹ پر پڑے گا جو اب مجوزہ شیڈول پر منعقد نہیں ہو پائیں گے'' واضح رہے کہ اس کیلیے اکتوبر کے اواخرکی تاریخ دی گئی تھی، بدر منظور نے یہ بھی لکھا کہ ورکنگ گروپس کو جو ٹاسک دیے گئے تھے انھیں بھی اب وقتی طور پر روک دیا گیا ہے، تمام فرنچائزز 10دن میں بینک گارنٹی جمع کرا دیں بصورت دیگرپی سی بی کے حقوق کو محفوظ رکھنے کیلیے ہمارے پاس ضروری ایکشن لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اگر معاملات ہنگامی طور پر حل نہ کیے گئے تو حالات مزید سنگین رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
پی سی بی اور فرنچائزز میں دوریاں بڑھنے سے پی ایس ایل مسائل کا شکار ہے، حکام نے کئی بار وعدے کرنے کے باوجود ٹیم اونرز کے تحفظات دور نہ کیے بلکہ انھیں زیرالتوا رکھنے کا انداز اپنایا، جس کی وجہ سے اب لیگ چند ماہ کی دوری پر ہے لیکن لاتعداد مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں۔
تاخیری حربوں اور رابطے کے فقدان کی وجہ سے بورڈ اور فرنچائزز میں دوریاں بڑھ گئیں اور اب ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا قائم ہو چکی ہے، ایسے میں مفاہمت کی پالیسی کے بجائے سخت رویہ اپنانے سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید بگڑنے لگے اور نوبت دھمکیوں تک پہنچ گئی ہے۔
فرنچائزز کو6ماہ قبل مکمل فیس کے مساوی رقم کی بینک گارنٹی جمع کرانا پڑتی ہے،اس حوالے سے بورڈ کی جانب سے کئی ماہ قبل ہی خطوط بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا، مگر تاحال کسی ایک فرنچائز نے بھی ایسا نہیں کیا، ان کا جواز ہے کہ اب لیگ کو کئی برس گذر چکے لہذا بداعتمادی کی فضا ختم ہو جانی چاہیے۔
اگر گارٹنی لینا ضروری ہے تو صرف نئی فرنچائز سے لیں، مگر بورڈ یہ بات ماننے کو تیار نہیں،اس کی وجہ بعض تلخ تجربات ہیں، ماضی میں فیس کی عدم ادائیگی پر چند ٹیموں کی بینک گارنٹی کیش بھی کرائی جا چکی،ایک کا چیک باؤنس ہونے پر ایف آئی آر تک کٹوانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اسی لیے حکام کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتے۔
دوسری جانب بورڈ نے6ماہ سے زائد وقت گذرنے کے باوجود تاحال پی ایس ایل فور کے حسابات کو حتمی شکل نہیں دی، ایونٹ کا فائنل15مارچ کونیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا تھا۔
قوانین کے مطابق اب تک ادائیگی ہو جانی چاہیے تھی مگر حیران کن طور پر پی سی بی ایسا نہیں کر سکا، اس پر فرنچائز مالکان نے مشترکہ طورپر فیصلہ کیا ہے کہ جب تک انھیں رواں برس منعقدہ ایڈیشن کے حتمی حسابات نہیں دیے جاتے وہ بینک گارنٹی جمع نہیں کرائیں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ بورڈ کی نئی انتظامیہ پی ایس ایل کے معاملات کو کنٹرول کرنے میں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔
چیئرمین احسان مانی نے یہ کام سی ای او وسیم خان کو سونپا تھا، انھوں نے ڈائریکٹر کمرشل بابرحمید کا تقرر کرتے ہوئے ان کو لیگ کے معاملات ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا مگر وہ بھی کچھ نہیں کر سکے، پہلے مفادات کے عدم ٹکراؤ کی پالیسی بنانے کے بعد اب مصباح الحق کو قومی ٹیم کے ساتھ فرنچائز کیلیے کام کی اجازت پر بھی کئی مالکان ناراض ہیں، ان تنازعات سے لیگ کو ہی سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
پی سی بی نے بھی معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے سخت رویہ اپنا لیا ہے،چیف فنانشل آفیسر بدر منظور خان کی فرنچائز مالکان کو ای میل سے بھی معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، نمائندہ ''ایکسپریس'' کے پاس اس کی کاپی بھی موجود ہے۔
انھوں نے واضح طورپر لکھا کہ ''فرنچائزز کی جانب سے بورڈ کو بینک گارنٹی جمع نہ کرانے کا فوری اثر پی ایس ایل ڈرافٹ پر پڑے گا جو اب مجوزہ شیڈول پر منعقد نہیں ہو پائیں گے'' واضح رہے کہ اس کیلیے اکتوبر کے اواخرکی تاریخ دی گئی تھی، بدر منظور نے یہ بھی لکھا کہ ورکنگ گروپس کو جو ٹاسک دیے گئے تھے انھیں بھی اب وقتی طور پر روک دیا گیا ہے، تمام فرنچائزز 10دن میں بینک گارنٹی جمع کرا دیں بصورت دیگرپی سی بی کے حقوق کو محفوظ رکھنے کیلیے ہمارے پاس ضروری ایکشن لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اگر معاملات ہنگامی طور پر حل نہ کیے گئے تو حالات مزید سنگین رخ اختیار کر سکتے ہیں۔