چونیاں میں درندگی کا شکار بچے قاتل آزاد
بچے جو درندگی کا شکار ہوتے ہیں انھیں انصاف نہیں ملتا اور دوسرے بچے مسلسل بدسلوکی ہونے کے خوف میں جی رہے ہیں۔
قصور پولیس چار دن گزرنے کے باوجود چونیاں میں تین بچوں کے قاتلوں کوگرفتار نہ کرسکی۔
حکومتی سطح پر بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور ٹویٹر پر پیغامات کے ذریعے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ قاتل جلد گرفتار ہوں گے اور قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔کیا سفاکی اور بے رحمی کا یہ پہلا واقعہ ہے جو قصور میں رونما ہوا ہے؟ زینب قتل کیس کے وقت معاملات کو درست انداز میں حل کیا جاتا تو آج یہ سب کچھ دہرایا نہیں جاتا، اس وقت عوام مشتعل ہوگئے تھے اور سب کچھ انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوگیا تھا، تو زینب کے قاتل کو قرار واقعی سزا ملی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ قصور میں یہ سب نیا نہیں ہو رہا، بچے جو درندگی کا شکار ہوتے ہیں انھیں انصاف نہیں ملتا اور دوسرے بچے مسلسل بدسلوکی ہونے کے خوف میں جی رہے ہیں۔ انتظامیہ غفلت کا شکار نہ ہو توکسی کی جرات نہیں کہ وہ قانون شکنی پر اتر آئے۔ جرائم پر وہاں پنپتے ہیں جہاں جرم کرنے پر سزا کا تصور ختم ہوجائے ۔ مجرموں کے دل سے قانون کا خوف نکل جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی اورقتل کے واقعات صرف قصور میں نہیں ہو رہے بلکہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے ۔
اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بچوںکے ساتھ جنسی زیادتی سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے ، پاکستان میں سال 2019 کے دوران اب تک تیرہ سوچار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
بچوں پر مشکلات اور جنسی زیادتیوں کے حوالے سے تحقیق اور سروے کرنے والی تنظیم ''ساحل'' نے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں729 بچیاں جب کہ 575بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ساحل کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہا گیاہے کہ رواں برس روزانہ 7سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے ،کم عمری میں شادی کے 40 واقعات پیش آئے جب کہ ایک بچی کو ونی بھی کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس جنسی تشدد کا شکار بننے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی ہے۔پنجاب میں 652 سندھ میں 458 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بلوچستان میں 32 جب کہ اسلام آباد میں 90 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ساحل کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 51، آزاد کشمیر میں 18اور گلگت بلتستان میں 3بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1145 واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے جب کہ 38 واقعات پولیس نے رپورٹ ہی نہ کیے۔
رواں برس صوبائی دارالحکومت لاہور میں 50 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ یہ رپورٹ دراصل انتظامیہ کی غفلت کو ظاہرکرتی ہے کہ قانون کتنا بے بس اورلاچار ہے اور مجرم کتنے دیدہ دلیر ہیں۔اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین ، سول سوسائٹی ، انتظامیہ اور حکومت مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے ان اندوہناک واقعات کا تدارک ہوسکے۔
حکومتی سطح پر بیانات کا سلسلہ جاری ہے اور ٹویٹر پر پیغامات کے ذریعے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ قاتل جلد گرفتار ہوں گے اور قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔کیا سفاکی اور بے رحمی کا یہ پہلا واقعہ ہے جو قصور میں رونما ہوا ہے؟ زینب قتل کیس کے وقت معاملات کو درست انداز میں حل کیا جاتا تو آج یہ سب کچھ دہرایا نہیں جاتا، اس وقت عوام مشتعل ہوگئے تھے اور سب کچھ انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوگیا تھا، تو زینب کے قاتل کو قرار واقعی سزا ملی تھی۔
سچ تو یہ ہے کہ قصور میں یہ سب نیا نہیں ہو رہا، بچے جو درندگی کا شکار ہوتے ہیں انھیں انصاف نہیں ملتا اور دوسرے بچے مسلسل بدسلوکی ہونے کے خوف میں جی رہے ہیں۔ انتظامیہ غفلت کا شکار نہ ہو توکسی کی جرات نہیں کہ وہ قانون شکنی پر اتر آئے۔ جرائم پر وہاں پنپتے ہیں جہاں جرم کرنے پر سزا کا تصور ختم ہوجائے ۔ مجرموں کے دل سے قانون کا خوف نکل جاتا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی اورقتل کے واقعات صرف قصور میں نہیں ہو رہے بلکہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے ۔
اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سنجیدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بچوںکے ساتھ جنسی زیادتی سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے جاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے ، پاکستان میں سال 2019 کے دوران اب تک تیرہ سوچار بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
بچوں پر مشکلات اور جنسی زیادتیوں کے حوالے سے تحقیق اور سروے کرنے والی تنظیم ''ساحل'' نے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں میں729 بچیاں جب کہ 575بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ساحل کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہا گیاہے کہ رواں برس روزانہ 7سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے ،کم عمری میں شادی کے 40 واقعات پیش آئے جب کہ ایک بچی کو ونی بھی کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس جنسی تشدد کا شکار بننے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی ہے۔پنجاب میں 652 سندھ میں 458 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔بلوچستان میں 32 جب کہ اسلام آباد میں 90 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ساحل کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں 51، آزاد کشمیر میں 18اور گلگت بلتستان میں 3بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 1145 واقعات پولیس میں رپورٹ ہوئے جب کہ 38 واقعات پولیس نے رپورٹ ہی نہ کیے۔
رواں برس صوبائی دارالحکومت لاہور میں 50 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ یہ رپورٹ دراصل انتظامیہ کی غفلت کو ظاہرکرتی ہے کہ قانون کتنا بے بس اورلاچار ہے اور مجرم کتنے دیدہ دلیر ہیں۔اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین ، سول سوسائٹی ، انتظامیہ اور حکومت مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے ان اندوہناک واقعات کا تدارک ہوسکے۔