میڈیا کا کردار

میڈیا بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے لہٰذا وہ طبقاتی تضادات کو اس طرح اجاگر نہیں کرتا کہ عوام مزاحمت پر اتر آئیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے عوام میں بیداری کے حوالے سے کوئی کردار ادا نہ کیا، کیونکہ رائے عامہ کی بیداری کا مطلب اشرافیہ کی تباہی اور اشرافیہ کی موت کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔

اور اشرافیہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کیسے کرسکتی ہے؟ ماضی میں میڈیا کا دائرہ کار حکمرانوں کی خدمت حکمرانوں کے کارناموں کی تشہیر کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی تبدیلی آتی گئی اور میڈیا حکمرانوں کی مدح سرائی سے نکل کر اب حکمرانوں پر تنقید تک پہنچ گیا ہے۔ بلکہ اب صورتحال یہ ہے کہ حکمران اور سیاستدان میڈیا سے خوف کھاتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ''ہر قیمت'' پر میڈیا کو دوست بناکر رکھیں۔

حکمران طبقے پر تنقید سے یہ اندازہ تو ہوتا ہے کہ ''میڈیا آزاد ہے'' لیکن عوام سرمایہ دارانہ جمہوریت میں کس قدر مجبور ہوتے ہیں اور انھیں کیسے کیسے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس پر میڈیا کی تنقید سرسری ہی ہوتی ہے۔ مثلاً میڈیا میں بار بار یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ پسماندہ ملکوں میں 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

میڈیا بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع ہے لہٰذا وہ طبقاتی تضادات کو اس طرح اجاگر نہیں کرتا کہ عوام مزاحمت پر اتر آئیں لیکن میڈیا ایک تو ''غربت کی لکیر'' سے عوام کو باخبر کرسکتا ہے ، دوسرے سرمائے کے ارتکاز کا مطلب اور اس کی وجوہات بتا سکتا ہے اگر میڈیا اتنا ہی کرم کر دے تو عوام میں طبقاتی شعور پیدا ہوسکتا ہے اور جن معاشروں کے عوام طبقاتی شعور سے لیس ہوتے ہیں ان میں خود بخود طبقاتی استحصال کے خلاف مزاحمت کا شعور جاگ جاتا ہے۔

خبروں یعنی نیوزکے علاوہ ویوزکو عوام تک پہنچانے کی ذمے داری بھی میڈیا پوری کرسکتا ہے لیکن ''ویوز'' پر جن صحافیوں کی اجارہ داری ہوتی ہے وہ بہت ''بیلنس'' ہوتے ہیں ایک محتاط صحافی اگر طبقاتی شعور سے محروم ہو تو وہ ویوزکے درست استعمال سے دانستہ پہلو تہی کرتا ہے اور یہی سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے کہ وہ آزادی اظہارکو بے لگام نہیں ہونے دیتا۔

مثلاً ہر سال میڈیا میں دنیا کے سب سے بڑے دولت مندوں کے بارے میں تفصیل سے خبریں چھپتی ہیں لیکن میڈیا یہ بتانے میں کسر نفسی سے کام لیتا ہے کہ ایک شخص کے ہاتھوں میں کھربوں روپوں کے ارتکاز سے کتنے لاکھ غریب پیٹ بھر غذا سے محروم ہو جاتے ہیں اور حکمران یا حکومت صرف یہ دیکھتی ہے کہ مرتکز سرمائے پر ٹیکس دیا گیا ہے یا نہیں؟اس قسم کے معاشی کلچرکا مطلب عوامی شعور کی جکڑ بندی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔


اس نظام سرمایہ داری میں قانون انصاف سب سرمایہ داروں کے باجگزار ہوتے ہیں ہر طبقے کو اس طرح جکڑ کر رکھا جاتا ہے کہ وہ حد سے باہر نہ جاسکے۔پاکستان کو قائم ہوئے اب 72 سال ہو رہے ہیں اور اتنا ہی عرصہ ہندوستان کو وجود میں آئے ہو رہا ہے۔

دونوں ملکوں کے عوام یکساں طور پر غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن ان مظلوم انسانوں کو کسی نے یہ بتانے کی زحمت تک نہیں کی کہ ان کی مظلومیت کے ذمے دار کون ہیں۔ ہندوستان میں بھی ادیب ہیں ، شاعر ہیں ، مفکر ہیں ، دانشور ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کسی منصوبہ بندی کسی پلان کے ساتھ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کے بجائے انھیں فرقہ وارانہ ماحول میں دھکیل دیا گیا۔ بھارت اب نہرو اور اندرا کا ملک نہیں رہا بلکہ ہندو انتہا پسندوں کا ملک بن گیا ہے اور عام ہندو بھی اس فضا سے متاثر ہو رہے ہیں اس مذہبی کلچرکی وجہ سے ان میں طبقاتی شعورکی آبیاری مشکل ہوگئی ہے اور عام آدمی بی جے پی کی مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو رہا ہے۔

یہ ڈرامہ اگرچہ بی جے پی کھیل رہی ہے لیکن اس کے اصل ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے سرپرست ہیں۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں جس شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے دونوں ملکوں کے عوام میں بھی فرقہ وارانہ فضا میں بھی اسی شدت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست عوام میں زیادہ سے زیادہ فرقہ وارانہ منافرت بڑھانا چاہتے ہیں اور یہ کام ہندو انتہا پسند کر رہے ہیں آج عوام میں جو نفرت پیدا ہو رہی ہے یہ کل جنگی جنون میں بدل سکتی ہے۔اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کے کاریگر ہر کام بڑی منصوبہ بندی سے کرتے ہیں اور ان کا طریقہ واردات ایک تیر سے کئی شکار کرنا ہوتا ہے۔

کشمیر کو 71 سالوں سے خصوصی حیثیت حاصل ہے یہ خصوصی حیثیت صرف آئین کی دفعات 35-A اور 370 میں بند تھی ورنہ 71 سالوں سے کشمیر کے بڑے حصے پر بھارت کا قبضہ تھا اور اس قبضے کی حفاظت بھارتی فوج کر رہی ہے، ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب کوئی پردہ نہیں رہا۔ اب دونوں ملک کہہ رہے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال ہمارے صوابدید پر ہے۔ بات اب روایتی ہتھیاروں سے نکل کر ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ گئی ہے بعض خیال کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سارا ڈرامہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے۔

ہم نے کالم کا آغاز میڈیا اور رائے عامہ کی تشکیل سے کیا تھا لیکن متعلقہ امور پر بھی روشنی ڈالنے کا موقع مل گیا۔ بلاشبہ موجودہ نازک حالات میں خواہ ان نازک حالات کی نوعیت کچھ ہی کیوں نہ ہو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مودی اینڈ کمپنی کے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں شدید اضافہ ہوگیا ہے اور اس کا اثر عام آدمی کی سوچ پر بھی پڑ رہا ہے۔

اس نازک صورتحال میں میڈیا منفی اور مثبت دونوں کردار ادا کرسکتا ہے منفی کردار یہ کہ کشیدگی کی آگ پر تیل ڈالا جائے اور جنگی جنون میں اضافہ کیا جائے۔ مثبت کردار یہ ہے کہ عوام کو جنگی نقصانات سے آگاہ کرکے دلوں میں پلنے والی نفرتوں کو کم کیا جائے۔
Load Next Story