کوڑے کے مسئلہ کا حل
کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی تجویزکراچی کے شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
کراچی کو آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کی تحویل میں دینے کا شوشہ چھوڑا گیا مگر وضاحت کردی گئی کہ ان کی بات کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے علاوہ کسی جماعت نے اس تجویزکی حمایت نہیں کی۔ جی ڈی اے کی قیادت بشمول پیر پگارا نے کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی مذمت کر دی۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سخت مؤقف اختیارکیا اور یہ کہا کہ مرکزکی پالیسی سے بنگلہ دیش بنا ، اب اس پالیسی سے سندھو دیش اور سرائیکی دیش وغیرہ بن سکتے ہیں۔
صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ نے اعلان کردیا کہ وزیر اعظم کی کراچی کے بارے میں بنائی جانے والے کمیٹی میں اگر ڈاکٹر فروغ نسیم شامل ہونگے تو صوبائی حکومت اس کمیٹی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی۔ قوم پرستوں نے بھی شورمچانا شروع کر دیا مگر اس تجویز کے پس منظر اور حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ کراچی کی حیثیت کا مسئلہ آیندہ بڑا مسئلہ بنے گا۔
کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی تجویزکراچی کے شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے۔کراچی کو پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کے دور میں سندھ سے علیحدہ کرکے مرکزکی تحویل میں دیدیا گیا تھا۔ پھر 1955ء سے 1970ء تک ون یونٹ قائم رہا۔ کراچی سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے تمام علاقے مغربی پاکستان میں ضم ہوگئے تھے۔
یوں پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی کی حکومت کراچی سمیت تمام علاقوں پر براہِ راست حکومت کر رہی تھی۔ مگر 15 سال کے اس دور میں کراچی کو جدید شہروں کی طرح ترقی دینے کے لیے جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ایوب خان کے دور میں کراچی میں نئی صنعتیں قائم ہوئیں۔ صوبہ سرحد اور پنجاب سے لاکھوں لوگ کراچی آکر آباد ہوئے۔ اس دور میں کچی بستیاں آباد ہوئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت پیدا ہوگئی۔ پانی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں کی ضرورت پڑ گئی۔
مگر کراچی کا ریوینو بڑھنے کے باوجود شہر کے انفرا اسٹرکچر پر توجہ نہیں دی گئی۔ ساری دنیا میں نچلہ اور متوسط طبقہ شہر کے وسط میں آباد ہوتا ہے اور امراء کو شہر کے باہر آباد کیا جاتاہے مگر کراچی میں اس اصول کو نظر انداز کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی ترقی کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 10 سال بھرپور اختیارات کے ساتھ اقتدارکی مسند سے لطف اٹھایا۔ اس دور میں چاروں صوبے موجود تو تھے مگر عملی طور پر ون یونٹ ہی تھا۔ اسی دور میں پنجاب کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ)جیلانی نے لاہورکے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
اسی وقت لاہور باغات کا شہر بنا مگر کراچی ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو اہمیت دی۔ نچلی سطح تک کے اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا، یوں کراچی میں ترقی کا دور شروع ہوا۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایم کیو ایم کے میئر مصطفیٰ کمال نے اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر کیے مگر انھوں نے ماس ٹرانزٹ اسکیم اور انڈر گراؤنڈ میٹرو سسٹم کی تعمیر کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر ہونے کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ مزید شدید ہوگیا۔ پانی کی فراہمی کے نئے منصوبے شروع نہیں ہوئے۔ چند گرین بسیں چلا کر ناظم اعلیٰ نے اپنے عہدے کا حق ادا کیا۔
کراچی کو وفاق نے اپنی تحویل میں لیا تو ملک کے کونے کونے سے ہجرت کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ خیبر پختون خوا ، پنجاب اور سرائیکی علاقے سے لاکھوں لوگ کراچی میں آباد ہونگے، یوں آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا۔ اردو بولنے والی آبادی اقلیت کا شکار ہو جائے گی۔ کراچی وفاقی علاقہ ہوگا تو ہر شہری کراچی میں آباد ہونے اورکراچی میں ٹرانسپورٹ، رہائش، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے مستفید ہونے کا حق رکھے گا۔
آبادی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو بولنے والی آبادی میں بچے پیدا کرنے کی شرح باقی برادریوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یوں آج کی اکثریتی آبادی مستقبل میں اقلیتی آبادی میں تبدیل ہوگی۔ برطانوی دور حکومت کی ایک خاص بات بلدیاتی نظام تھا۔ یہ بلدیاتی ادارے صحت، صفائی، پانی کی فراہمی اور نکاسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ انگریزوں نے بلدیاتی اداروںکو چلانے کے لیے منتخب کونسلروں کا نظام نافذ کیا۔
اس نظام کی بدولت شہروں میں ترقی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے دو دور حکومت میں بلدیہ کراچی کو با اختیار کیا گیا تھا اور فہیم الزماں کو با اختیار ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ اس وقت کی امن وامان کی صورتحال کی بناء پر بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوسکے تھے اور سارا نظام نامزدگیوں پر تھا، مگر پہلی دفعہ فہیم الزماں کے دور میں شہر کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی۔ مارکسٹ استاد انجینئر نعمان احمد فہیم الزماں کے مشیر تھے، یوں اوورہیڈ برج تعمیر ہوئے۔ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ یہ ابھی ابتداء تھی جو پیپلز پارٹی میں کرپشن کے کلچر کی نذر ہوگئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا۔ملک میں نچلی سطح تک اختیارات کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ یہ بھارت میں نافذ پنچائیت کے نظام کے قریب تر تھا مگر جنرل پرویز مشرف کے نظام میں صوبے کا کردار ختم ہوگیا تھا۔ مرکز براہِ راست سٹی گورنمنٹ کی سرپرستی کر رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کا تیسرا دور 2008ء میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذہنوں میں نچلی سطح تک اختیارات کے نظام کی اہمیت نہیں تھی ، یوں یہ نظام ختم کر دیا گیا۔
صفائی کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم ہوا اور کوڑے کا معاملہ چینی حکومت کی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دینے کو سمجھا گیا، اتنا گھمبیر قسم کا بلدیاتی قانون نافذ ہوا جس میں بلدیاتی امور کی ادائیگی کو متعدد اداروں میں تقسیم کیا گیا۔ کنٹونمنٹ، ریلوے، سول ایوی ایشن جیسے ادارے بھی بلدیاتی امورکی ادائیگی میں شامل رہے۔ قائم علی شاہ کا دور بد ترین انتظامی بد نظمی اورکرپشن کا دور کہلایا۔ ملازمتوں کی فروخت ، آسامیوں کی نیلامی جیسے مسائل سے صورتحال گھمبیر ہوگئی۔ شہر کوڑے کے ٹیلوں میں تبدیل ہونے لگا۔
شہر میں پانی کی قلت پیدا ہوئی اور سیوریج کا نظام بگڑا۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں خبریں شایع ہوئیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے صورتحال کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے ساری ذمے داری پورے ملک سے آنے والے لوگوں اور بڑھتی ہوئی آبادی پر ڈال دی۔ کوڑے کا مسئلہ جوکونسلرکا مسئلہ تھا وہ قومی مسئلہ بن گیا۔ تحریک انصاف کے نمایندوں نے انتخابات سے قبل اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔
قومی اسمبلی کے رکن عالمگیر خان کوڑے کے مسئلے کے ساتھ سیاسی افق پر ابھرے مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے توجہ نہیں دی۔ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے مسائل کے حل پر توجہ دی۔ شہر کی صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن بنا دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مسلم ہانی نے بار بار صوتحال کو تشویش ناک قرار دیا۔ جسٹس مسلم ہانی کی رولنگ پر صاف پانی کے پلانٹ لگے۔
غیر حاضر کارکنوں کی نشاندہی ہوئی مگر ایک دن وہ تھک ہار کر استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سپریم کورٹ نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا اوراس بورڈ کو توڑنے کا حکم دیا۔ سندھ کی حکومت نے صفائی کے نظام پر توجہ تو دی مگر رفتار سست رہی۔
گزشتہ مہینے ہونے والی بارشوں کی بناء پر صورت حال اتنی خراب ہوئی کہ نیو یارک ٹائمز نے خبریں اور باتصویر فیچر شایع کیے۔ اب وزیر بلدیات ناصر شاہ نے صفائی کا بیڑا اٹھایا ہے جو اچھا اقدام ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کراچی کے لیے 162 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا مگر اس پیکیج پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا۔
کراچی میں اس وقت پبلک ٹرانسپورٹ ختم ہوچکی ہے۔ صفائی اور سیوریج کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ کچھ لوگ اس مسئلے کو کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کچھ لوگ مسئلے کا حل ایک نیا صوبہ سمجھتے ہیں، یہ سب باتیں نئے تضادات پیدا کریں گی۔ کراچی کا مستقبل سندھ کے ساتھ ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی نظام کو اختیارات اور فنڈز دینے چاہئیں اور کراچی کے شہریوں سمیت سندھ کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا مؤقف نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سخت مؤقف اختیارکیا اور یہ کہا کہ مرکزکی پالیسی سے بنگلہ دیش بنا ، اب اس پالیسی سے سندھو دیش اور سرائیکی دیش وغیرہ بن سکتے ہیں۔
صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ نے اعلان کردیا کہ وزیر اعظم کی کراچی کے بارے میں بنائی جانے والے کمیٹی میں اگر ڈاکٹر فروغ نسیم شامل ہونگے تو صوبائی حکومت اس کمیٹی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی۔ قوم پرستوں نے بھی شورمچانا شروع کر دیا مگر اس تجویز کے پس منظر اور حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ کراچی کی حیثیت کا مسئلہ آیندہ بڑا مسئلہ بنے گا۔
کراچی کو وفاق کی تحویل میں دینے کی تجویزکراچی کے شہریوں کے مفاد میں نہیں ہے۔کراچی کو پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کے دور میں سندھ سے علیحدہ کرکے مرکزکی تحویل میں دیدیا گیا تھا۔ پھر 1955ء سے 1970ء تک ون یونٹ قائم رہا۔ کراچی سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے تمام علاقے مغربی پاکستان میں ضم ہوگئے تھے۔
یوں پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی کی حکومت کراچی سمیت تمام علاقوں پر براہِ راست حکومت کر رہی تھی۔ مگر 15 سال کے اس دور میں کراچی کو جدید شہروں کی طرح ترقی دینے کے لیے جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ایوب خان کے دور میں کراچی میں نئی صنعتیں قائم ہوئیں۔ صوبہ سرحد اور پنجاب سے لاکھوں لوگ کراچی آکر آباد ہوئے۔ اس دور میں کچی بستیاں آباد ہوئیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت پیدا ہوگئی۔ پانی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں کی ضرورت پڑ گئی۔
مگر کراچی کا ریوینو بڑھنے کے باوجود شہر کے انفرا اسٹرکچر پر توجہ نہیں دی گئی۔ ساری دنیا میں نچلہ اور متوسط طبقہ شہر کے وسط میں آباد ہوتا ہے اور امراء کو شہر کے باہر آباد کیا جاتاہے مگر کراچی میں اس اصول کو نظر انداز کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی ترقی کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق نے 10 سال بھرپور اختیارات کے ساتھ اقتدارکی مسند سے لطف اٹھایا۔ اس دور میں چاروں صوبے موجود تو تھے مگر عملی طور پر ون یونٹ ہی تھا۔ اسی دور میں پنجاب کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ)جیلانی نے لاہورکے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
اسی وقت لاہور باغات کا شہر بنا مگر کراچی ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی کو اہمیت دی۔ نچلی سطح تک کے اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا، یوں کراچی میں ترقی کا دور شروع ہوا۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایم کیو ایم کے میئر مصطفیٰ کمال نے اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر کیے مگر انھوں نے ماس ٹرانزٹ اسکیم اور انڈر گراؤنڈ میٹرو سسٹم کی تعمیر کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اوور ہیڈ برج اور انڈر پاس تعمیر ہونے کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ مزید شدید ہوگیا۔ پانی کی فراہمی کے نئے منصوبے شروع نہیں ہوئے۔ چند گرین بسیں چلا کر ناظم اعلیٰ نے اپنے عہدے کا حق ادا کیا۔
کراچی کو وفاق نے اپنی تحویل میں لیا تو ملک کے کونے کونے سے ہجرت کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ خیبر پختون خوا ، پنجاب اور سرائیکی علاقے سے لاکھوں لوگ کراچی میں آباد ہونگے، یوں آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا۔ اردو بولنے والی آبادی اقلیت کا شکار ہو جائے گی۔ کراچی وفاقی علاقہ ہوگا تو ہر شہری کراچی میں آباد ہونے اورکراچی میں ٹرانسپورٹ، رہائش، روزگار، صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے مستفید ہونے کا حق رکھے گا۔
آبادی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اردو بولنے والی آبادی میں بچے پیدا کرنے کی شرح باقی برادریوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یوں آج کی اکثریتی آبادی مستقبل میں اقلیتی آبادی میں تبدیل ہوگی۔ برطانوی دور حکومت کی ایک خاص بات بلدیاتی نظام تھا۔ یہ بلدیاتی ادارے صحت، صفائی، پانی کی فراہمی اور نکاسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ انگریزوں نے بلدیاتی اداروںکو چلانے کے لیے منتخب کونسلروں کا نظام نافذ کیا۔
اس نظام کی بدولت شہروں میں ترقی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کے دو دور حکومت میں بلدیہ کراچی کو با اختیار کیا گیا تھا اور فہیم الزماں کو با اختیار ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ اس وقت کی امن وامان کی صورتحال کی بناء پر بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوسکے تھے اور سارا نظام نامزدگیوں پر تھا، مگر پہلی دفعہ فہیم الزماں کے دور میں شہر کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی۔ مارکسٹ استاد انجینئر نعمان احمد فہیم الزماں کے مشیر تھے، یوں اوورہیڈ برج تعمیر ہوئے۔ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ یہ ابھی ابتداء تھی جو پیپلز پارٹی میں کرپشن کے کلچر کی نذر ہوگئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام نافذ ہوا۔ملک میں نچلی سطح تک اختیارات کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ یہ بھارت میں نافذ پنچائیت کے نظام کے قریب تر تھا مگر جنرل پرویز مشرف کے نظام میں صوبے کا کردار ختم ہوگیا تھا۔ مرکز براہِ راست سٹی گورنمنٹ کی سرپرستی کر رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کا تیسرا دور 2008ء میں شروع ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذہنوں میں نچلی سطح تک اختیارات کے نظام کی اہمیت نہیں تھی ، یوں یہ نظام ختم کر دیا گیا۔
صفائی کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم ہوا اور کوڑے کا معاملہ چینی حکومت کی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دینے کو سمجھا گیا، اتنا گھمبیر قسم کا بلدیاتی قانون نافذ ہوا جس میں بلدیاتی امور کی ادائیگی کو متعدد اداروں میں تقسیم کیا گیا۔ کنٹونمنٹ، ریلوے، سول ایوی ایشن جیسے ادارے بھی بلدیاتی امورکی ادائیگی میں شامل رہے۔ قائم علی شاہ کا دور بد ترین انتظامی بد نظمی اورکرپشن کا دور کہلایا۔ ملازمتوں کی فروخت ، آسامیوں کی نیلامی جیسے مسائل سے صورتحال گھمبیر ہوگئی۔ شہر کوڑے کے ٹیلوں میں تبدیل ہونے لگا۔
شہر میں پانی کی قلت پیدا ہوئی اور سیوریج کا نظام بگڑا۔ اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں خبریں شایع ہوئیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے صورتحال کی اہمیت کو سمجھنے کے بجائے ساری ذمے داری پورے ملک سے آنے والے لوگوں اور بڑھتی ہوئی آبادی پر ڈال دی۔ کوڑے کا مسئلہ جوکونسلرکا مسئلہ تھا وہ قومی مسئلہ بن گیا۔ تحریک انصاف کے نمایندوں نے انتخابات سے قبل اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔
قومی اسمبلی کے رکن عالمگیر خان کوڑے کے مسئلے کے ساتھ سیاسی افق پر ابھرے مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے توجہ نہیں دی۔ مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے مسائل کے حل پر توجہ دی۔ شہر کی صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن بنا دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مسلم ہانی نے بار بار صوتحال کو تشویش ناک قرار دیا۔ جسٹس مسلم ہانی کی رولنگ پر صاف پانی کے پلانٹ لگے۔
غیر حاضر کارکنوں کی نشاندہی ہوئی مگر ایک دن وہ تھک ہار کر استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔ سپریم کورٹ نے سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا اوراس بورڈ کو توڑنے کا حکم دیا۔ سندھ کی حکومت نے صفائی کے نظام پر توجہ تو دی مگر رفتار سست رہی۔
گزشتہ مہینے ہونے والی بارشوں کی بناء پر صورت حال اتنی خراب ہوئی کہ نیو یارک ٹائمز نے خبریں اور باتصویر فیچر شایع کیے۔ اب وزیر بلدیات ناصر شاہ نے صفائی کا بیڑا اٹھایا ہے جو اچھا اقدام ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کراچی کے لیے 162 ارب کے پیکیج کا اعلان کیا مگر اس پیکیج پر عملدرآمد شروع نہیں ہوا۔
کراچی میں اس وقت پبلک ٹرانسپورٹ ختم ہوچکی ہے۔ صفائی اور سیوریج کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ کچھ لوگ اس مسئلے کو کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کچھ لوگ مسئلے کا حل ایک نیا صوبہ سمجھتے ہیں، یہ سب باتیں نئے تضادات پیدا کریں گی۔ کراچی کا مستقبل سندھ کے ساتھ ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی نظام کو اختیارات اور فنڈز دینے چاہئیں اور کراچی کے شہریوں سمیت سندھ کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ اسی میں سب کا بھلا ہے۔