بھارت کی مسائل میں گھِری معیشت
مودی نے معاشی پالیسیوں کی ناکامی پر کانگریس کے خوب لتّے لیے اور ووٹروں سے بہتری کے وعدے کیے۔
دنیا کے عمومی تاثر کے برخلاف بھارت کی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل کا شکار ہورہی ہے۔ ایک دور تھا بھارت حیران کُن رفتار سے معاشی ترقی کے سفر پر گام زن تھا، اس میں ایسا وقت بھی آیا جب ملکی ترقی کی اوسط شرح نمو 8 فی صد تک پہنچ گئی لیکن گزشتہ برس میں یہ پانچ فیصد پر آچکی ہے اور افراطِ زر بڑھتے بڑھتے دو ہندسی ہوچکا ہے۔
مودی کا کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ نہ صرف داخلی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر اثر انداز ہوگا بلکہ یہ بھارت کی معاشی مشکلات میں بھی اضافے کا باعث بنے گا۔ مودی نے دس برس تک گجرات پر حکومت کی، 2002 میں مسلمان مخالف ماحول بنانے کی سیاسی ذمے داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ مودی نے 2014کے انتخابات میں کامیابی کے لیے معیشت کی گرتی ہوئی صورت حال پر پوری توجہ مرکوز رکھی۔
مودی نے معاشی پالیسیوں کی ناکامی پر کانگریس کے خوب لتّے لیے اور ووٹروں سے بہتری کے وعدے کیے۔ غیر محسوس انداز میں بھارت کے بڑے کاروباریوں نے تعلقات عامہ کی غیرمعمولی مہم کے ذریعے مودی کو بڑے لیڈر کے طور پر پیش کیا۔لیکن ان میں بہت سے نظر میں آگئے اور خاصی تعداد معاشی مسائل کا شکار ہے۔
ہر سطح پر حکومتی کرپشن، افسرشاہی کی رشوت ستانی سے لے کر اراکین اسمبلی کے ملکی خزانے کے اسکینڈلز تک لوٹ مار کے اس کلچر کے خلاف بھارتی شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسی لیے کرپشن کا خاتمہ مودی کا دوسرا بڑا نعرہ تھا۔ کرپشن کے باعث معیشت کی سست روی کے خاتمے کی امیدیں پانچ برس قبل مودی کو اقتدار میں لے آئیں۔
نوٹ بندی کے اعلان کے ساتھ مودی نے اپنا معیشت کا 'بحالی پروگرام' 8نومبر2016کو شروع کیا جب نصف شب 14کھرب مالیت کے پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ، جو زیر گردش کرنسی کا 86فیصد بنتے تھے، بیک جنبش قلم منسوخ کرکے ناقابل استعمال کردیے گئے۔ ایسے اقدامات سے کرپشن کے خاتمے کے لیے لگائے گئے اندازے بُری طرح ناکام ہوئے اور بھارتی معیشت کو ایسا دھچکا لگا کہ آج تک سنبھل نہیں سکی۔
ان حقائق کو چھپانے کے لیے مودی نے اعداد و شمار میں ہیر پھیر شروع کردی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سے منسلک اروند سبریمنیئن نے حال ہی میں شایع ہونے والے اپنے مقالے میں بتایا کہ کس طرح بھارت سرکار نے جی ڈی پی کے تخمین کے طریقے اور اعداد و شمار کے ماخذات میں تبدیلی کرکے 2011-12اور اسی ہاتھ کی صفائی کے ساتھ 2017میں اپنی شرح نمو 7فی صد بتائی حالاں کہ پچھلے طریقۂ حساب کے مطابق یہ 3.5فیصدسے5.5کے مابین بنتی تھی۔ مودی نے انتخابات میں کام یابی کے لیے اعداد و شمار کو مسخ کیا۔
بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات اس فریب کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں اور بھارت میں بھی اس کا ادراک کیا جارہا ہے۔حال ہی میں صنعتی اور بینکاری کے شعبوں نے طلب میں کمی کو تسلیم کیا ہے۔ صف اول کے بعض کاروباریوں کا خیال ہے کہ معیشت وقتی مسائل سے دوچار ہے اور صورت حال بہتر ہوجائے گی تاہم دیگر زیادہ پُرامید نہیں۔ سرمایہ کاروں کے لیے قرضوں کی محدود ہوتی دستیابی بھی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ بینکوں کا اصرار ہے کہ قرض کی رقم ڈوبنے سے بچانے کے لیے کڑے ضوابط لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رقوم کی کم یابی کے باعث کئی شعبوں میں سرمایہ کاری سست روی کا شکار ہوچکی ہے۔ بڑی اور مستحکم کمپنیاں دیوالیہ ہورہی ہیں اور اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی۔
عالمی سطح پر امریکا اور چین کے مابین جاری تجارتی جنگ میں بھارت کے لیے چین سے نکلنے والی صنعتیں اپنے ملک میں لانے کا بہترین موقعہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ موقعہ بھی ضایع ہوگیا کیوں کہ چین سے نکلنے والی کمپنیوں نے ویتنام اور تھائی لینڈ کا رُخ کیا۔ اگرچہ پاک بھارت تجارتی تعلقات بہت کم ہوچکے تھے لیکن تجارتی تعلقات کے مکمل خاتمے کے پاکستانی فیصلے کی وجہ سے بھی صورت حال میں بہتری نہیں آرہی۔
مقامی مارکیٹ میں ایندھن اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی روزمرہ زندگی متاثر ہورہی ہے۔ کمزور ہوتی قوتِ خرید کے باعث معیشت پر تباہ کُن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ اور روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کے اسباب میں شامل ہے۔
بھارت کے بزنس لیڈر تعمیراتی شعبے کی بحالی کے لیے انفرااسٹرکچر اور ہاؤسنگ میں حکومتی مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس پر کان نہیں دھرا گیا۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی مودی سرکار کی سیاسی کامیابی تو ہوسکتی ہے لیکن معیشت کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
معیشت میں بہتری کے اقدامات کے بجائے بھارت کے حالیہ اقدام نے ماضی میں دہلی کے حمایت کرنے والے رہنماؤں کو بھی اس کا مخالف بنا دیا ہے اور ان حلقوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ سیاحت اور دست کاری کشمیر کے مستحکم ترین معاشی شعبے تھے جو برسوں سے شدید متاثر ہیں۔
آرٹیکل 370 اور کشمیرکی خود مختاری کا فیصلہ نافذ کرنے کے لیے زبردستی جن سیاحوں کو کشمیر سے نکالا گیا تھا مستقبل قریب میں ان کے لوٹ آنے کا امکان نہیں۔ مختلف ممالک پہلے ہی کشمیر سے متعلق سفری انتباہ جاری کررہے ہیں۔ جو فیصلہ بی جے پی کا سیاسی فائدہ معلوم ہوتا تھا بھارتی معیشت کے حق میں خسارہ ثابت ہوا۔ بنگال کے وزیر خزانہ امت مشرا نے مودی سرکار کے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران زوال پذیر جی ڈی پی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے 45 برسوں میں بلند ترین شرحِ بے روزگاری کے باعث عام آدمی کی حالت زار کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق 2014میں مودی حکومت کا آغاز ہونے کے بعد بھارت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ''ہندو بزنس لائن'' نے بھارت کو ''2019میں خراب ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی معیشت'' قرار دیا ہے۔
مودی کی ترجیحات میں معیشت نہ آج شامل ہے اور نہ ہی کبھی رہی۔ گجرات کی طرح مودی نے پورے بھارت میں اپنے کم تر سیاسی مفادات کی خاطر سماجی اقدار کو داؤ پر لگادیا اور مذہبی منافرت کو ہوا دی۔ مودی کو نہ جانے کب یہ سمجھ آئے گی ''یہ معیشت کا سوال ہے احمق! ''
(زیر نظر کالم سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل اور برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کی مشترکہ کاوش ہے)
مودی کا کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ نہ صرف داخلی سیاست اور بین الاقوامی سطح پر اثر انداز ہوگا بلکہ یہ بھارت کی معاشی مشکلات میں بھی اضافے کا باعث بنے گا۔ مودی نے دس برس تک گجرات پر حکومت کی، 2002 میں مسلمان مخالف ماحول بنانے کی سیاسی ذمے داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ مودی نے 2014کے انتخابات میں کامیابی کے لیے معیشت کی گرتی ہوئی صورت حال پر پوری توجہ مرکوز رکھی۔
مودی نے معاشی پالیسیوں کی ناکامی پر کانگریس کے خوب لتّے لیے اور ووٹروں سے بہتری کے وعدے کیے۔ غیر محسوس انداز میں بھارت کے بڑے کاروباریوں نے تعلقات عامہ کی غیرمعمولی مہم کے ذریعے مودی کو بڑے لیڈر کے طور پر پیش کیا۔لیکن ان میں بہت سے نظر میں آگئے اور خاصی تعداد معاشی مسائل کا شکار ہے۔
ہر سطح پر حکومتی کرپشن، افسرشاہی کی رشوت ستانی سے لے کر اراکین اسمبلی کے ملکی خزانے کے اسکینڈلز تک لوٹ مار کے اس کلچر کے خلاف بھارتی شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسی لیے کرپشن کا خاتمہ مودی کا دوسرا بڑا نعرہ تھا۔ کرپشن کے باعث معیشت کی سست روی کے خاتمے کی امیدیں پانچ برس قبل مودی کو اقتدار میں لے آئیں۔
نوٹ بندی کے اعلان کے ساتھ مودی نے اپنا معیشت کا 'بحالی پروگرام' 8نومبر2016کو شروع کیا جب نصف شب 14کھرب مالیت کے پانچ سو اور ہزار روپے کے کرنسی نوٹ ، جو زیر گردش کرنسی کا 86فیصد بنتے تھے، بیک جنبش قلم منسوخ کرکے ناقابل استعمال کردیے گئے۔ ایسے اقدامات سے کرپشن کے خاتمے کے لیے لگائے گئے اندازے بُری طرح ناکام ہوئے اور بھارتی معیشت کو ایسا دھچکا لگا کہ آج تک سنبھل نہیں سکی۔
ان حقائق کو چھپانے کے لیے مودی نے اعداد و شمار میں ہیر پھیر شروع کردی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سے منسلک اروند سبریمنیئن نے حال ہی میں شایع ہونے والے اپنے مقالے میں بتایا کہ کس طرح بھارت سرکار نے جی ڈی پی کے تخمین کے طریقے اور اعداد و شمار کے ماخذات میں تبدیلی کرکے 2011-12اور اسی ہاتھ کی صفائی کے ساتھ 2017میں اپنی شرح نمو 7فی صد بتائی حالاں کہ پچھلے طریقۂ حساب کے مطابق یہ 3.5فیصدسے5.5کے مابین بنتی تھی۔ مودی نے انتخابات میں کام یابی کے لیے اعداد و شمار کو مسخ کیا۔
بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات اس فریب کی حقیقت سے آگاہ ہوچکے ہیں اور بھارت میں بھی اس کا ادراک کیا جارہا ہے۔حال ہی میں صنعتی اور بینکاری کے شعبوں نے طلب میں کمی کو تسلیم کیا ہے۔ صف اول کے بعض کاروباریوں کا خیال ہے کہ معیشت وقتی مسائل سے دوچار ہے اور صورت حال بہتر ہوجائے گی تاہم دیگر زیادہ پُرامید نہیں۔ سرمایہ کاروں کے لیے قرضوں کی محدود ہوتی دستیابی بھی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ بینکوں کا اصرار ہے کہ قرض کی رقم ڈوبنے سے بچانے کے لیے کڑے ضوابط لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رقوم کی کم یابی کے باعث کئی شعبوں میں سرمایہ کاری سست روی کا شکار ہوچکی ہے۔ بڑی اور مستحکم کمپنیاں دیوالیہ ہورہی ہیں اور اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی۔
عالمی سطح پر امریکا اور چین کے مابین جاری تجارتی جنگ میں بھارت کے لیے چین سے نکلنے والی صنعتیں اپنے ملک میں لانے کا بہترین موقعہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ موقعہ بھی ضایع ہوگیا کیوں کہ چین سے نکلنے والی کمپنیوں نے ویتنام اور تھائی لینڈ کا رُخ کیا۔ اگرچہ پاک بھارت تجارتی تعلقات بہت کم ہوچکے تھے لیکن تجارتی تعلقات کے مکمل خاتمے کے پاکستانی فیصلے کی وجہ سے بھی صورت حال میں بہتری نہیں آرہی۔
مقامی مارکیٹ میں ایندھن اور مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی روزمرہ زندگی متاثر ہورہی ہے۔ کمزور ہوتی قوتِ خرید کے باعث معیشت پر تباہ کُن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ چین اور امریکا کی تجارتی جنگ اور روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کے اسباب میں شامل ہے۔
بھارت کے بزنس لیڈر تعمیراتی شعبے کی بحالی کے لیے انفرااسٹرکچر اور ہاؤسنگ میں حکومتی مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اس پر کان نہیں دھرا گیا۔ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی مودی سرکار کی سیاسی کامیابی تو ہوسکتی ہے لیکن معیشت کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
معیشت میں بہتری کے اقدامات کے بجائے بھارت کے حالیہ اقدام نے ماضی میں دہلی کے حمایت کرنے والے رہنماؤں کو بھی اس کا مخالف بنا دیا ہے اور ان حلقوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ سیاحت اور دست کاری کشمیر کے مستحکم ترین معاشی شعبے تھے جو برسوں سے شدید متاثر ہیں۔
آرٹیکل 370 اور کشمیرکی خود مختاری کا فیصلہ نافذ کرنے کے لیے زبردستی جن سیاحوں کو کشمیر سے نکالا گیا تھا مستقبل قریب میں ان کے لوٹ آنے کا امکان نہیں۔ مختلف ممالک پہلے ہی کشمیر سے متعلق سفری انتباہ جاری کررہے ہیں۔ جو فیصلہ بی جے پی کا سیاسی فائدہ معلوم ہوتا تھا بھارتی معیشت کے حق میں خسارہ ثابت ہوا۔ بنگال کے وزیر خزانہ امت مشرا نے مودی سرکار کے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران زوال پذیر جی ڈی پی پر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے 45 برسوں میں بلند ترین شرحِ بے روزگاری کے باعث عام آدمی کی حالت زار کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق 2014میں مودی حکومت کا آغاز ہونے کے بعد بھارت بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ''ہندو بزنس لائن'' نے بھارت کو ''2019میں خراب ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی معیشت'' قرار دیا ہے۔
مودی کی ترجیحات میں معیشت نہ آج شامل ہے اور نہ ہی کبھی رہی۔ گجرات کی طرح مودی نے پورے بھارت میں اپنے کم تر سیاسی مفادات کی خاطر سماجی اقدار کو داؤ پر لگادیا اور مذہبی منافرت کو ہوا دی۔ مودی کو نہ جانے کب یہ سمجھ آئے گی ''یہ معیشت کا سوال ہے احمق! ''
(زیر نظر کالم سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل اور برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا کی مشترکہ کاوش ہے)