ہوائی مسافرنانگاپربت کے مسحور کن منظر کا دِل تھام کرانتظارکرتے ہیں

گلگت کو دنیا کے تین مشہور ترین پہاڑی سلسلوں سے باہرتین طویل ترین گلیشیروں کی سرزمین ہونے کا امتیاز حاصل ہے


September 22, 2019
سحر انگیز جھیلوں، برف پوش پہاڑوں، بلند ترین صحراؤں اور گنگناتے جھرنوں سے مزین سرزمین پر گزرے مہ و سال کے تذکرے پرمبنی سلسلہ

صدیق پراچہ نے23 ۔دسمبر 1961ء کو کوہاٹ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا بچپن بھی عام پاکستانی بچوں جیسا ہی تھا، لیکن مختلف بات یہ تھی کہ انہیں پڑھنے کا ہوکا تھا، ہاتھ آنے والی ہر کتاب پڑھ لیتے۔ اس شوق کو مہمیز کرنے میں ان کے دادا جان کا بڑا ہاتھ تھا جن کی لائبریری میں کئی تاریخی کُتب موجود تھیں۔

اکتوبر1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے انہیں اخباروں کی چاٹ لگی اور ایسی لگی کہ '' چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''۔ آج بھی ان کی کوئی صبح اخبارات کے مطالعے کے بغیر آغاز نہیں ہوتی۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینے کے بجائے کاروبار کرنے لگے۔

ایک قریبی عزیز جوکہ چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ تھے ایک روز گزرتے ہوئے ان کی دکا ن پر آگئے اور کہنے لگے کہ وقت تو یوں بھی گذر رہا ہے،کیوں نہ فارغ وقت میں ایف اے کی تیاری ہی کرڈالو۔بات دل کو لگی اور جتنی دیر میں ان کے دوستوں نے کالجوں میں دو برس گذار کر انٹر میڈیٹ کیا،انہوں نے اپنا کام کاروبار کرتے ہوئے ایف اے کی تیاری کی اور کامیاب ہوگئے۔

اس کامیابی نے انہیں آگے پڑھنے کی راہ پر ڈال دیا۔ یوں دو برس بعد یونیورسٹی آف پشاور سے بی اے کیا۔ جب ان کے بچپن کے دوست ایف ایس سی اور گریجویشن کرنے کے بعد پیشہ ورانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوئے، تو یہ بھی جنوری 1984 ء میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات جا پہنچے، دسمبر 1985 ء میںقائد اعظم یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا تو پھر کاروبار کرنے کو جی نہ چاہا۔اور مقابلے کے امتحان کی تیاری کرکے اس میں بیٹھ گئے۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان میں پروگرام پروڈیوسر کی آسامیاںاخبارات میں مشتہر ہوئیں ۔تو اس کے لئے بھی تحریری امتحان دے ڈالا۔ پھر انٹرویو کے لئے انہیں اسلام آباد بلایا گیا۔

دونوں امتحانات کے نتیجے کے اعلان تک کا وقت ہنگو کے ایک نجی اسکول میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے گذارا، مئی 1987 ء میں ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر سے ملازمت کی پیش کش کی چٹھی موصول ہوئی تو ہنگو کو چھوڑ کر20 جون1987 ء کی تپتی دوپہر پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈمی اسلام آباد جا پہنچے۔ اکیڈمی میں چھ ماہ تک باسط سلیم، محمداشرف انصاری،محمد یونس خان،صفدر علی ہمدانی،ضمیر صدیقی،چوہدری محمد اسلم، انصار ناصری، اسلم اظہر اور آغا ناصر جیسے نابغہ روزگار پروڈیوسروں، انجینئرز، نیوز ایڈیٹرزاور صداکاروں سے نشریات کے جملہ فارمیٹس کے حوالے سے کسب فیض کے بعد جب وہ فارغ التحصیل ہوئے تو اڑتیس کامیاب ٹھہرنے والے پروڈیوسر ساتھیوں میںاُن کا نمبر چوتھا تھا۔

17 دسمبر1987 ء کو ریڈیوپاکستان کے مایہ ناز ڈائر یکٹر جنرل سید سلیم احمدگیلانی مرحوم نے انہیں تربیت مکمل کرنے پر ریڈیوپاکستان سکردو جانے کا مژدہ جانفزا ء سنایا ۔ جب اُن کے ایک ساتھی کچھ داوء پیچ آزما کر سکردو کے بجائے لاہور جانے میں کامیاب ہوئے وہیں یہ سادہ دل بوریا بستر سمیٹ کر منفی دس ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت میں سکردو جا پہنچے۔



نومبرمیں شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد دسمبر 1988 ء میں جب سکردو تعیناتی کا ایک برس مکمل ہوا تو انہیں پشاور جانے کا کہا گیا۔ 1989 ء سے 1999 ء تک جتنا عرصہ پشاور میں رہے، روزنامہ مشرق، روزنامہ آج۔ ہفت روزہ زندگی لاہور، ہفت روزہ حرمت اسلام آباد او ر ہفت روزہ دی فرائیڈے ٹائمز لاہور میں چھپتے رہے۔ان کے کالم، تراجم اور رپورٹوں کے موضوعات بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا 'جسے اُس وقت صوبہ سرحد کہا جاتا تھا' اور افغانستان کے حالات کے بارے میں ہوتی تھیں۔

دس برس پشاور میں گذارنے کے بعد ان کا تبادلہ تربت کر دیا گیا لیکن تبادلہ کرنے والے اسٹیشن ڈائرایکٹر کو ان سے پہلے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر لاہور پہنچنا پڑ گیا۔ تربت سے جان چھوٹی تو نئی جائے ملازمت ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی سنٹرل نیوز آرگنائزیشن ٹھہری۔ جہاں انہیں حالات حاضرہ کے پروگرام کرنا تھے۔

ساتھ ساتھ سینٹ اور قومی اسمبلی کی کوریج بھی ذمہ داریوں میں شامل تھی۔9/11 کے بعدانہیں ریڈیوپاکستان کے نئے بننے والے نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز چینل میں بھیجا گیا۔ تین برس وہاں کام کیا۔ تو اگلے تبادلے کاقرعہ ریڈیوپاکستان کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے نام نکلا۔وہاں سے اسلام آباد سٹیشن اور پھر 2005 ء میں پروگرام منیجر کے عہدے پر ترقی دے کر ریڈیو پاکستان چترال کا سٹیشن ڈائر یکٹر بنا دیا گیا۔

چترال میں چار سو تریسٹھ دن گذارنے کے بعد راولپنڈی پہنچے، دو برس بھی مکمل نہ ہو پائے تھے کہ انہیں پہلے تراڑکھل اور پھر بنوں بھیج دیا گیا۔ وہاں سے کوہاٹ ، پھر صدر فتر اسلام آباد ، اس کے بعد ژوب دوبارہ کوہاٹ اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے فروری 2015 ء میں ریڈیوپاکستان گلگت میں سٹیشن ڈائریکٹرتعینات کرکے بھیجا گیا۔ دسمبر 2016 ء میں انہیں پاکستان براڈکاسٹنگ اکیڈمی اسلام آباد میں وائس پرنسپل پروگرام کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

ابھی وہ یہاں کے ماحول سے مانوس ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک بار پھر گلگت جانے کے لئے قرعہ اُن کے نام نکل آیا۔ مارچ 1966 ء میں گورنمنٹ پرائمری سکول سنگیڑھ محلہ سکندر خان شہید کوہاٹ کی کلاس اول ادنیٰ کے ٹاٹ سے شروع ہونے والا تعلیمی سفر ابھی تمام نہیں ہوا۔ نئی معلومات حاصل کرنے اور سیکھنے کی اسی تگ و دو میں وہ گلگت بلتستان کے دشوار گذار علاقوں میں پھیلی ہوئی بستیوں، آبادیوں اور وادیوں میں جاتے رہے،لوگوں سے ملتے رہے، ریڈیو کے لئے مختلف پروگرام تیار کرتے رہے۔ ان دنوں وہ ریڈیوپاکستان کے صدر دفتر میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے گلگت میں اپنے طویل قیام کے مشاہدات کو تحریری شکل میں ڈھالا ہے، جسے ایکسپریس اپنے قارئین کے لئے قسط وار شائع کر رہا ہے۔

(پہلی قسط)

مجھے 1969ء میںتیسری کلاس میں پڑھی ہوئی اُردو کی کتاب کا ایک سبق آج بھی یاد ہے، جو بلتستان کے بارے میں تھا اور جس میں لکھا تھا کہ بلتستان پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اور وہاں کے لوگ بہت سادہ، محبت کرنے والے اور جفا کش ہیں۔اس سبق کی یہی بات ذہن میں نقش رہی، باقی کیا کچھ لکھا تھا، یاد نہ رہا۔ لیکن دسمبر 1987 ء میںجب میں نے پروڈیوسر کی حیثیت سے پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی اسلام آباد میں چھ ماہ کی بنیادی تربیت مکمل کی، اور میری پہلی تعیناتی ریڈیو پاکستان سکردو کی گئی، تو انیس برس پہلے پڑھا ہوا سبق مجسم ہو کر سامنے آ گٓیا۔

سکردو میں، میں نے جنوری1988 ء سے دسمبر1988 ء تک کا عرصہ گذارا۔ پہلی کمائی، پہلی محبت، پہلی شادی، اور پہلی بے وفائی کی طرح اولین جائے ملازمت بھی انسان کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں شامل ہوتی ہے اور اللہ موقع د ے تو انسان بہت کچھ کر گذرتا ہے۔

میں نے بھی جی بھر کے سکردو کے اردگرد کی تمام وادیوں اور قابل دید مقامات کی سیر کی ۔لوگوں سے ملا، ست پارہ جھیل کے کنارے بنے ہوئے شیشے کے گھر میں چودھویں کے چاند کے ساتھ شب بسری کی ۔شیشے کا یہ گھر اب ست پارہ ڈیم کے اُدھورے، ناکام اور بے ڈھنگے منصوبے کی نذر ہو چکا ہے۔شگر اور خپلو کا سفر کیا۔ بلتستان کے لوگوں کی محنت ،جفا کشی،سادگی اور محبت کو دیکھا ،محسوس کیا اور جانچا۔لوگوں سے دوستیاں ہوئیں، تعلق استوار ہوئے۔ سچ پوچھئے تو سکردو مجھے راس آگیا تھا کیونکہ کسی سے بچھڑنے کے بعد دُکھے ہوئے دل کو بہلانے کے لئے سکردو جیسی ہی سرزمین کا جادوکام آتا ہے۔



یہ ایسی سر زمین ہے جہاں صحرا بھی ہے۔برف پوش پہاڑ اور طویل گلیشیر بھی ہیں۔ جنت کے پھلوں جیسی لذت رکھنے والے انار، چیری، شہتوت، خوبانی،سیب، بہی،جاپانی پھل،انگور، ناشپاتی،آڑو،سٹرابری اور کئی اقسام کے خشک پھل بھی ہیں اور طرح طرح کی سبزیاں اور اناج بھی۔سکردو تعیناتی کے دوران ہی نومبر1988 ء میںمجھے شادی کے بندھن میں جکڑا گیا۔ اپنی شریک حیات کے ساتھ گھر سے باہر کا پہلا سفر بھی سکردو ہی کا کیا۔

جسے یار لوگ ہنی مون کا نام دیتے ہیں، سکردو میں گذرا وقت ایک خوشگوار میٹھی کسک کی صورت آج بھی میرے قلب و ذہن میں تازہ ہے۔اب میں آپ کو 1988 ء سے 2005 ء میں لئے چلتا ہوں، جب مجھے ستمبر میں پروگرام منیجر کے عہدے پر ترقی دے کر ریڈیو پاکستان چترال کا سٹیشن ڈائریکٹر بنا کر بھیجا گیا۔ چترال اور گلگت بلتستان سیاسی و انتظامی اعتبار سے الگ شناخت رکھتے ہیں۔

لیکن قدرت نے انہیںیکساں جغرافیائی خدوخال، موسموں، پھلوں ،سبزیوں، برف پوش پہاڑوں، جنگلی حیات، دشواریوں ، سہولیات اور وسائل سے نوازا ہے۔ پانی کی قدرتی گذرگا ہوں، برفانی دروں،جھیلوں، نالوں، دریاؤں اور پہاڑی پگڈنڈیوں کی بدولت آپس میں جُڑے ہوئے گلگت بلتستان اور چترال میں رہنے والے لوگ بھی صدیوں سے مشترکہ زبانوں، شعر وادب ، رہن سہن اور رسوم و رواج کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ 2009 ء تک شمالی علاقہ جات کے نام سے پہچانا جانے والا یہ خطہ 72971 مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔

2009 ء میں اسے صوبے کا درجہ دے کر گلگت بلتستان کا نام دیا گیا۔ انتظامی اعتبار سے اس میں دو ڈویژن تشکیل دیئے گئے۔ سکردو ڈویژن میں چار اضلاع سکردو، گانچھے ، شگر اور کھرمنگ شامل ہیں۔ گلگت ڈویژن میں چھ اضلاع گلگت ، غذر،استور،دیامر ،ہنزہ ا ور نگر شامل ہیں۔ شگر، کھرمنگ اور نگر اضلاع کے قیام کا اعلان اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے 14 اپریل 2015 ء کو اپنے دورہ گلگت کے دوران ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ دنیا کے تین معروف پہاڑی سلسلے، ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش یہیں سے گذرتے اور اس علاقے کو یہ انفرادیت بخشتے ہیں کہ قطبین سے باہر تین طویل ترین گلشیئر بلتورو، بیافو اور باتورا یہاں واقع ہیں۔

یوں تو سارا پاکستان خوبصورت ہے لیکن گلگت بلتستان کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں سطح سمندر سے دس پندرہ اور بیس ہزار فٹ بلندی پر ایسی جھیلیں پائی جاتی ہیں، جنہیں دیکھ کر بے اختیار انسان کی زبان پر'' سبحان اللہ'' اور ''فبای الا ربکما تکذبان'' کا ورد جاری ہو جاتا ہے۔

ان میں دیوسائی کی جھیل شیوسر ، سکردو میں واقع جھیل ست پارہ اور جھیل کچورہ، شگر میں واقع جھیل زربا، سکردو کی جھیل فروق، گانچھے کی جھیل کھرفک، گوجال کی جھیل بورتھ، استور میں واقع جھیل راما ، نگر کی جھیل رش،اشکومن کی جھیل قرومبر، گوپس کی پھنڈر جھیل ، نگر کی جھیل بارودروکش، اور کھرمنگ میں واقع جھیل غورشی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کاغان ناران،دیامر،استور،گلگت،غذر،ہنزہ،گوجال اور چترال کے علاقوں میں بے شمار ایسی جھیلیں ہیں۔ جن کا کوئی نام نہیں۔ وہ دشوار گذار پہاڑوں کی چوٹیوںکے بیچ میں، گہری تنگ وادیوں میں اور ناقابل رسائی جگہوں پر اللہ رب العزت کی صناعی کا شاہکار بنی موجود ہیں اور صرف فضا سے اُن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔مجھیان علاقوں میں بارہا فضائی سفر کرنے کا موقعہ ملا ہے۔گلگت اور سکردو کی زیادہ تر پروازیں وادی کا غان کے اوپر سے ہو کر جاتی ہیں۔ کسی بھی روشن دن ہوائی جہاز جب اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچ میں 5400میٹر کی بلندی پر پرواز کررہا ہوتا ہے، توان بے نام جھیلوں کی سیر بھی کی جا سکتی ہے۔

شندور جھیل گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی سرحد پر واقع ہے۔ اس جھیل سے دو نالے نکلتے ہیں ایک کا نام آگے چل کر دریائے غذر اور دوسرے کا دریائے مستوچ ہو جاتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دونوں صوبے اس جھیل کے امین ہیں۔ اب دونوں صوبوں کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر سال منعقد ہونے والے شندور میلہ کا بندوبست دونوں حکومتیں مل جل کر کریں گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شندور جھیل گلگت اور چترال سے کم و بیش ایک ہی فاصلے پر واقع ہے۔ چترال سے آنے والی سڑک مستوچ سے آگے بہت خراب ہے جبکہ گلگت سے شندور اور پھر آگے چترال تک جانے والی سڑک کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ دنیا بھر میں آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند چوٹیوں کی تعداد چودہ ہے۔

ان میں سے پانچ پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان میں واقع ہیں۔ جبکہ چوبیس ہزار فٹ ، سات ہزار میٹر بلند چوٹیوں کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔دنیا کی سب سے خطرناک چوٹی نانگا پربت یہیں واقع ہے۔ اب تک اس چوٹی کو سر کرنے کے لئے آنے والے پچاسی سے زائد کوہ پیما اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔

سطح مرتفع تبت کے بعد دنیا کا سب سے بلند میدانی خطہ سطح مرتفع دیوسائی گلگت بلتستان کے ماتھے پرجھومر کی طرح سجا ہوا ہے۔سطح سمندر سے4115 میٹر اور ساڑھے چودہ ہزار فٹ بلند دیوسائی استور سے مشرق کی جانب اور سکردو سے جنوب کی جانب واقع ہے۔ بھارتی تسلط میں گھرے ہوئے لداخ اور کارگل دیوسائی سے مشرق کی جانب واقع ہیں۔1993 ء میں قومی پارک قرار دیئے جانے ولے دیوسائی میدان کا رقبہ پانچ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ ستمبر سے مئی تک ہر سال یہ علاقہ اردگرد کی آبادیوں سے کٹا رہتا ہے۔ مئی کے بعد ستمبر کے دوسرے ہفتے تک یہاں میلوں تک قدرتی طور رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں۔

منجمد جھیلیں نالوں اور دریاؤں کی صورت بہنے لگتی ہیں۔ اب سے پچیس تیس برس پہلے تک ان میں اس قدر مچھلیاں ہوتی تھیں کہ لوگ چادروں کے کونے پکڑ کر پانی میں اترتے اور انہیں مچھلیوں سے بھر لیتے تھے۔ اب مچھلیوں کی وہ کثرت اور دیوسائی کے دریا 'بڑا پانی' پر جھولتا رسوں سے بنا پُل قصہ پارینہ بن چکے ہیں، لیکن پھر بھی بہار آنے پرسارا دیوسائی میدان حد نظر تک سرسبز گھاس سے سج جاتا ہے۔ میلوں تک رنگا رنگ پھول کھل کر قدرت کی صناعی کا دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔ چرواہے اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ دیوسائی میںکوئی انسانی آبادی، کوئی ریسٹ ہاؤس یا ڈاک بنگلہ نہیں ہے۔ دیوسائی کی سیر کے لئے جانے والے سیاحوں کو اپنے رہنے، کھانے پینے کا انتظام کرکے یہاں آنا ہوتا ہے۔

اس سحر انگیز خطے کے صدر مقام گلگت کا ریڈیو اسٹیشن دو تین ماہ سے اپنے سربراہ سے محروم تھا۔کیونکہ سٹیشن ڈائریکٹر محمد عالم خان اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوچکے تھے۔صدر دفتر کے شعبہ داخلی نشریات میں ڈپٹی کنٹرولرکی حثیت سے تمام سٹیشنوں پر شعبہ پروگرام کے عملے کی تعیناتی اور تبادلے میری ذمہ داری تھے۔



بہت سے دوستوں سے رابطہ کیا لیکن گلگت جانے کے کوئی بھی تیار نہ تھا۔ چند روز کی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ سکردو اور چترال میں وقت گذارنے کے بعد اگر گلگت میں رہنے اور کام کرنے کا موقعہ مل رہا ہے تو اس کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔یوں میں نے اپنے تبادلے کی تجویز خود تیار کرکے کنٹرولر ہوم سرفراز خان کے سپرد کی۔ چند روز میں یہ تجویز منظور ہو کر ایک حکم نامے کی صورت مجھے مل گئی اور میں نے گلگت کا رخت سفر باندھا۔

سکردو اور گلگت جانے کے لئے قومی ائر لائن کی پروازیں روزانہ اسلام آباد سے جبکہ چترال کے لئے پشاور سے چلتی ہیں۔ لیکن پرواز کے ہونے نہ ہونے یا مکمل ہونے کا انحصار موافق موسم پر ہوتا ہے۔مجھے سکردواور چترال تعیناتی کے دوران میں ان پروازوں کی غیر یقینی صورت حال کا خاصا تجربہ تھا۔

بہرحال راولپنڈی صدر میں مال روڈ پر واقع پی آئی اے کے دفتر سے دوفروری کا ٹکٹ خریدا۔ دو فروری کی پرواز کا ٹکٹ خریدنے کا مطلب یہ تھا کہ مجھے یکم فروری کو پی آئی اے کے صدر دفتر سے ٹیلی فون کال کا انتظار کرنا تھا۔(اب ٹیلی فون کال کا یہ سلسلہ ترک کیا جا چکا ہے۔اور نشست کنفرم ہونے کی صورت میں ایک پیغام آجاتا ہے)۔چونکہ اکتیس جنوری اور یکم فروری کو گلگت کی پرواز موسم ناموافق ہونے کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھیں، اس لئے دو فروری کو میرا جانا مشکل تھا۔میری نشست تین فروری کے لئے کنفرم ہوئی۔ تین فروری کو صبح پانچ بجے ائر پورٹ فون کیا تو بتایا گیا کہ گلگت کا موسم تو خراب ہے لیکن پرواز تاحال منسوخ نہیں کی گئی، اس میں تاخیر ہے۔

ہر گھنٹے بعد معلوم کرنے پر یہی جواب ملتا رہا۔ اصل میں گلگت یا راستے میں نانگا پربت کے قرب وجوار کا موسم خراب ہو تو پرواز کو تاخیر کئے بغیر منسوخ کر دیا جاتا ہے اوراس طیارے کو نظام الاوقات کے مطابق اگلی منزل کی طرف روانہ کردیا جاتا ہے کیونکہ پی آئی اے کے پاس طیاروں کی شدید کمی ہے اور پرواز میں تاخیر کی صورت میں اُس روز کی باقی تمام پروازیں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔

صبح پانچ بجے سے دس بجے تک چھ بار معلوم کرنے پر ایک ہی جواب ملتا رہا تو میں نے مایوس ہو کر فون کرنا چھوڑ دیا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اُس روز پائلٹ عامر خان کی ڈیوٹی تھی انہوں نے کسی وجہ سے صبح سات بجے روانہ ہونے والی پرواز دوپہر ساڑھے بارہ بجے اُڑائی اور اسے گلگت پہنچا دیا۔ مجھے جرمانہ ادا کرکے اگلے روز گلگت کے لئے نشست لینا پڑی ۔ گلگت کے لئے مختص پی آئی اے کے اس جہاز ATR-45 میں اڑتالیس مسافروں کی گنجائش ہے۔

فرانس کی طیارہ ساز کمپنی ائر بس کا بنا ہوا یہ جہاز اپنے پیش رو فوکر جہازسے بدرجہا بہتر ہے۔فوکر موسم کی ذرا سی خرابی بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا۔ نہ اُس میں بلندی کو ماپنے کے جدید آلات نصب تھے۔ لیکن اس جہاز کی خوبی یہ ہے کہ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان5500میٹر کی بلندی پر پرواز کرتا ہے۔اس میں قریبی چوٹیوں سے فاصلے کو ماپنے کے جدید آلات اور ریڈار نصب ہیں۔

جن کی مدد سے یہ سات اور آٹھ ہزار میٹر اونچی چوٹیوں کے دامن میں پرواز کرتے ہوئے مسافروں کو دنیا کے ان خوبصورت ترین پہاڑوں،جھیلوں اور وادیوں کا نظارہ کراتا ہے۔ اسلام آباد ائر پورٹ سے اُڑان بھرتے ہی مارگلہ کی پہاڑیاں آجاتی ہیں۔ جن کے دامن میں فیصل مسجد اسلام آباد کی خوبصورتی کا سب سے نمایاں، دلوں کو چھو لینے والا نظارہ بن کر کھڑی ہے۔مارگلہ کے اُس پار خان پور ڈیم کی جھیل طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روپہلی کرنوں میں لشکارے مار رہی ہوتی ہے۔ جہاز کچھ آگے بڑھتا ہے تو تربیلہ ڈیم کی وسیع وعریض جھیل نظر آنے لگتی ہے۔

پھر ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے سر سبز وشاداب شہروں سے ہوتا ہوا جہاز وادی کاغان کی راہ لیتا ہے۔یہاں دریائے کنہار کے کنارے آباد بالاکوٹ،شوگران، سری پائے ،کاغان اور ناران جیسی خوبصورت وادیوںسے ہوتا ہوا بابو سر ٹاپ تک پہنچتا ہے تو راستے میں جھیل سیف الملوک اور جھیل لولوسر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔یہ تمام مناظراُسی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں جب مطلع صاف ہو۔ اور جہاز کا پائلٹ اہل دل میں سے ہو۔ایسے پائلٹ پچاس منٹ کی اس پرواز کا ہر لمحہ حسین بنا دیتے ہیں۔بابوسر ٹاپ کے گذرنے کے بعد اس روٹ پر مسلسل سفر کرنے والے مسافر دل تھام کر اور نظریں باہر جما کر 8126 میٹر بلند نانگا پربت کاا نتظارکرتے ہیں۔

جس کے کئی روپ، کئی چہرے، کئی مناظر اور کئی رُخ ہیں۔ دنیا بھر کے کوہ پیماؤں میں قاتل پہاڑ کی حیثیت سے معروف اس پہاڑ کی خوبصورتی انسان کو دم بخود کر دیتی ہے۔ابھی نانگا پربت کا نظارہ ختم نہیں ہوتا کہ تھیلچی آجاتا ہے، جہاں دریائے سندھ اور دریائے استور ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ جگلوٹ سئی اور بونجی پہنچ کر جہاز کی رفتار آہستہ اور بلندی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اتنے میں اعلان ہوتا ہے کہ ہم گلگت ائر پورٹ پر اُترنے والے ہیں۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گلگت ائرپورٹ دنیا کے بارہ مشکل ترین ائرپورٹس میں سے ایک ہے۔ جہاں جہاز کو اُتارنا اور پھر اُڑان بھر کے مطلوبہ بلندی تک پہنچانا ہر پائلٹ کے بس کی بات نہیں۔ گلگت کی وادی بالکل گول دائرے کی صورت اونچے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔اور یہاں کے ائرپورٹ کا محل وقوع کچھ اس قسم کا ہے کہ رن وے کے ایک کنارے کا آغاز دریائے گلگت کے کنارے سے ہوتا ہے۔

لہراتا بل کھاتا دریائے غذر جب بسین گاؤں سے اس وادی میں داخل ہوتا ہے تو اس کا نام دریائے گلگت ہو جاتا ہے، پھر یہ تقریباً دس کلو میٹر تک اس وادی میں بہنے اور دریائے ہنزہ کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بعد جب جلال آباد گاؤں کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہوا اس وادی سے نکلتا ہے تو اس کی رفتار دیکھنے والی ہوتی ہے۔ گلگت میںکہیں یہ دریا آبادی کے بالکل ساتھ لہراتے ہوئے بہتا ہے تو کہیں یہ آبادی سے کہیں بہت دور گہرائی میں اپنے دامن میں طوفانوں کو سمیٹے ہوئے چپ چاپ بہہ رہا ہوتا ہے۔گلگت ائرپورٹ کے پاس یہ گہرائی میں بہتا ہے۔ اس لئے پائلٹ کو بہت احتیاط کے ساتھ رن وے کا سرا چھونا پڑتا ہے۔



یہ احتیاط ایک طرف دریا کے کنارے سے بچنے کے لئے ہوتی ہے تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا پڑتی ہے کہ اس ائر پورٹ کا رن وے بہت مختصر ہے۔پائلٹ بڑی مشکل سے لینڈنگ کرتے ہیں۔ چونکہ ائر پورٹ کادوسرا کنارہ پہاڑاور پھر گلگت شہر کی آبادی کی طرف ہے اس لئے لینڈنگ اور ٹیک آف کرنے کے لئے اس کنارے کو انتہائی ناگزیر حالات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ گلگت کا ہوائی اڈا شہر کے عین وسط میں کشروٹ بازار کے ساتھ واقع ہے اور اس کا یہی محل و وقوع اس کی توسیع میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔یہاں اے ٹی آر اور زیادہ سے زیادہ پاک فضائیہ کے سی ون تھرٹی اُتر سکتے ہیں۔ جیٹ طیاروں کے اترنے کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے حکومت نے رن وے کی سیدھ میں ایک کلو میٹر سے زائد طویل ٹکڑا خرید رکھا ہے لیکن موجودہ رن وے اور اس زمین کے درمیان کشروٹ بازار کو جانے والی سڑک حائل ہے۔ جسے تادم تحریر علاقے کے لوگ بند کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فی الحال حکومت نے اس زمین پر سٹی پارک بنا رکھا ہے۔

اس کے علاوہ جیٹ طیاروں کے گلگت میں اُترنے کے حوالے سے ایک تکنیکی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر گلگت ائر پورٹ پر اُترنے کے بعد دو انجنوں والے جیٹ طیارے کا ایک انجن فیل ہو جائے تو اس صورت میں طیارے کے لئے گلگت کی تنگ وادی کے اردگرد کے اونچے پہاڑوں کو عبور کرکے مطلوبہ بلندی حاصل کرنا ناممکن ہو گا۔

لیکن اے ٹی آر 45، جس میں اڑتالیس مسافر بیٹھ سکتے ہیں، اسی طیارے کی ایک اور قسم میں 72 مسافروں کی گنجائش ہے، پی آئی اے کے حکام بالا کو چاہیئے کہ وہ چترا ل اور گلگت کے لئے 72 نشستوں والا طیارہ استعمال کریں۔ جبکہ سکردو کا ائرپورٹ اس قدر بڑا ہے اور وہ وادی اتنی وسیع کہ وہاں بوئنگ777 اور ائر بس 310جیسے طیارے بھی اتر سکتے ہیں۔ یہ خوبصورت اور حیرت انگیز پرواز پچاس منٹ میں اتنے نظارے کرا دیتی ہے کہ کرائے کی رقم ان نظاروں ہی سے پوری ہوجاتی ہے۔ چالیس پچاس برس پرانی ائر پورٹ کی عمارت کے ساتھ گلگت ائر پورٹ کی نئی شاندارعمارت بنی ہے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں