الیکٹرک آٹو پالیسی یا مذاق

ایسا لگتا ہے کہ شاید تبدیلی سرکار کی حماقتیں ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں ضرب المثل بن جائیں گی


شہاب احمد خان September 24, 2019
اعلان کیا جارہا ہے کہ سی این جی اسٹیشنز کو الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز میں تبدیل کردیا جائے گا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

''پاکستان کی الیکٹرک آٹو پالیسی کا جلد اعلان کردیا جائے گا''۔ یہ خبر دیکھ کر دل کو خوشی کے بجائے پریشانی پیدا ہوگئی۔ وہ دور نگاہوں میں گھوم گیا جب ہماری ایک پچھلی حکومت کی طرف سے اعلان کیا جارہا تھا کہ اب تمام گاڑیاں سی این جی پر منتقل کردی جائیں گی، اور پاکستان کو ایک بہت بڑے امپورٹ بل سے، جو کہ آئل کی درآمد کا ہوتا ہے، نجات مل جائے گی۔

اس وقت یہ اعلان بھی کیا جارہا تھا کہ پاکستان میں گیس کے اتنے زیادہ ذخائر موجود ہیں جو اگلی ایک صدی تک کافی ہوں گے۔ ہر پاکستانی نے اس اعلان کو خوش آمدید کہا تھا۔ بے شمار سرمایہ کاری عوام نے اس شعبے میں کردی۔ آج اکثر و بیشتر سی این جی اسٹیشنز جو آپ کو نظر آتے ہیں وہ زیادہ تر گھروں کو گرا کر بنائے گئے ہیں۔ لوگوں نے اپنے گھر گرا کر بینکوں سے لون لے کر سی این جی اسٹیشنز بنا ڈالے۔ ہر شخص پرامید تھا کہ یہ صنعت اب پاکستان کی ایک پھلتی پھولتی صنعت بن جائے گی۔ عام لوگوں کی بہت بڑی اکثریت نے اپنی گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرالیا۔

لیکن چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ سی این جی کے حصول کےلیے عوام کو اتنی لمبی لائنوں میں بھی لگنا پڑا جو کہ ایک لطیفے کے مطابق چاند سے بھی نظر آتی تھیں۔ پھر سی این جی کی ہفتہ وار بندش کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس کے علاوہ سی این جی کٹس کی درآمد بھی اتنی زیادہ شروع ہوگئی کہ ہر طرف اس کی ورکشاپس کھل گئیں۔ لیکن آج یہ بھی لطیفہ ہی ہے کہ سی این جی کٹس کی درآمد پاکستان میں بند کردی گئی ہے۔

نجانے وہ گیس کے ذخائر کہاں چلے گئے جو اگلی ایک صدی کےلیے کافی تھے۔ گیس کی اتنی زبردست لوڈشیڈنگ شروع ہوئی کہ پاکستانی بلبلا اٹھے۔

دوسری طرف سی این جی اسٹیشنز کھولنے والوں کو اس بزنس میں آکر پتہ چلا کہ پرافٹ اس میں کچھ نہیں ہے۔ اگر پرافٹ کمانا ہے تو ایک ہی راستہ ہے، گیس کی چوری۔ آج ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور شہر میں تقریباً تین ارب روپے ماہانہ کی گیس چوری کی جاتی ہے۔ جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ حکومت اپنا اور گیس کمپنیوں کا خسارہ پورا کرنے کےلیے گیس کی قیمتیں بڑھاتی چلی جارہی ہے۔

یہ سب کچھ اس احمقانہ لیڈرشپ کا نتیجہ ہے جو کسی قسم کی اہلیت نہ تو رکھتی ہے، نہ ہی کسی اہلیت کے حامل شخص کو آگے آنے دیتی ہے۔ کوئی منصوبہ بندی کسی ٹھوس بنیاد پر کی ہی نہیں جاتی۔ لگتا ہے ہماری پچھلی لیڈرشپ کو سی این جی کٹ بنانے والوں یا سی این جی اسٹیشنز بنانے والوں نے کوئی اچھی آفر کردی تھی جس کی وجہ سے یہ سب کچھ شغل میلہ سجایا گیا تھا۔ وہی کھیل اب دوبارہ کھیلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

اعلان کیا جارہا ہے کہ اب ان سی این جی اسٹیشنز کو الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز میں تبدیل کردیا جائے گا۔ کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں، کیا آپ کے ملک میں اتنی بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ آپ اپنی گاڑیوں کی اتنی بڑی تعداد کو بجلی پر چلا سکیں؟ آپ ابھی اپنی صنعت کو تو پوری بجلی دے نہیں پارہے۔ کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بجلی کے ایک یونٹ میں ایک اوسط درجے کی گاڑی کتنے میل چل سکے گی؟ کیا یہ قابل عمل بھی ہے؟

بجلی ہمارے ملک میں ویسے بھی خطے کے تمام ممالک سے زیادہ مہنگی ہے۔ اگر یہ پٹرول سے بھی مہنگی پڑتی ہے تو کون اپنی گاڑی بجلی پر چلائے گا؟ کیا تیل اور گیس کی تلاش کی مد میں کی جانے والی کوششوں کو اس سے نقصان نہیں پہنچے گا؟

کچھ ایسا لگتا ہے کہ شاید تبدیلی سرکار کی حماقتیں ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں ضرب المثل بن جائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں