اس بات کوکبھی نہیں چھپایاکہ پی ٹی وی میںملازمت سفارش سےملی منیزہ ہاشمی

پی ٹی وی کی پہلی خاتون ڈائریکٹر پروگرامز اور ممتاز براڈ کاسٹر منیزہ ہاشمی کے حالات وخیالات۔

کسی خاص شعبے میں ابتری کو معاشرے کی مجموعی صورتحال سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، منیرہ ہاشمی ۔ فوٹو : فائل

50 ء کی دھائی کے نصف اول میں باہمت خاتون کا اپنی ننھی منی دو بیٹیوں کے ساتھ جیل میں قید اپنے شاعر شوہر سے ملنے جانا رہتا۔

ٹرین میں ساتھ بیٹھی عورتیں اس خاتون سے روایتی قسم کے سوال پوچھتیں، جن کا روایتی جواب اس کے پاس نہ ہوتا۔ عموماًاس سے استفسار کیا جاتا:کہاں جاناہے؟اب یہ کون بتائے کہ جیل جا رہے ہیں یا پھرپوچھاجاتا:بچیوں کے والد کیا کرتے ہیں؟اب یہ کیسے بتلایا جاتا کہ موصوف جیل کاٹ رہے ہیں۔ بالفرض محال اگریہ بتابھی دیا جاتا تو فوراً یہ سوال اٹھتاکہ وہ کون سے جرم میں ماخوذ ہیں۔ اب ان بیبیوں کو راولپنڈی سازش کیس کے بارے میں کیسے بریف کیا جاتا۔

خاتون اور اس کی بڑی بیٹی تو ان متجسس خواتین کے الٹے سیدھے سوالوں کو جیسے تیسے کرکے ٹال دیتیں، لیکن تیز طرارچھوٹی بیٹی سوالوں کا کھرا جواب دیتی ،اور پھر یوں ہوا کہ اس صلاحیت سے متاثر ہوکرماں نے سوالات کا جواب دینے کی ذمہ داری اسے سونپ دی۔ یہ بچی گھرکے باہرمتعین سی آئی ڈی کے کارندے کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیتی۔ ایک باراس جیلرکی بھی گوشمالی کی ،جس نے باپ کو معصومانہ انداز میں لکھے اس کے خط کو پڑھ لیا تھا۔ اس بچی کا باپ، ماں اور بہن توبڑے نرم خو اور مرنجاں مرنج طبعیت رکھنے والے تھے لیکن یہ طبعاًان تینوں سے مختلف اور نرالی تھی۔

قدرتی طور پر کھبو(left handed) اس بچی کا بایاں ہاتھ ایک بار اسکول میں استانی صاحبہ نے کمر کے پیچھے کس کرباندھ دیا تاکہ اسے سیدھے ہاتھ سے کام کی عادت ڈالی جاسکے۔ والدہ کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے اسکول جاکر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس بچی کو آیندہ زندگی میں اور بھی کئی مواقعوں پر بے رحم استانی کی طرح لوگوں نے جبر کے ذریعے اپنی راہ پرلانا چاہا لیکن وہ اپنے ڈھب اور شرائط پر زندگی گزارنے پربضد رہی۔ اوپر ہم نے جس خاتون کا ذکر کیا ہے، وہ ممتاز شاعرفیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض ہیں، بڑی بیٹی، سلیمہ ہیں، جنھوں نے آگے چل کرفن مصوری میں سکہ جمانا تھا اور چھوٹی بیٹی منیزہ گل ہے، جسے ماں باپ پیار سے میزو کہہ کرپکارتے اورجس نے بعد میں منیزہ ہاشمی کے نام سے میڈیا میں ممتازمقام حاصل کیا۔ منیزہ ہاشمی 37برس پی ٹی وی سے متعلق رہیں۔

لاہور ٹی وی سینٹرکی پہلی خاتون جنرل منیجر بنیں اور پھر انھیں پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی خاتون ڈائریکٹر پروگرامز بننے کا اعزاز مل گیا۔ 2004ء میں انھوں نے پی ٹی وی سے قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لی جس کی وجہ ان کے بقول یہ رہی کہ ''اس وقت کے ایم ڈی پی ٹی وی نے میرا جینا دوبھرکردیا تھا، جس کے باعث اس ادارے کو خیرباد کہنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔'' پی ٹی وی چھوڑنے کے بعد سے وہ ایک نجی ٹی وی چینل سے نمایاں حیثیت میں منسلک ہیں۔ 2010ء میں کامن ویلتھ براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں۔

اگلی ٹرم کے لیے بھی یہ ذمہ داری انھی کے کندھوں پر آئی جس کو وہ احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں۔ دو ماہ قبل لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی نے بینظیر بھٹو چیئر کے لیے انھیں پہلی چیئرپرسن نامزد کیا۔ ''فیض فاؤنڈیشن'' اور ''فیض گھر''کی ٹرسٹی بھی ہیں۔ انھوں نے وقت کی بانٹ بڑے مناسب انداز میں کر رکھی ہے، اس لیے گھرسے باہر گوناگوں مصروفیات اپنی جگہ لیکن اعزہ اور دوستوں کے لیے وقت پھر بھی نکال لیتی ہیں، جس کا اندازہ ہمیں ان سے ملاقات کے دوران بھی ہوا۔ ہم ان سے ملنے کے واسطے پہنچے تو یہ جانا کہ وہ ابھی ابھی سہیلیوں کے ساتھ فلم دیکھ کرگھر لوٹی ہیں۔ انٹرویوختم ہونے کے بعدان کی اگلی مصروفیت پوتی کو سلاناتھا ۔ پی ٹی وی کے لیے جن شخصیات کے انٹرویوکئے، انھیں کتابی صورت میں چھپوانے کا چارہ بھی کررہی ہیں ۔ منیزہ ہاشمی لگی لپٹی کی قائل نہیں، بڑی صاف گوئی سے ایسی باتیں بھی کہہ ڈالتی ہیں، جن پر ہمارے ہاں پردہ ڈالنا زیادہ بہتر خیال کیا جاتا ہے۔

مثلاًوہ یہ بتانے میں عارمحسوس نہیں کرتیں کہ انھیں پی ٹی وی میں ملازمت الطاف گوہرکی سفارش سے ملی۔ اسی طرح حالیہ الیکشن میںتحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ذکر کرنے میں بھی انھیں باک نہیں ۔ مایہ ناز باپ سے اس قسم کا بھی شکوہ نہیں کہ ان کے گھنیرے سائے کے باعث انھیں اپنی انفرادی شناحت قائم کرنے کے سلسلے میں پریشانی رہی ہو، وہ فیض سے تعلق کو ہر اعتبار سے باعث خیرجانتی ہیں۔ فیض کا اثراس قدر محدود تو نہیں کہ اس کا دائرہ صرف ان کی اولاد تک محدود رہے بلکہ یہ بار تو آیندہ نسل کو بھی اٹھانا ہوگا۔ اس باب میں کہتی ہیں '' فیض سے تعلق دونوں بیٹوں کے لیے بوجھ تو نہیں ذمہ داری سمجھتی ہوں ۔ علی ہاشمی اورعدیل ہاشمی دونوں نے ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ علی بہت پڑھا لکھا ہے۔ انگریزی جرائد میں اس کے مضمون چھپتے ہیں۔ اس نے اپنے نانا کی سوانح لکھی ہے۔ عدیل میڈیا میں کامیاب ہے۔ فیض فاؤنڈیشن کے معاملات بھی دیکھتا ہے۔ خوشی ہے بچے اپنے نانا کے کام کو اٹھا رہے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ ان کے بچے اس روایت کوکیسے آگے بڑھاتے ہیں۔ اردو سے وہ اپنا تعلق قائم کر پاتے ہیں یا نہیں؟انھیں اس زبان سے لگاؤ رہتا ہے یا نہیں؟ ابھی تو وہ کہتے ہیں کہ اردو ان کے لیے مشکل ہے۔''



منیزہ ہاشمی جب ہوش سنبھال رہی تھیں تووالد فیض احمد فیض جیل میں تھے۔ ایسے کٹھن حالات میں ان کی والدہ ایلس فیض نے حالات کے سامنے سپر نہیں ڈالی اور دونوں بیٹیوں کی پرورش بڑی توجہ اور ذمہ داری سے کی، اس کام میں انھیں اپنی نندکا بھرپور تعاون حاصل رہا ۔ منیزہ ہاشمی اپنی پھوپھی اقبال کا جنھیں سب بالی کہتے، ذکر بڑی اپنائیت سے کرتی ہیں ۔ ان کے بقول ''والدہ عدالت میں ہوتی تھیں یا پھر دفتر میں، توپھر اس خلا کو انھوں نے پورا کیا۔ اسکول ٹیچر تھیں۔ میں نے اور بعد میں میرے بچوں نے حساب ان سے پڑھا۔ ان کے زیراثرمیرا رجحان مذہب کی طرف ہوا، نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا سب ان کی صحبت میں جانا۔

پنجابی بولنا بھی ان سے سیکھا۔ ان میں ایک طرح سے دیہی دانش تھی۔کپڑوں کو ڈائی کرنے سے لے کر مچھروں کو ٹھکانے لگانا سب کچھ ان سے جانا ۔ '' عبادت گزار دادی کا ذکر بھی بڑی محبت سے کرتی ہیں، جو بڑی نرم خو اور دھیمے مزاج کی خاتون تھیں۔ والد فیض احمد فیض اور والدہ ایلس فیض کی ہمت کو داد دیتی ہیں، جنھوں نے نامساعد حالات کا بڑے صبراور تحمل سے سامنے کیا۔ منیزہ ہاشمی نے میٹرک تک کے تعلیمی مدارج کنیرڈ اسکول سے طے کئے۔ 1967ء میں کنیرڈ کالج سے گریجویشن کی۔ اس برس وہ حمیرہاشمی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھیں۔ 1967ء ہی میں پی ٹی وی میں اسسٹنٹ پروڈیوسرکی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔

شادی کے چند برسوں بعد انھوں نے تعلیم سے ٹوٹا ناتا دوبارہ جوڑا۔ پنجاب یونیورسٹی سے 1979ء میں ایجوکیشن میں ایم اے کیا۔ اسی مضمون میں امریکا کی ہوائی یونیورسٹی سے 1981ء میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ پی ٹی وی سے اپنی وابستگی کی کہانی یوں سناتی ہیں ''میں نے بی اے کیا تھا۔ اولاد ماں باپ پرانحصار کرتی ہے اور چاہتی ہے، وہ سپورٹ کریں۔آج بھی بچوں کو یہ کہتے سنتی ہوں کہ بابا کریں گے، ماما کریں گی۔ میرے والد کا رسوخ زیادہ تھا، اور الطاف انکل گھر بھی آتے تھے، اورمیرے ذہن میں ہوگا کہ یہ سیکرٹری انفارمیشن ہیں یا کسی سے پتا لگ گیا ہوگا۔ وہ وقت بھی ایسا تھا کہ کراچی ٹی وی چینل کا افتتاح ہو رہا تھا،میں بیٹھی تھی،الطاف انکل بیٹھے تھے،اورابا بیٹھے تھے۔


میں نے ابا سے کہا کہ الطاف انکل سے کہیں نا!۔ اس پر والد نے ان سے کہا کہ بھئی!ہماری بیٹی کو بھی ٹی وی پر چانس وانس دو، اس پرانھوں نے صاد کیا اور دو دن میں تقررکا خط آگیا ۔ میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا۔ مجھے فخر ہے، میں نے اپنے کام سے نہ کبھی الطاف انکل کو اور نہ ہی کبھی اپنے والد کو let down کیا۔ ''

ہم نے پوچھا ''پی ٹی وی میں ملازمت کے لیے تو فیض صاحب سے کہہ دیا لیکن ضیاء دور میںجب آپ کو تنگ کیا گیا، تب بھی آپ نے فیض صاحب سے مدد مانگی تو کیا اس وقت خود کو اتنامضبوط نہیں محسوس کرتی تھیں کہ حالات کا خود ہی مقابلہ کریں؟'' ''اولادکسی عمر میں ہو ماں باپ سے التجا کرتی ہے۔ مجھ کو تو تنگ ہی باپ کی وجہ سے کیا جا رہا تھا، اس لیے انھیں مددکے لیے پکارنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے لکھا، چھوٹے لوگ تنگ کرتے ہیں۔

برا وقت گزرجائے گا، اور اچھا وقت بھی آجائے گا۔ یہ بھی کہا کہ ان کی طرح سوئچ آف کرلیا کروں، جس پرعمل بہت مشکل تھا، اس وقت تو نہیں اب میں نے سوئچ آف کرنا سیکھ لیا ہے، جس سے زندگی آسان ہوگئی ہے۔''وہ ان وقتوں کو یاد کرتی ہیں، جب فیض سے تعلق سے انھیں مشکل تھی اور اب وقت بدلنے سے ان کے بقول ''سر پرتاج بھی ان کا ہے۔ ان کی وجہ سے اب ہمیں سراہا جا رہا ہے۔ ''ٹی وی کی طرف ان کا رجحان اس طرح سے ہوا کہ کالج میں تھیں جب لاہور ٹی وی سینٹر نے نومبر 1964ء میں کام کا آغاز کیا۔ بڑی بہن سلیمہ نے جانا شروع کیا تو ان کے دیکھا دیکھی یہ بھی جانے لگیں، تو ٹی وی کی دنیا پرکشش محسوس ہوئی۔ انھوں نے ٹی وی پراپنے سفرمیں بہت سے کامیاب پروگرام پروڈیوس کئے۔

خواتین ٹائمزکو ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول ''ضیاء دورمیں عورتوں پرجو جبر ہوا اس پران پروگراموں کے ذریعے اپنا غبار نکالنا چاہتی تھی۔ پہلی بارخواتین کے پروگراموں کے لیے خاص طور سے وقت مختص کیا گیا، جس میں ان کے مسائل پرروشنی ڈالی جاتی جب میں نے ''خواتین ٹائمز''شروع کیا تو اس وقت عورتوں کے لیے اس انداز میں پروگرام پورے خطے میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ کام نواز شریف کے دوسرے دور میں ہوا اور بھی اچھے کام اس زمانے میں ہوئے، جن کا کریڈٹ انھیں ملنا چاہیے۔'' پی ٹی وی پرانٹرویوز کا جو سلسلہ انھوں نے شروع کیا ان میں آغاز میں وہ خود دکھائی نہیں دیتی تھیں،جس کی وجہ ان کے نزدیک ''میں''کو ختم کرناتھا۔

پی ٹی وی سے طویل عرصہ جڑی رہنے والی منیزہ ہاشمی سے اس ادارے کے زوال پذیر ہونے کی وجوہات جاننا چاہیں تو انھوں نے بتایا '' یہ زمانے کا دستور ہے ، ہر کوئی کہتا ہے کہ ہمارے وقت میں بہت اچھا تھا ، ہم نے چھوڑ دیاتو کام بگڑ گیا۔ پی ٹی وی کے زوال کو مجموعی طورپر معاشرے کے زوال سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ باقی ملک کے حالات پربھی تو نظردوڑائیں۔کون سا ایسا شعبہ ہے، جہاں معاملات بہتر انداز میں چل رہے ہیں؟ چند برس قبل پاکستان کرکٹ ٹیم بری طرح پٹی تو میری وسیم اکرم سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو وہ کہنے لگے ''مسز ہاشمی!ادھر ادھر بھی تو دیکھیں، صرف کرکٹ پر کیوں فوکس کرتی ہیں، ہمارے ہاں ہرطرف چیزیں گر رہی ہیں، ٹوٹ رہی ہیں تو لازمی بات ہے کہ کرکٹ پربھی اس کا اثر ہوگا'اور میں وسیم اکرم کی اس بات سے متفق ہوں۔ اب رہے اندرونی پہلو تو بہت سے پرانے لوگ چلے گئے۔ ہیومن ریسورس کا تو ہمارے ہاں تصورہی نہیں۔ اقربا پروری کے باعث نا اہل لوگ آگئے۔ رہی سہی کسرنجی چینلوں کی یلغارنے پوری کردی۔ ''

میڈیا کی موجودہ صورتحال کے بارے ان سے بات چیت کا لب لباب کچھ یوں رہا '' ہم میڈیا میں آئے تو یہ کام پبلک سروس سمجھا جاتاتھا۔ ہم پبلک براڈ کاسٹرتھے، اس لیے خود کو پبلک سرونٹ سمجھتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں رہا۔ ٹھیک ہے! پیسہ بھی نکالنا ہوتا ہے لیکن اگرمکمل طور پرکمرشل ہوجائیں گے تو پھر پیسے کے لیے کچھ بھی کردیں گے۔ پروگرام میں کرسیاں بھی چلوادیں گے، بدتمیزی بھی کریں گے،کمرشل ازم اگر سارے کام پر حاوی ہوجائے تو پبلک سروس تو نہیں ہوسکے گی۔ یہ چیزیں سکھائی نہیں جاسکتیں۔ یہ تو دل سے آواز آتی ہے کہ میں نے یہ لائن کراس نہیں کرنی۔ فیصلہ سازی میں شریک لوگوں کا دل جب تک نہیں دھڑکے گا اور وہ اسٹینڈ نہیں لیں گے تب تک میڈیا کے معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔''



ایک عرصہ سے انھوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑ رکھا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بینظیر بھٹو کی شہادت،خالہ زاد بھائی سلمان تاثیر کے قتل اور حالیہ الیکشن ایسے اہم واقعات ہیں، جن کے لیے انھوں نے خود کو ٹی وی دیکھنے کے لیے مجبور پایا۔ ترکی کے دکھائے جانے والی ڈراموں کے بارے میں ان کی رائے ہے۔''مجھ سے تووہ نہیں دیکھے جاتے۔'' پاکستان سے باہر انھوں نے بہت سی جگہوں کودیکھا، جن میں ملائشیا کا شہرکوالالمپورسب سے بڑھ کر پسند آیا۔کچھ عرصہ قبل ملائشیا میں معروف اسکالر جاوید احمد غامدی سے اپنی ملاقات کی روداد مختصراً یوں سناتی ہیں: غامدی صاحب سے ملنے کی استدعاکی تو کمال مہربانی سے وہ مجھے خود ملنے آگئے۔

ایک گھنٹہ بہت اچھی گفتگو رہی۔ افسوس ہے، میرے پاس ریکارڈر نہیں تھا ۔ فیض کے بارے میں ان کی بات چیت سے اندازہ ہواکہ کس قدرگہرائی سے انھوں نے کلام فیض کو پڑھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'فیض کا کمال ہے کہ روایت سے بھی جڑے ہیں اور جدید پر بھی ان کی نظر ہے، اور دونوں چیزوں کی گونج ان کے ہاں محسوس ہوتی ہے۔ شاعری میں فنی محاسن تو ہیں لیکن ساتھ میں شاعری میں مستقبل کا پیغام بھی ہے۔ وہ کل کی بات کرتے ہیں، اس لیے ان کا لکھا اب بھیrelevant ہے ، اور وہ زندہ رہیں گے۔' مولانا مودودی بھی فیض کی شاعری پسند کرتے تھے۔ مجھے قاضی حسین احمدکی بیٹی سمیحہ راحیل قاضی نے بتایا کہ ان کے والد کلام فیض کے پرشوق قاری تھے۔

اس لیے میں کہتی ہوں کہ فیض پر خاص کرم ہے کہ وہ لوگ جن سے ان کا نقطہ نظرنہیں بھی ملتا وہ بھی ان کی شاعری کے گرویدہ ہیں۔ '' پوتے پوتیوں سے بے حد محبت کرنے والی منیزہ ہاشمی کو انھیں ہر ٹی وی اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے دیکھ کربہت تکلیف ہوتی ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ بچوں کو باہر کی دنیا کی بھی خبرہونی چاہیے۔ ان کے بقول'' میرے بچے درختوں پر چڑھتے تھے۔ مالی ان سے تنگ رہتے۔ سائیکل چلاتے۔ گلی ڈنڈاکھیلتے۔ پٹھوگول گرم کا انھیں پتاتھا۔ ہاکی کھیلتے ۔

باہر گھومتے پھرتے تھے، لیکن اب بچے ایسا کچھ نہیں کرتے۔ اس دور کے بچوں کے لیے انٹرنیٹ ، ٹی وی اور موبائل وغیرہ افیم بن گئے ہیں۔ '' وہ جس قدر بھی مصروف ہوں، ایک گھنٹہ چہل قدمی ضرور کرتی ہیں۔ یوگا بھی باقاعدگی سے کرتی ہیں۔ سبزی خور ہیں۔ انھی معمولات کو اپنی صحت کا راز قرار دیتی ہیں۔ مذہب سے گہرا لگاؤ ہے۔ حج و عمرہ کر چکی ہیں۔ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھتی ہیں۔ اپنی 67 برس کی زندگی سے مطمئن اور آسودہ ہیں۔ زندگی سے کوئی گلہ نہیں۔ اللہ سے اب ان کی بس یہ دعا ہے ''یااللہ چلتے پھرتے لے جانا،بس کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔''
Load Next Story