ترجمہ کے کام کو تخلیق مکرر سمجھتا ہوں محمد اطہرمسعود
موسیقی کے محقق اورمترجم ڈاکٹر اطہر مسعود کے حالات وخیالات
فارسیفکشن کے اردو میں تراجم ماضی میں بھی ہوئے اور اب بھی ہورہے ہیں۔ بیش تر ترجمہ نگاروں نے اپنی پسند کے لکھنے والوں کی تخلیقات کو بربنائے شوق ترجمہ کیا اورانھیں اردو قارئین کے سامنے پیش کردیا ان میں سے چندایک ایسے نکلے ، جنھوں نے ترجمہ نگاری میں اپنی تگ وتاز کا مرکزکسی ایک ادیب کی نگارشات کو بنایا اور ان کے اس قدرتراجم کرلیے کہ الگ سے مجموعہ شائع کیا جا سکے۔
ایسے مترجمین کی ذیل میں سب سے پہلے حامد حسن قادری کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان کے قلم سے سعید نفیسی کی انیس کہانیاں اردو روپ میں 1944ء میں ''آگرہ'' سے چھپیں۔اس مثال پر 1979ء میں بذل حق محمودکے اردو میں ترجمہ شدہ، صادق ہدایت کے سترہ افسانے ''سگ آوارہ'' کے عنوان سے شائع ہوئے۔ حامد حسن قادری اور بذل حق محمود کی روایت کو محمد اطہر مسعود نے باوقار انداز میں آگے بڑھایا ہے، جنھوں نے ممتازمعاصرایرانی ادیب جمال میر صادقی کو لگ کر پڑھا، اور پھر نہایت شوق سے ان کی کہانیاں اردو میں منتقل کیں،جو رواں برس''جمال کہانیاں''کے عنوان سے منصہ شہود پرآئیں۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ محمد اطہر مسعود نے جمال میر صادقی کی تحریروں کو ان کی باقاعدہ اجازت سے ترجمہ کیا اور یہ وہ عمل ہے، جس کی نظیرہمارے ہاں مشکل سے ہی ملے گی۔
''جمال کہانیاں''چھپنے پربھی انھیں قرار نہ آیا اور طبیعت نے جمال میر صادقی کے حوالے سے کچھ اور کرنے پر اکسایا تواس مصنف کی اردو میں منتقل ہونے والی دوسری کہانیوں کی جمع آوری کا بیڑا اٹھایا ، جس کا حاصل ''دیوار''کی صورت سامنے آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسری زبان کے ادیب کو اپنے ہاںمتعارف کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ منتخب کہانیوں کے ترجمے کے ساتھ اس کے فن وشخصیت پرمضمون لکھا جائے۔ ایف ایس سی کے بعدایرانی کلچرل سینٹر سے فارسی میں کورس کرنے سے اس شیریں زبان سے ان کی جس دل چسپی کا آغازہوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فارسی فکشن سے ترجموں کا آغاز زمانہ طالب علمی میں اس وقت ہوا جب تھرڈ ایئر میں ''ماہ نو ''میں ایک کہانی کا ترجمہ چھپا، جس سے شہہ پاکر اور بھی ترجمے کرڈالے۔
1993ء میں ''پربت کے اس پار''چھپی، جس میں چھ ادیبوں کے پندرہ افسانوں کا ترجمہ شامل تھا۔ فارسی زبان وادب کا گہرا فہم رکھنے والے اردو کے ممتاز نقاد مظفر علی سید نے ہفت روزہ ''فرائڈے ٹائمز'' میں ''پربت کے اس پار'' کتاب پر تبصرہ کیا، جس سے ان کا حوصلہ پروان چڑھا۔ 1992ء میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے فارسی کیا۔کالج کے مجلے ''راوی''کی ادارت بھی کی۔ایم اے کے بعد کچھ عرصہ تدریس سے متعلق رہے۔1995ء میں صوبائی سول سروس کا امتحان پاس کرکے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں نمایاں سرکاری عہدوں پرفائز رہنے کے بعد اب وہ لاہور میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
رہین ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود ایک تو انھوں نے اپنا ناتا فارسی زبان وادب سے کمزور نہ پڑنے دیا، دوسرے موسیقی سے لگاؤ میں کمی نہ آنے دی۔ فارسی ادب کے باب میں بات آگے چل کر کریں گے، اب کچھ ان کے موسیقی سے شغف کی بات ہو جائے۔ موسیقی کا کتابی علم ان کے پاس بہت ہے لیکن ساتھ میں عملی پہلوؤں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ دس سال استاد بدرالزماں سے باقاعدہ موسیقی کے رموز سیکھے۔ ریڈیو پر گاتے بھی ہیں۔ اُستاد کے ذریعے ماہر موسیقی رشید ملک سے متعارف ہوئے اور پھر ان سے عمربھر کا رشتہ قائم ہو گیا۔ ان کے خیال میں برصغیر کی موسیقی سے متعلق رشید ملک کے پاس جتنا علم تھا شاید ہی کسی دوسرے کے پاس ہو۔
مرحوم کے موسیقی سے متعلق مضامین کو جمع اور پھر ان کی تدوین کا جوکھم بھی اُٹھایا، جس کا حاصل 'Doyen of Subcontinental Musicکے نام سے مرتبہ کتاب کی صورت برآمد ہوا ۔ موسیقی کے علمی پہلوؤں پراگر رشید ملک کی دستگاہ کے قائل ہیں تو اس عمیق فن کے عملی پہلوؤں پروہ استاد بدرالزماں کو اتھارٹی سمجھتے ہیں،اور ان کی کتابوں ''سدارنگ'' ، ''تال ساگر'' اور ''نوائے موسیقی'' کے بہت قائل نظرآتے ہیں۔ داؤد رہبرکی کتاب'' باتیں کچھ سریلی سی ''کی بھی تعریف کرتے ہیں، اور خوشی سے بتاتے ہیں کہ اس قابل قدر تصنیف کا اصل مسودہ ان کے پاس محفوظ ہے، جو انھیں رشید ملک سے حاصل ہوا تھا۔ اپنے ہاں موسیقی پر تاثراتی تحریروں کی کمی انھیں بری طرح کھٹکتی ہے، اس اعتبار سے انھیں ہندوستان کی صورت حال بہتردکھائی دیتی ہے۔ان کی دانست میں موسیقی چونکہ بہت گہرا فن ہے، اس لیے اس کی سمجھ بوجھ کے لیے بہت زیادہ جان کاوی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس واسطے ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ،اگرآپ کو کسی خاص پہلو سے متعلق خاطرخواہ علم نہیں تو اس پرغلط سلط خامہ فرسائی کے بجائے، اس سے پہلوتہی کرنا زیادہ بہتر ہے۔
فارسی زبان میں اپنی مہارت اور موسیقی میں درک کو علمی طور پرانھوں نے ''برصغیر کی موسیقی پرفارسی زبان میں لکھے گئے متون:تحقیق وتجزیہ' 'کے موضوع پر مقالہ لکھ کر بامعنی بنایا اوراس سے انھیں وہ ڈگری بھی مل گئی،جس نے ان کے لیے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کا جواز پیدا کر دیا۔ مستقبل میں وہ اپنے اس مقالے کا انگریزی میں ملخص شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس سلسلے میں خاصا کام کر بھی چکے ہیں۔اسے اردو میں سامنے لانے کا بھی ارادہ ہے۔ ماضی کے کلاسیکی گائیکوں میں بڑے غلام علی خاں اور امیر خاں کے قدردان ہیں، زمانہ حال میں اپنے استاد بدرالزمان خاں کا نام لیتے ہیں ۔غزل گائیکی میں ان کے خیال میںمہدی حسن کا ہمسر کوئی نہیں۔
فارسی فکشن کے اردو میں ہونے والے تراجم سے وہ گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر69 برس قبل آگرہ سے شائع ہونے والے سعید نفیسی کے تراجم کا مجموعہ بھی ہوتا ہے اور حال ہی میں '' آج'' کے زیراہتمام تین جلدوں میں چھپنے والی ''فارسی کہانیاں'' بھی۔ فارسی فکشن کے اردو میں ترجمہ کرنے والوں میں وہ سب سے اونچا درجہ نیر مسعود کو دیتے ہیں ،جن کے تراجم کی کتاب ''ایرانی کہانیاں''کے نام سے ہے۔کہتے ہیں،نیرمسعود کے ترجموں اور طبع زاد افسانوں دونوں سے ہی انھیں بہت سیکھنے کا موقع ملا۔ان کے خیال میں ایسا مترجم جو فکشن بھی لکھتا، اس کے لیے جملہ کنسٹرکٹ کرنا اور لفظوں کو ترتیب دینا عام ترجمہ نگار کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ نیرمسعود نے فارسی کہانیوں کا ترجمہ ضرور کیا لیکن ان کے اپنے افسانے ان کے اثر سے پاک ہیں اور انھوں نے اپنے لیے بالکل اور طرح کی فضا بنائی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ معاصر ترجمہ نگاروں میں اورینٹل کالج میں فارسی کے استاد شعیب احمد کاکام انھیں پسند ہے، جن کے تراجم کی کتاب ''سوغات''چند برس قبل شائع ہوئی تھی۔فارسی زبان کے جن شناوروں کے ساتھ سالہا سال سے ان کا ملنا جلنا ہے،ان میں جدید فارسی زبان بولنے کے معاملے میں وہ ڈاکٹرآفتاب اصغر کی قدرت کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں ان جیسا لہجہ اور تلفظ کسی اور کا نہیں۔ تحریرکے معاملے میں مرحوم علی رضا نقوی کا نام لیتے ہیں،جو''دانش'' کے ایڈیٹربھی رہے۔ وزیرالحسن عابدی کی فارسی دانی نے بھی انھیں بہت متاثرکیا۔ فارسی ادب میں ان کے پسندیدہ لکھنے والوں میں صادق ہدایت،جلال آل احمد، ہوشنگ عاشورزادہ، بابا مقدم اور جمال میر صادقی شامل ہیں۔
جمال میرصادقی کے بارے میں انھوں نے بتایا '' جمال میر صادقی جدید فارسی فکشن کی نمایاں ترین شخصیت ہیں۔ وہ 1933ء میں تہران میں پیدا ہوئے۔انھوں نے بڑی کٹھن حالات میں زندگی گزاری۔ علم حاصل کرنے کے لیے مزدوری کرتے رہے۔لڑکپن میں قصاب کے ہاں بھی کام کیا۔ ''جمال کہانیاں'' میں شامل پہلا افسانہ ''این برف، این برف لعنتی'' جس کا میں نے '' کمبخت برف'' کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے،اس میں بھی لگتا ہے جیسے ذاتی تجربے کا تخلیقی طور پربیان ہو۔ادب میں زبان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے:جیسے بولیں ویسے لکھیں۔زبان کو وہ بڑی تخلیقی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔کرداروں کی مناسبت سے زبان برتنے کا ہنر انھیں خوب آتا ہے۔
تہران میں بسنے والی عام خلقت جب ان کے فکشن کا موضوع بنتی ہے تو ان کے مخصوص ڈکشن سے مکالمے تشکیل پاتے ہیں۔اپنی کہانیوں میں انھوں نے اربن لوئر مڈل کلاس کو موضوع بنایا ہے۔ وہ جو سلینگ بولتے ہیں، اسے استعمال کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں ان روایتی ایرانی خاندانوں کی بارے میں لکھا ہے ، جو زندگی کا جدید طور اختیار کرنے سے سماجی مسائل کرشکار ہوکراپنی شاخت سے محروم ہوگئے ۔وہ منفرد موضوعات پر لکھتے ہیں، اورکہانی میں دل چسپی برقرار رکھنے کا فن جانتے ہیں۔وہ اپنے افسانوں پر بہت محنت کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بعض تحریروں کو بیس بیس بار رِی رائٹ کیا۔
ان کی تحریریں پڑھ کر نوبیل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی یاد آتی ہے، جن کی تحریروں میں قاہرہ جھلکتا نظرآتا ہے اور اس شہر کے رہن سہن ، زبان اور کلچرکے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔جمال میر صادقی پر امریکی ناول نگار فاکنر کے اثرات ہیں۔اس کاناولThe Sound and the Fury کو انھوں نے کئی دفعہ پڑھا۔ فاکنرکے افسانے A Rose for Emilyکا بھی وہ بہت قائل ہیں۔ میں نے '' جمال کہانیاں'' میںجمال میر صادقی پر جو مضمون لکھا ہے،اس میں ناقدین کے الزامات پر اس کا جواب نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:''میں فاکنرکیسے بن سکتا ہوں۔ ہم دونوں نے مختلف معاشروں میں زندگی بسر کی ہے،اور ویسے بھی مجھے فاکنر کی تحریروں میں 'جنس،تشدد اور ظلم سے جو کہ امریکی معاشرے کی شناخت ہیں'کوئی دلچسپی نہیں۔
لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ دنیا کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح میں نے بھی فاکنر کی تحریروں کے فنی پہلوؤں سے خاصا اثرقبول کیا ہے۔''جمال میر صادقی فکشن نگار تو ہیں ساتھ میں فکشن کی تنقید بھی لکھتے ہیں۔ وہ افسانہ نویسی کو فل ٹائم کام قرار دیتے ہیں،جو چھٹی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ان کے خیال میں یہ کوئی ایسا کام ہرگز نہیں جیسے سائیکل چلانی سیکھ لی جائے یا تیراکی اور پھر جب مرضی ہو سائیکل چلالی اور تیر لیا ، یہ ایک مسلسل عمل ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی افسانہ نگار متواتر نہ لکھ سکے تو پھر کچھ عرصے بعد وہ اس مقام پر واپس آجائے گا جہاں سے اس نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا۔ '' محمد اطہر مسعود نے بہت سے فارسی افسانوں کو توترجمہ کیا ہے لیکن مستقبل میںمنیرو روانی پورکے ناول''اہل غرق'' اور سیمین دانشورکے ناول ''سووشون''کو ترجمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فارسی فکشن پراردو فکشن کی بہ نسبت یورپین فکشن کے زیادہ اثرات ہیں، جس کی وجہ ان کے نزدیک یہ رہی کہ فارسی فکشن کے بڑے ناموں مثلاً صادق ہدایت اور جمال زادہ کی تعلیم وتربیت فرانس میں ہوئی، اور بھی ادیبوں کا باہر کی دنیا سے ربط ضبط بہت رہا۔
انقلاب ایران کے ادب پراثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ '' انقلاب کے بعد لکھنے والوں نے نئے اسالیب تراشے،اظہار کے نئے معنوں کو ڈھونڈا۔ مثلاً جمال میرصادقی کے افسانے ''آقا آقا''میںسارے افسانے میں ایک ہی ڈائیلاگ چلتا ہے۔اس قسم کے تجربات پہلے نہیں تھے۔انقلاب کا اثرلکھنے والوں نے قبول کیا تو اس کا اثرتحریروں میں بھی نظرآیا۔'' محمد اطہر مسعودترجمے کے کام کو بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں ترجمے کا عمل تخلیق تو نہیں لیکن ایک طرح سے تخلیق مکررضرور ہے۔ان کا بتانا تھا کہ گورنمنٹ کالج کی سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی جو رسالہ نکالتی ہے، اس کو وہ بجا طور پر تخلیق مکررکا نام دیتی ہے۔
فارسی شاعروں میں حافظ انھیں سب سے پسند ہے، جن کی شاعری ان کے نزدیک آج بھی relevent ہے۔مولانا روم کے بھی عاشق صادق ہیں۔ ان کی مغرب میں ہونے والی پذیرائی کے بارے میں سوال پران کا جواب تھا ''رومی کے مغربی ماہرین میں سے اکثروہ ہیں جو ان کا ایک شعربھی وزن میں نہیں پڑھ سکتے۔مگر وہ ان کے نقاد اور محقق بن بیٹھے ہیں۔ان کی ساری مساعی کی بنیاد نکلسن اورآربری کا کام ہے، جب کہ پرائمری سورس یا اصل متن تک جائے بغیرتنقید اور تحقیق ہو ہی نہیں سکتی۔ سنجیدہ علمی سطح کے کام میں آپ اصل ماخذکا ترجمہ استعمال نہیں کر سکتے۔
حافظ محمود شیرانی اس لیے اردو تنقید کی قدآور شخصیت ہیں کہ انھوں نے کہیں لکھا ہے کہ میں نے چار دفعہ شاہنامہ فردوسی پڑھا تھا، اس لیے شاہنامہ پران کی تحریر پڑھ کر واقعی لگتا ہے کہ انھوں نے اسے گھول کر پیا ہے۔آج لاہور میں آپ کو ایسا شخص بھی مشکل سے ہی ملے گا جس نے ایک دفعہ بھی پورا شاہنامہ پڑھا ہو۔ این میری شمل کو ہمارے ہاں بہت بڑا مستشرق سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل ''مباحث'' میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے مضمون ''این میری شمل بحیثیت غالب شناش۔چند معروضات'' میں نشان دہی کہ ہے کہ انھوں نے غالب پراپنے کام کے سلسلے میں کس قدر فاش غلطیاں کی ہیں، اور کتنی ٹھوکریں کھائی ہیں۔یہ مضمون پڑھ کر میں خاص طور سے فراقی صاحب سے ملنے گیا اور اس قابل قدر مضمون پران کی تحسین کی۔میرے خیال میں آربری تک تو لوگوں نے نسبتاً بہتر کام کیا لیکن بعد میںبس ایسے ہی ہے۔''
1968ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والے محمد اطہر مسعود کے والدامجد مسعود اسٹیٹ بینک میں ملازم تھے۔ خطاطی بھی کرتے تھے۔اطہر مسعود نے ان کی وفات کے بعد اپنے بھائی شمس العارفین مسعود کے ساتھ مل کران کی مصورانہ خطاطی کے نمونوں کو ''نقش مسعود ''کے نام سے چھپوایا۔ دو بھائی اور دو بہنوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔1984ء میں سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے، جہاں سے 1992ء ایم اے فارسی کرکے نکلے۔ ان دنوں وہ موسیقی پر مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مضامین کو ترتیب دے رہے ہیں۔
ایسے مترجمین کی ذیل میں سب سے پہلے حامد حسن قادری کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان کے قلم سے سعید نفیسی کی انیس کہانیاں اردو روپ میں 1944ء میں ''آگرہ'' سے چھپیں۔اس مثال پر 1979ء میں بذل حق محمودکے اردو میں ترجمہ شدہ، صادق ہدایت کے سترہ افسانے ''سگ آوارہ'' کے عنوان سے شائع ہوئے۔ حامد حسن قادری اور بذل حق محمود کی روایت کو محمد اطہر مسعود نے باوقار انداز میں آگے بڑھایا ہے، جنھوں نے ممتازمعاصرایرانی ادیب جمال میر صادقی کو لگ کر پڑھا، اور پھر نہایت شوق سے ان کی کہانیاں اردو میں منتقل کیں،جو رواں برس''جمال کہانیاں''کے عنوان سے منصہ شہود پرآئیں۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ محمد اطہر مسعود نے جمال میر صادقی کی تحریروں کو ان کی باقاعدہ اجازت سے ترجمہ کیا اور یہ وہ عمل ہے، جس کی نظیرہمارے ہاں مشکل سے ہی ملے گی۔
''جمال کہانیاں''چھپنے پربھی انھیں قرار نہ آیا اور طبیعت نے جمال میر صادقی کے حوالے سے کچھ اور کرنے پر اکسایا تواس مصنف کی اردو میں منتقل ہونے والی دوسری کہانیوں کی جمع آوری کا بیڑا اٹھایا ، جس کا حاصل ''دیوار''کی صورت سامنے آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسری زبان کے ادیب کو اپنے ہاںمتعارف کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ منتخب کہانیوں کے ترجمے کے ساتھ اس کے فن وشخصیت پرمضمون لکھا جائے۔ ایف ایس سی کے بعدایرانی کلچرل سینٹر سے فارسی میں کورس کرنے سے اس شیریں زبان سے ان کی جس دل چسپی کا آغازہوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فارسی فکشن سے ترجموں کا آغاز زمانہ طالب علمی میں اس وقت ہوا جب تھرڈ ایئر میں ''ماہ نو ''میں ایک کہانی کا ترجمہ چھپا، جس سے شہہ پاکر اور بھی ترجمے کرڈالے۔
1993ء میں ''پربت کے اس پار''چھپی، جس میں چھ ادیبوں کے پندرہ افسانوں کا ترجمہ شامل تھا۔ فارسی زبان وادب کا گہرا فہم رکھنے والے اردو کے ممتاز نقاد مظفر علی سید نے ہفت روزہ ''فرائڈے ٹائمز'' میں ''پربت کے اس پار'' کتاب پر تبصرہ کیا، جس سے ان کا حوصلہ پروان چڑھا۔ 1992ء میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے فارسی کیا۔کالج کے مجلے ''راوی''کی ادارت بھی کی۔ایم اے کے بعد کچھ عرصہ تدریس سے متعلق رہے۔1995ء میں صوبائی سول سروس کا امتحان پاس کرکے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں نمایاں سرکاری عہدوں پرفائز رہنے کے بعد اب وہ لاہور میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
رہین ستم ہائے روزگار رہنے کے باوجود ایک تو انھوں نے اپنا ناتا فارسی زبان وادب سے کمزور نہ پڑنے دیا، دوسرے موسیقی سے لگاؤ میں کمی نہ آنے دی۔ فارسی ادب کے باب میں بات آگے چل کر کریں گے، اب کچھ ان کے موسیقی سے شغف کی بات ہو جائے۔ موسیقی کا کتابی علم ان کے پاس بہت ہے لیکن ساتھ میں عملی پہلوؤں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ دس سال استاد بدرالزماں سے باقاعدہ موسیقی کے رموز سیکھے۔ ریڈیو پر گاتے بھی ہیں۔ اُستاد کے ذریعے ماہر موسیقی رشید ملک سے متعارف ہوئے اور پھر ان سے عمربھر کا رشتہ قائم ہو گیا۔ ان کے خیال میں برصغیر کی موسیقی سے متعلق رشید ملک کے پاس جتنا علم تھا شاید ہی کسی دوسرے کے پاس ہو۔
مرحوم کے موسیقی سے متعلق مضامین کو جمع اور پھر ان کی تدوین کا جوکھم بھی اُٹھایا، جس کا حاصل 'Doyen of Subcontinental Musicکے نام سے مرتبہ کتاب کی صورت برآمد ہوا ۔ موسیقی کے علمی پہلوؤں پراگر رشید ملک کی دستگاہ کے قائل ہیں تو اس عمیق فن کے عملی پہلوؤں پروہ استاد بدرالزماں کو اتھارٹی سمجھتے ہیں،اور ان کی کتابوں ''سدارنگ'' ، ''تال ساگر'' اور ''نوائے موسیقی'' کے بہت قائل نظرآتے ہیں۔ داؤد رہبرکی کتاب'' باتیں کچھ سریلی سی ''کی بھی تعریف کرتے ہیں، اور خوشی سے بتاتے ہیں کہ اس قابل قدر تصنیف کا اصل مسودہ ان کے پاس محفوظ ہے، جو انھیں رشید ملک سے حاصل ہوا تھا۔ اپنے ہاں موسیقی پر تاثراتی تحریروں کی کمی انھیں بری طرح کھٹکتی ہے، اس اعتبار سے انھیں ہندوستان کی صورت حال بہتردکھائی دیتی ہے۔ان کی دانست میں موسیقی چونکہ بہت گہرا فن ہے، اس لیے اس کی سمجھ بوجھ کے لیے بہت زیادہ جان کاوی کی ضرورت ہوتی ہے ، اس واسطے ان کا نقطۂ نظر ہے کہ ،اگرآپ کو کسی خاص پہلو سے متعلق خاطرخواہ علم نہیں تو اس پرغلط سلط خامہ فرسائی کے بجائے، اس سے پہلوتہی کرنا زیادہ بہتر ہے۔
فارسی زبان میں اپنی مہارت اور موسیقی میں درک کو علمی طور پرانھوں نے ''برصغیر کی موسیقی پرفارسی زبان میں لکھے گئے متون:تحقیق وتجزیہ' 'کے موضوع پر مقالہ لکھ کر بامعنی بنایا اوراس سے انھیں وہ ڈگری بھی مل گئی،جس نے ان کے لیے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کا جواز پیدا کر دیا۔ مستقبل میں وہ اپنے اس مقالے کا انگریزی میں ملخص شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس سلسلے میں خاصا کام کر بھی چکے ہیں۔اسے اردو میں سامنے لانے کا بھی ارادہ ہے۔ ماضی کے کلاسیکی گائیکوں میں بڑے غلام علی خاں اور امیر خاں کے قدردان ہیں، زمانہ حال میں اپنے استاد بدرالزمان خاں کا نام لیتے ہیں ۔غزل گائیکی میں ان کے خیال میںمہدی حسن کا ہمسر کوئی نہیں۔
فارسی فکشن کے اردو میں ہونے والے تراجم سے وہ گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر69 برس قبل آگرہ سے شائع ہونے والے سعید نفیسی کے تراجم کا مجموعہ بھی ہوتا ہے اور حال ہی میں '' آج'' کے زیراہتمام تین جلدوں میں چھپنے والی ''فارسی کہانیاں'' بھی۔ فارسی فکشن کے اردو میں ترجمہ کرنے والوں میں وہ سب سے اونچا درجہ نیر مسعود کو دیتے ہیں ،جن کے تراجم کی کتاب ''ایرانی کہانیاں''کے نام سے ہے۔کہتے ہیں،نیرمسعود کے ترجموں اور طبع زاد افسانوں دونوں سے ہی انھیں بہت سیکھنے کا موقع ملا۔ان کے خیال میں ایسا مترجم جو فکشن بھی لکھتا، اس کے لیے جملہ کنسٹرکٹ کرنا اور لفظوں کو ترتیب دینا عام ترجمہ نگار کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوتا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ نیرمسعود نے فارسی کہانیوں کا ترجمہ ضرور کیا لیکن ان کے اپنے افسانے ان کے اثر سے پاک ہیں اور انھوں نے اپنے لیے بالکل اور طرح کی فضا بنائی ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ معاصر ترجمہ نگاروں میں اورینٹل کالج میں فارسی کے استاد شعیب احمد کاکام انھیں پسند ہے، جن کے تراجم کی کتاب ''سوغات''چند برس قبل شائع ہوئی تھی۔فارسی زبان کے جن شناوروں کے ساتھ سالہا سال سے ان کا ملنا جلنا ہے،ان میں جدید فارسی زبان بولنے کے معاملے میں وہ ڈاکٹرآفتاب اصغر کی قدرت کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں ان جیسا لہجہ اور تلفظ کسی اور کا نہیں۔ تحریرکے معاملے میں مرحوم علی رضا نقوی کا نام لیتے ہیں،جو''دانش'' کے ایڈیٹربھی رہے۔ وزیرالحسن عابدی کی فارسی دانی نے بھی انھیں بہت متاثرکیا۔ فارسی ادب میں ان کے پسندیدہ لکھنے والوں میں صادق ہدایت،جلال آل احمد، ہوشنگ عاشورزادہ، بابا مقدم اور جمال میر صادقی شامل ہیں۔
جمال میرصادقی کے بارے میں انھوں نے بتایا '' جمال میر صادقی جدید فارسی فکشن کی نمایاں ترین شخصیت ہیں۔ وہ 1933ء میں تہران میں پیدا ہوئے۔انھوں نے بڑی کٹھن حالات میں زندگی گزاری۔ علم حاصل کرنے کے لیے مزدوری کرتے رہے۔لڑکپن میں قصاب کے ہاں بھی کام کیا۔ ''جمال کہانیاں'' میں شامل پہلا افسانہ ''این برف، این برف لعنتی'' جس کا میں نے '' کمبخت برف'' کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے،اس میں بھی لگتا ہے جیسے ذاتی تجربے کا تخلیقی طور پربیان ہو۔ادب میں زبان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے:جیسے بولیں ویسے لکھیں۔زبان کو وہ بڑی تخلیقی انداز میں استعمال کرتے ہیں۔کرداروں کی مناسبت سے زبان برتنے کا ہنر انھیں خوب آتا ہے۔
تہران میں بسنے والی عام خلقت جب ان کے فکشن کا موضوع بنتی ہے تو ان کے مخصوص ڈکشن سے مکالمے تشکیل پاتے ہیں۔اپنی کہانیوں میں انھوں نے اربن لوئر مڈل کلاس کو موضوع بنایا ہے۔ وہ جو سلینگ بولتے ہیں، اسے استعمال کیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں ان روایتی ایرانی خاندانوں کی بارے میں لکھا ہے ، جو زندگی کا جدید طور اختیار کرنے سے سماجی مسائل کرشکار ہوکراپنی شاخت سے محروم ہوگئے ۔وہ منفرد موضوعات پر لکھتے ہیں، اورکہانی میں دل چسپی برقرار رکھنے کا فن جانتے ہیں۔وہ اپنے افسانوں پر بہت محنت کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بعض تحریروں کو بیس بیس بار رِی رائٹ کیا۔
ان کی تحریریں پڑھ کر نوبیل انعام یافتہ مصری ادیب نجیب محفوظ کی یاد آتی ہے، جن کی تحریروں میں قاہرہ جھلکتا نظرآتا ہے اور اس شہر کے رہن سہن ، زبان اور کلچرکے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔جمال میر صادقی پر امریکی ناول نگار فاکنر کے اثرات ہیں۔اس کاناولThe Sound and the Fury کو انھوں نے کئی دفعہ پڑھا۔ فاکنرکے افسانے A Rose for Emilyکا بھی وہ بہت قائل ہیں۔ میں نے '' جمال کہانیاں'' میںجمال میر صادقی پر جو مضمون لکھا ہے،اس میں ناقدین کے الزامات پر اس کا جواب نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:''میں فاکنرکیسے بن سکتا ہوں۔ ہم دونوں نے مختلف معاشروں میں زندگی بسر کی ہے،اور ویسے بھی مجھے فاکنر کی تحریروں میں 'جنس،تشدد اور ظلم سے جو کہ امریکی معاشرے کی شناخت ہیں'کوئی دلچسپی نہیں۔
لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ دنیا کے دیگر افسانہ نگاروں کی طرح میں نے بھی فاکنر کی تحریروں کے فنی پہلوؤں سے خاصا اثرقبول کیا ہے۔''جمال میر صادقی فکشن نگار تو ہیں ساتھ میں فکشن کی تنقید بھی لکھتے ہیں۔ وہ افسانہ نویسی کو فل ٹائم کام قرار دیتے ہیں،جو چھٹی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ان کے خیال میں یہ کوئی ایسا کام ہرگز نہیں جیسے سائیکل چلانی سیکھ لی جائے یا تیراکی اور پھر جب مرضی ہو سائیکل چلالی اور تیر لیا ، یہ ایک مسلسل عمل ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی افسانہ نگار متواتر نہ لکھ سکے تو پھر کچھ عرصے بعد وہ اس مقام پر واپس آجائے گا جہاں سے اس نے اپنے ادبی سفر کو شروع کیا تھا۔ '' محمد اطہر مسعود نے بہت سے فارسی افسانوں کو توترجمہ کیا ہے لیکن مستقبل میںمنیرو روانی پورکے ناول''اہل غرق'' اور سیمین دانشورکے ناول ''سووشون''کو ترجمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فارسی فکشن پراردو فکشن کی بہ نسبت یورپین فکشن کے زیادہ اثرات ہیں، جس کی وجہ ان کے نزدیک یہ رہی کہ فارسی فکشن کے بڑے ناموں مثلاً صادق ہدایت اور جمال زادہ کی تعلیم وتربیت فرانس میں ہوئی، اور بھی ادیبوں کا باہر کی دنیا سے ربط ضبط بہت رہا۔
انقلاب ایران کے ادب پراثرات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ '' انقلاب کے بعد لکھنے والوں نے نئے اسالیب تراشے،اظہار کے نئے معنوں کو ڈھونڈا۔ مثلاً جمال میرصادقی کے افسانے ''آقا آقا''میںسارے افسانے میں ایک ہی ڈائیلاگ چلتا ہے۔اس قسم کے تجربات پہلے نہیں تھے۔انقلاب کا اثرلکھنے والوں نے قبول کیا تو اس کا اثرتحریروں میں بھی نظرآیا۔'' محمد اطہر مسعودترجمے کے کام کو بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ان کے خیال میں ترجمے کا عمل تخلیق تو نہیں لیکن ایک طرح سے تخلیق مکررضرور ہے۔ان کا بتانا تھا کہ گورنمنٹ کالج کی سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی جو رسالہ نکالتی ہے، اس کو وہ بجا طور پر تخلیق مکررکا نام دیتی ہے۔
فارسی شاعروں میں حافظ انھیں سب سے پسند ہے، جن کی شاعری ان کے نزدیک آج بھی relevent ہے۔مولانا روم کے بھی عاشق صادق ہیں۔ ان کی مغرب میں ہونے والی پذیرائی کے بارے میں سوال پران کا جواب تھا ''رومی کے مغربی ماہرین میں سے اکثروہ ہیں جو ان کا ایک شعربھی وزن میں نہیں پڑھ سکتے۔مگر وہ ان کے نقاد اور محقق بن بیٹھے ہیں۔ان کی ساری مساعی کی بنیاد نکلسن اورآربری کا کام ہے، جب کہ پرائمری سورس یا اصل متن تک جائے بغیرتنقید اور تحقیق ہو ہی نہیں سکتی۔ سنجیدہ علمی سطح کے کام میں آپ اصل ماخذکا ترجمہ استعمال نہیں کر سکتے۔
حافظ محمود شیرانی اس لیے اردو تنقید کی قدآور شخصیت ہیں کہ انھوں نے کہیں لکھا ہے کہ میں نے چار دفعہ شاہنامہ فردوسی پڑھا تھا، اس لیے شاہنامہ پران کی تحریر پڑھ کر واقعی لگتا ہے کہ انھوں نے اسے گھول کر پیا ہے۔آج لاہور میں آپ کو ایسا شخص بھی مشکل سے ہی ملے گا جس نے ایک دفعہ بھی پورا شاہنامہ پڑھا ہو۔ این میری شمل کو ہمارے ہاں بہت بڑا مستشرق سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل ''مباحث'' میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے مضمون ''این میری شمل بحیثیت غالب شناش۔چند معروضات'' میں نشان دہی کہ ہے کہ انھوں نے غالب پراپنے کام کے سلسلے میں کس قدر فاش غلطیاں کی ہیں، اور کتنی ٹھوکریں کھائی ہیں۔یہ مضمون پڑھ کر میں خاص طور سے فراقی صاحب سے ملنے گیا اور اس قابل قدر مضمون پران کی تحسین کی۔میرے خیال میں آربری تک تو لوگوں نے نسبتاً بہتر کام کیا لیکن بعد میںبس ایسے ہی ہے۔''
1968ء میں لاہور میں آنکھ کھولنے والے محمد اطہر مسعود کے والدامجد مسعود اسٹیٹ بینک میں ملازم تھے۔ خطاطی بھی کرتے تھے۔اطہر مسعود نے ان کی وفات کے بعد اپنے بھائی شمس العارفین مسعود کے ساتھ مل کران کی مصورانہ خطاطی کے نمونوں کو ''نقش مسعود ''کے نام سے چھپوایا۔ دو بھائی اور دو بہنوں میں وہ سب سے بڑے ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔1984ء میں سینٹرل ماڈل اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے، جہاں سے 1992ء ایم اے فارسی کرکے نکلے۔ ان دنوں وہ موسیقی پر مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مضامین کو ترتیب دے رہے ہیں۔