حکومت کے حالات حاضرہ
معاش کی کتابوں میں نہ جانے کیا لکھا ہے اور دفتروں کے سچے جھوٹے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں لیکن عامتہ الناس کی خیر...
جو لوگ ہماری دعائوں سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب جن کے اہل و عیال بھی اقتدار کا لطف لے رہے ہیں ان سے زیادہ مجھے ان کے اقتدار کی فکر ہے ان کی فکر اس لیے نہیں کہ عقلمند اور دور اندیش لوگوں کی طرح انھوں نے پہلے ہی آنے والی زندگی کے تمام بندوبست کر لیے ہیں۔ اقتدار کے فکر کی کئی وجوہات ہیں جن میں میرے ذاتی مشاہدے اور معلومات بھی شامل ہیں۔ میں میاں صاحبان کے اقتدار کو ملک کے لیے مفید اور دوسروں کے مقابلے میں بے ضرر سمجھتا ہوں لیکن کیا کیا جائے کہ وہ ایک کینسر ساتھ لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ اگرچہ ان کے وزیر خزانہ بھی جو ایک بہت ہی اہم عہدہ داری ہے ان کے عزیزوں میں شامل ہیں لیکن یہ ایک ایسے عزیز ہیں جو اقتدار میں شامل نہ ہوتے یا پھر وزارت خزانہ جیسے منصب پر نہ ہوتے تو بہت اچھا تھا۔
معاش کی کتابوں میں نہ جانے کیا لکھا ہے اور دفتروں کے سچے جھوٹے اعدادوشمار کیا بتاتے ہیں لیکن عامتہ الناس کی خیر خواہی ہر حال میں لازم ہے اب انھوں نے پٹرول اور بجلی کے نرخ بڑھا کر عوام پر جو حملہ کیا ہے ایسا تو کوئی دشمن فوج بھی نہیں کیا کرتی۔ انھوں نے تو مار کر دھوپ میں ڈال دیا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ اس سے پہلے سے موجود زبردست گرانی مزید کتنی بڑھے گی سوال یہ ہے کہ عام آدمی اس گرانی میں زندہ بھی رہ سکے گا یا نہیں۔ یہ صریحاً ناانصافی ہے جس ملک میں مثلاً پہلے ہی اس کی کسی اسمبلی کا روزانہ خرچ اس کی کسی اوسط درجے کی آبادی کے روزانہ خرچ کے برابر یا کچھ زیادہ ہو اس پر مزید بوجھ کیسے ڈالا جا سکتا ہے اور کون ایسا سنگدل ہے جو اپنے ہموطنوں کے ساتھ یہ سلوک کر سکتا ہے۔ یہ تو قتل عام ہے۔
قومی زندگی میں عدم مساوات کی انتہا ہو چکی ہے۔ جو کوئی امیر ہے وہ خوفناک حد تک امیر ہے اور اسے کسی قسم کی گرانی وغیرہ کی پروا نہیں ہے لیکن جو غریب ہے اس کی حالت دیکھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ پٹرول ڈیزل اور بجلی وغیرہ کے نرخوں میں جو اضافہ ہوا ہے ان کو سامنے رکھ کر میں نے اپنے آیندہ ماہ کے متوقع اخراجات کا ایک سرسری سا غیر سرکاری قسم کا اندازہ لگایا ہے مگر یہ کام بیچ میں ہی چھوڑ دیا ہے اسے کسی حد تک بھی مکمل کرنے کی جرات نہیں پڑی اور یہ کہہ کر جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن دیکھا کیا جائے گا جو ہونا ہے وہ ابھی سے واضح ہے۔ میں ان دنوں اپنے گائوں کو دوسرے خوبصورت حوالوں سے یاد کر رہا ہوں لیکن اب میں نے سوچا کہ اگر میں گائوں لوٹ جائوں تو وہاں شاید سادہ زندگی کی وجہ سے بھوکا نہیں مروں گا۔ ہم نے شہری زندگی میں ضرورت سے زیادہ دور دور تک پائوں پھیلا دیے ہیں ہم ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھے لیکن اب ہمارے بچے ملک کی اعلیٰ ترین درسگاہوں میں زیر تعلیم ہیں جن کے اخراجات بھی اعلیٰ ترین ہیں۔
فیسوں کا بل آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ اتنی مہنگی تعلیم پا کر ہمارے بچے ہم ٹاٹ والوں سے زیادہ کیا کارنامہ سر انجام دیں گے ممکن ہے کوئی اچھی سی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں لیکن ہمارے برصغیر کے دانشوروں اور بزرگوں نے فیصلہ دے رکھا ہے کہ کھیتی درجہ اول وپار درجہ دوئم اور ملازمت گھٹیا ترین درجہ میں ہے۔ کھیتی ہم چھوڑ کر آگئے کاروبار ہم سے ہوتا نہیں اب بس نوکری باقی ہے اور بس یہی نوکری ہے کہ آج میں اپنی نوکری سامنے رکھ کر اپنے متوقع اخراجات کا حساب نہیں لگا سکتا۔ تنخواہ اور اخراجات کا کوئی تناسب ہی نہیں۔ یوں سمجھیں کہ ایک نا ممکن صورت حال کا سامنا ہے اور چھوٹی موٹی چوریاں جو عام ہو گئی ہیں اور چھینا جھپٹی یہ سب انھی حالات کا نتیجہ ہیں اور اب یہ حالات ڈاکوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ہماری پولیس اپنی انتہائوں پر ہے سکندر والا اسلام آباد ہو یا سنبل بچی والا لاہور، لگتا ہے دونوں کے ملزموں کو پولیس نے وہی استثنیٰ دے رکھا ہے جو ہمارے کسی صدر یا وزیراعظم کو حاصل ہے۔ میں نے کئی بار سوچا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ استثنیٰ کہاں سے آ گیا۔ جب حضور پاکؐ کی بیٹی کو یہ حاصل نہیں تھا تو کسی گیلانی وغیرہ کو کیسے حاصل ہو لیکن ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے کوئی مولوی جتنے فتوے چاہے جاری کر دے پھر بھی ہے۔
غربت و افلاس بے انصافی اور معاشی ناہمواری کا پہلا نتیجہ ہوتا ہے۔ بھوک کے بارے میں جو حضور پاکؐ فرما گئے وہ آخری بات ہے کہ ''فقر (غربت) انسان کو کفر کے قریب کر دیتی ہے'' کفر اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے اور غربت و افلاس انسان کو اس گناہ کے قریب کر دیتا ہے۔ انسانی تاریخ کا ہر انقلاب کسی غربت کی وجہ سے آیا ہے۔ ناانصافی کو انسان کسی حد تک برداشت کرتا چلا جاتا ہے لیکن پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسان گھبرا کر گھر سے باہر نکل آتا ہے اور یہی کسی انقلاب کا نکتہ آغاز بن جاتا ہے۔ ایک عرض کر دوں کہ غریب بڑا بے رحم ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اسی کی وجہ سے تو باہر نکلتا ہے اور یہ مظلوم اپنے بدلے لیتا ہے ان سے جو اس کے ساتھ بے انصافی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ میں ان حالات کی سنگینی کو دہرانا نہیں چاہتا جن سے ہم گزر رہے ہیں لیکن اتنا عرض ضرور کرتا ہوں کہ یہ حالات کسی طوفان کا پیش خیمہ ہیں اور ساتھ ہی یہ عرض بھی کرتا ہوں ابھی کسی طوفان کو روکا جا سکتا ہے اور کسی 'ہائوس' کو بچایا جا سکتا ہے۔
ہزاروں کنال کی سر سبز وسعتوں اور تیس کنال کے عجوبہ گھروں کو بچا لیجیے۔ شریفانہ زندگی بسر کیجیے عام انسانوں کی۔ بے شک حکومت بھی کیجیے اور لطف بھی اٹھائیے لیکن دوسروں کو تنگ کر کے نہیں، یہ ہوتا آیا ہے اور ہم عوام اس کے عادی ہیں۔ لکھنے کو تو میں پتہ نہیں کیا لکھ گیا لیکن یہ سب حرف غلط سمجھیے اگر حکمرانوں کو کسی کی بھوک اور بسکٹ اور کیک کے فرق کا پتہ ہوتا تو کون کہتا کہ اگر روٹی نہیں تو یہ بسکٹ کیک کیوں نہیں کھاتے اور اگر حکمرانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا تو انسانی معاشرے میں بدامنی کیوں ہوتی اور وہ سب کیوں ہوتا جو بیان کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ ہم نے 1947ء میں غریبی میں آنکھ کھولی لیکن اس غریبی میں عزت کی زندگی بسر کی اور غریبی کے خلاف کامیاب جنگ بھی کرتے رہے ایسی ہی امیدوں بھری زندگی میں چل پھر رہے تھے مگر خدا جانے یہ اشرافیہ ہمارے راستے میں کہاں سے آ گئی جس نے ہماری زاد راہ بھی لوٹ لی اور ہمارے راستے بھی گم کر دیے۔