حکومت کے پہلے سو دن

بچپن میں ہم جو کہانیاں سنا کرتے تھے، ان میں اکثر ایسے مقامات آتے جہاں کوئی کردار کسی واقعہ کو...


Nusrat Javeed October 02, 2013
[email protected]

بچپن میں ہم جو کہانیاں سنا کرتے تھے، ان میں اکثر ایسے مقامات آتے جہاں کوئی کردار کسی واقعہ کو دیکھ کر پہلے ہنستا اور پھر رو دیتا۔ بعض اوقات پہلے رونے کے بعد ہنسنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چند روز پہلے میں بھی اسی طرح کے ایک تجربے سے گزرا۔

ہمارے ایک مہربان دوست نے چند بے تکلف دوستوں کو کھانے پر بلا رکھا تھا۔ وہاں کے ایک مستقل مہمان ہمارے ایک ماہر معاشیات بھی ہوا کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے پورے پانچ سالوں میں وہ اس کی معاشی پالیسیوں کے شدید ترین ناقد رہے۔ مجھے اقتصادی امور کی کوئی خاص سمجھ نہیں۔ سیاسی گپ شپ میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں۔ اپنے ملک میں مختلف امور کے جو Expertsمانے جاتے ہیں ان کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا۔ میری جہالت کے ساتھ ساتھ بے نیازی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے زیادہ ترExpertsجب کسی حکومت کے ساتھ اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کررہے ہوتے ہیں تو انھیں اس دور کی ہر چیز ہری ہری نظر آتی ہے۔ ان کے اندر کا بے رحم ناقد صرف ان دنوں بیدار ہوتا ہے جب کوئی حکومت ان کی ذہانت سے رجوع کرنا پسند نہ کرے۔ سرکاری کروفر کے بغیر ہمارے Expertsکو مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور Consultantدیہاڑیاں لگاکر گھر چلانا پڑتا ہے یا پھر لاہور اور اسلام آباد کی ان یونیورسٹیوں میں جو اپنے تئیں ہارورڈ اور کیمرج بنی بیٹھی ہیں چند کورس وغیرہ پڑھانے ہوتے ہیں۔

ایمانداری کی بات ہے کہ اپنے ماہرِ معاشیات کی باتیں سن کر اکثر مجھ شکی مزاج کو یہ خیال آتا ہے کہ موصوف پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسیوں پر اتنی تنقید اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں اس جماعت کی حکومت نے کوئی ''ذمے داری'' نہیں دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی فراغت کے بعد جب نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو مجھے یقین تھا کہ وہ میرے ان ماہر اقتصادیات دوست کی صلاحیتوں سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔ اسحاق ڈار صاحب سے ان کی چند ملاقاتوں کی خبر ملی تو مجھے اطمینان ہوگیا۔ حکومت کو آئے مگر اب 4سے زیادہ مہینے ہوگئے ہیں۔ اس دوران نواز شریف کی تیسری حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کرکے اسے منظور بھی کروالیا ہے۔ IMFکے ساتھ بھی ایک نئے پروگرام کی جزئیات طے پاچکی ہیں۔ مگر میرے دوست کا ان سارے معاملات سے کوئی تعلق نظر نہیں آیا۔ میں ان سے ملا تو ہماری ملاقات سے ایک دن پہلے پورے ملک میں ڈالر کی قیمت میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں مسلسل اضافے سے کاروباری حضرات بہت واویلا کرتے نظر آرہے تھے۔ میں نے بڑے خلوص اور سنجیدگی سے اپنے دوست سے اس کا سبب جانا تو حیران رہ گیا۔

سچی بات ہے کہ ہم جو خود کو اپنے کالموں یا ٹی وی پروگراموں میں عقلِ کُل ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کافی کاہل واقع ہوئے ہیں۔ ایک چیز ہوتی ہے تحقیق۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے یا بولنے سے پہلے اس کے بارے تھوڑا بہت Home workکم سے کم میں تو نہیں کرتا۔ میرے ساتھیوں کا عالم ہوسکتا ہے اس سے مختلف ہولیکن مجھے ان کے کام میں نظر نہیں آتا۔ میرے جیسے لوگوں کو ہوم ورک کرنے کی عادت ہوتی تو بجائے فیس بک اور ٹویٹر پر چسکے دار موضوعات پر فقرہ بازی میں وقت ضایع کرنے کے گوگل پر IMFلکھ کر سرچ کا بٹن دبایاہوتا اور 250کے قریب ان صفحات کو ذرا غور سے پڑھ لیا ہوتا جو اس عالمی ادارے نے پاکستان کی موجودہ معاشی حالت کی بابت لکھے ہیں۔ صرف اپنے دوست سے ان صفحات کا ذکر سن کر میں نے ذرا کوشش کی۔ انھیں اسکرین پر ان صفحات کو نکال کر سرسری نظر ڈالی۔ زیادہ تر باتیں سمجھ نہ پایا کیونکہ انھیں معاشی اصطلاحات کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ ہاں میرے دوست کے اس دعوے کی تصدیق ضرور ہوگئی کہ حالیہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی اصل وجہ یہ تھی کہ نواز حکومت نے IMFکے ساتھ واضح الفاظ میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو ایک خاص سطح تک مستحکم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو جب بھی اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر ایک خاص سطح سے کم تر ہوتے نظر آئیں تو بازار سے ڈالر خرید کر اس سطح کو برقرار رکھا جائے۔

کسی بھی شے کی قیمت کا تعین بنیادی طور پر طلب ورسد کی منطق کے ذریعے ہوتا ہے۔ جب حکومتِ پاکستان جیسا ایک بہت ہی طاقت ور خریدار بھی کھلے بازار میں میرے اور آپ کی طرح ڈالر ڈھونڈنے جائے گا تو اس کی طلب میں گرانقدر اضافہ ہوجائے گا۔ جب حکومت خریدار بن کر بازار میں آجائے تو کاروباری حضرات پریشان ہوجاتے ہیں۔ بیرون ملک اپنا سامان بیچنے والے اپنے ڈالر دیر سے منگوانا شروع کردیتے ہیں تانکہ ان کو اپنی رقوم کے عوض زیادہ روپے مل سکیں۔ درآمد کنندگان کو مصیبت پڑجاتی ہے کہ اپنی ادائیگیاں جلد از جلد کردیں ورنہ زیادہ روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔ اتنے سارے طاقتور کھلاڑیوں کے میدان میں آجانے کے بعد چھوٹی موٹی بچتیں رکھنے والا شخص بھی ہوشیار ہوجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بینک میں جو اس کے چار پانچ لاکھ روپے پڑے ہیں ان میں سے کم از کم آدھے نکلواکر ان سے ڈالر خرید کر گھر میں رکھ لے۔ بعد میں کام آئیں گے۔

IMFکے انٹرنیٹ پر موجود پاکستان کے موجودہ اقتصادی حالات پر دو سو سے زیادہ صفحات میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔ چند ایک باتیں اب بجلی اور پٹرول کے نرخوں کی صورت ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ لیکن جس بات نے مجھے رونے اور ہنسنے پر مجبور کردیا وہ میرے ماہر معیشت کا ایک فقرہ تھا جس کے ذریعے انھوں نے بڑی بے بسی اور غصے سے کہا کہ ''نواز حکومت کے پہلے سو دن کے معاشی فیصلوں کو بھگتنے کے بعد مجھے تو پیپلز پارٹی والے ان سے کہیں بہتر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں''۔ میرا ذاتی خیال تو یہ تھا کہ حفیظ شیخ اور ان کے ساتھیوں کو یاد کرنے میں پاکستانی ابھی کچھ دن اور صرف کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |