اور ملاقات ہوگئی
بالآخر گزشتہ اتوار اور پیرکی درمیانی شب میاں نواز شریف اور ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے درمیان امریکا میں ملاقات ہوگئی۔
بالآخر گزشتہ اتوار اور پیرکی درمیانی شب میاں نواز شریف اور ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے درمیان امریکا میں ملاقات ہوگئی۔اس ملاقات کو روکنے کی دونوں طرف کے امن مخالف حلقوں کی جانب سے بھرپور کوششیںکی گئیں۔مگر دونوں وزرائے اعظم کی تعلقات میں بہتری کی خواہش کی وجہ سے یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ملاقات تلخیوں کے حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے،تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس ملاقات کے نتیجے میں اس تپش میں کمی آنے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے، جو مختلف مواقعے پر بھڑکائی جانے والی نفرت کی آگ نے پیدا کی ہے۔لیکن اس ملاقات سے کسی بریک تھروکا بھی بہرحال کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ نہ سہی گرمجوشی،کیا 66برس سے جاری سرد مہری کے ماحول میں کسی قسم کی کمی اور دل ودماغ پر جمی نفرتوں کی برف پگھل سکے گی؟
دراصل پاکستان اور بھارت66 برس گذرجانے کے باوجود ایک دوسرے کے بارے میں فرسودہ فکری رویوں سے جان چھڑانے پر آمادہ نہیں ہیں۔جس کی بنیادی وجہ ان کے درمیان موجود وہ عدم اعتمادہے، جوتاریخ کے مختلف ادوار سے ہوتا ہوا تقسیم ہندتک پہنچا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان اختلاف کا سبب صرف کشمیر اور اس سے جڑے دیگر تنازعات ہی نہیں ہیں،بلکہ تقسیمِ ہند خود ایک بہت بڑا اختلافی معاملہ بناہوا ہے۔جسے ہندو قوم پرست66برس گذرنے کے باوجود ہضم کرنے پرتیارنہیں ہیں۔اس صورتحال نے کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو مہمیز لگائی ہے اورانھیں بڑھاوا دے کر انتہائی پیچیدہ بنادیا ہے۔اگر ایک طرف کشمیرکے حوالے سے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کوفروغ حاصل ہوا ہے،تو دوسری طرف تقسیم ہند بھارت میں ہندوقوم پرستی میں اضافے کا باعث بنی ہے۔لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسند عناصرکبھی مقبول عوامی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،بلکہ ان کا ووٹ بینک گزشتہ چالیس برس سے 5سے7فیصد کے درمیان گھومتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں ہندو قوم پرست جماعتیںکئی بار مرکز اور صوبوں میں اقتدار میں آچکی ہیں۔ اس مرتبہ بھی BJPکے مرکز میں حکومت بنانے کے قوی امکانات نظر آرہے ہیں۔
لیکن اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہBJP میں شامل کچھ جماعتیں پاکستان کے بارے میںمخالفانہ جذبات کاضرور اظہار کرتی ہیں،لیکن اس کے باوجود BJP کے دورِ حکومت میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری بھی آئی ہوئے۔اس حوالے سے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ دراصل دونوں ممالک کی سیاسی جماعتیں تعلقات کی بہتری میں دلچسپی رکھتی ہیں،مگر دونوں جانب کی اسٹبلشمنٹ سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ایک یہ پہلوبھی سامنے آیاہے کہ بھارت میںBJPکی شکل میں ہندوقوم پرستوں کی حکومت ہویاکانگریس کی شکل میں لبرل سیکیولرقوتیں اقتدار میں ہوں، ہر دو صورت میں پاکستان کی منتخب حکومتوں کے بجائے ان کے تعلقات فوجی حکمرانوں کے ساتھ زیادہ بہتر رہتے ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگیں کسی منتخب دور میں نہیں ہوئی ہیں۔ دراصل پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادتوں نے دونوں ممالک کے درمیان پیدا عدم اعتماد کو ختم کرنے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، بلکہ ان تنازعات کو بنیاد بناکرسیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی اور اسٹبلشمنٹ کو گلُ کھیلنے کے مواقعے فراہم کیے ،جس نے صورتحال کو مزیدگمبھیر کیا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں مغرب اور مشرق کے بارے میں ایک عام تصور یہ تھاکہ اہل یورپ دنیا کے معاملات ومسائل کو چشمِ بینا سے دیکھتے ہیں،جب کہ اہل مشرق یا ایشیائی اقوام تہذیبی نرگسیت کا شکار ہونے کے سبب حقیقت پسندانہ طرز عمل اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔لیکن گزشتہ صدی کے آخری نصف حصے میں ایشیاء کے حوالے سے یہPerceptionغلط ثابت ہوا۔ کیونکہ بیشتر ایشیائی ممالک نے بدلتے حالات وواقعات سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے رویوں اور اندازفکر میں مناسب تبدیلیاں کیں۔جس کے نتیجے میں ان ممالک نے گزشتہ30برسوں کے دوران ہر شعبہ حیات میںنمایاں ترقی کی۔خاص طور پر ملائیشیاء،کوریا،تائیوان ، فلپائن اور تھائی لینڈ تیزی کے ساتھ آگے بڑھے۔انڈونیشیاء جو 1998ء تک سوہارتو آمریت کے چنگل میں پھنساایک انتہائی پسماندہ ملک ہواکرتا تھا۔ مگر جیسے ہی جمہوریت بحال ہوئی اور طاقتور اسٹبلشمنٹ نے پارلیمان کی بالادستی کو خوش دلی کے ساتھ تسلیم کرلیا ،نتیجتاً انڈونیشیاء اس وقت ایشیاء کی چار انتہائی تیز رفتارمعیشتوں میںسے ایک ہے۔ سری لنکا جو کئی دہائیوں تک تامل علیحدگی پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے سبب ترقی معکوس کی راہ پر گامزن تھا،مسلح گروہوں پر قابو پانے کے بعد ترقی کی سمت رواں ہوچکاہے۔ نیپال بھی بادشاہت کے خاتمے کے بعد ترقی کے اہداف تیزی سے حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس کے برعکس پاکستان اور بھارت آج بھی سرد جنگ کی نفسیات سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں ہیں۔لیکن ان دو دہائیوں کے دوران ایک نمایاں فرق یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بھارت نے غربت کی تشویشناک صورتحال اورہرسال دفاعی بجٹ میں بے تحاشہ اضافے کے باوجود معاشی ترقی کے نئے اہداف حاصل کیے ہیں۔ جب کہ پاکستان ان دو دہائیوں کے دوران معاشی طورپر مزید بدحالی کا شکار ہواہے۔توانائی کے بدترین بحران، امن و امان کی ابتر صورت حال اورخراب منصوبہ بندی کی وجہ سے پاکستانی ریاست گوناگوں مسائل میں الجھ چکی ہے ۔اس صورتحال کی ایک مثال یہ ہے کہ1990ء میں خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والوںکی شرح بھارت میں 47فیصداور پاکستان میں22.3فیصد تھی۔ اسوقت بھارت میں یہ شرح کم ہوکر29.4فیصدرہ گئی ہے،جب کہ پاکستان میں 44 فیصدکے قریب پہنچ چکی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف 23 برسوںکے دوران بھارت میں غربت کم ہوئی ہے اور پاکستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے منصوبہ سازوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور عالمی سطح پر کارپوریٹ کلچر کے فروغ کے نتیجے میںپوری دنیا میںسیاست اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں واضح طورپر تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں۔ایک زمانہ تھا جب سیاست معاشی اہداف کا تعین کیا کرتی تھی اور تزویراتی حکمت عملیوںمیں قومی سلامتی اولین ہدف ہواکرتی تھی۔مگراب معیشت سیاست اورخارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرتی ہے۔یہی سبب ہے کہ آج کی دنیا میںممالک کے درمیان باہمی تعلقات میںنظریات کی جگہ معاشی مفادات نے لے لی ہے۔ جس کے نتیجے میں خارجہ حکمت عملیوںکی نوعیت اور طریقہ کار بھی تبدیل ہوگیاہے۔سوبرس تک ایک دوسرے سے دست وگریباں رہنے اور دوعالمی جنگیں لڑنے والے یورپی ممالک آج ایک ایسے اتحاد میںبندھ چکے ہیں، جہاں ملکوں کی قومی سرحدیں محض نمائشی ہوکررہ گئی ہیں۔یہی کچھ معاملہ آسیان ممالک ہے، جنہوں نے اپنے سرحدی تنازعات اور سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاشی تعاون کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔جس کے نتیجے میں ان ممالک نے قابل رشک ترقی کی ہے۔دوسری مثال امریکا اور چین کی ہے،جو فی زمانہ ایک دوسرے کے سب سے بڑے حریف سمجھے جاتے ہیں ،مگرگزشتہ دودہائیوں کے دوران سب سے زیادہ امریکی سرمایہ کاری چین میں ہوئی ہے۔ یہی کچھ معاملہ چین اور بھارت کا ہے،جن کے تبت پر سرحدی تنازعات موجود ہیں، مگر امریکا کے بعد چین کی سب سے زیادہ تجارت بھارت کے ساتھ ہورہی ہے۔
حالات وواقعات یہ ثابت کررہے ہیں کہ اس خطے میںاسوقت صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جوتبدیل ہوتے عالمی حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے تہذیبی نرگسیت کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے سیاسی ومعاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک سے شدت پسندی کا قلع قمع کرنے اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں واضح سیاسی عزم کا مظاہرہ نہیں کرپا رہیں۔ حالانکہ 2008ء اور اس کے بعد2013ء کے عام انتخابات میں عوام نے جمہوریت پسند قوتوں کو ووٹ دے کر ایوانوں میں اس لیے پہنچایا کہ وہ شدت پسندی کا خاتمہ کرکے ٹھوس بنیادوں پر ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کام کریں گی۔ یہ بھی خوش آیند بات ہے کہ گزشتہ بیس برس سے پاکستان میں انتخابی مہم کی بنیاد بھارت دشمنی کے بجائے مقامی ایشیوزہوتے ہیں۔ایک ایسی صورتحال میں جب عوام کی اکثریت حکمرانوں سے اپنے مسائل کے حل کی خواہش مند ہے اور وہ ہر غیر جمہوری طریقہ کو ردکرتے ہوں، تو یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ شدت پسندوں کے آگے جھکنے کے بجائے انھیں نشان عبرت بنائیں اور ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کریں ،جس میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی اور اس کے حجم میں اضافہ بھی شامل ہے۔
بھارت کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنے فرسودہ تصورات کی دلدل سے باہر نکل کر نئے اندازمیں سوچنا ہوگا۔بھارتی میڈیاکو بھی پاکستان کے بارے میں الزام تراشیوںکے ذریعے ریٹنگ بڑھانے کے بجائے مثبت سوچ اپناناہوگی، تاکہ اعتماد کی ایک نئی فضاء قائم ہوسکے۔ یہی وہ راستہ ہے جودوطرفہ تعلقات کو بہتر بناکر نئے دور کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے۔