معیشت ریس کے فرضی گھوڑے نہ دوڑائیں
وقت آگیا ہے کہ ارباب اختیار معیشت پر ریس کے فرضی گھوڑے نہ دوڑائیں، حقیقت پسند بنیں
اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستانی معیشت کے مالیاتی اہداف میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، ملکی معیشت کو اندرونی اور بیرونی خطرات اب بھی موجود ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سمیت معیشت کے کچھ شعبوں میں بہتری آئی ہے، میکرو اکنامک آؤٹ لک میں بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ مارکیٹ شرح مبادلہ ریٹ، بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے مثبت نتائج سامنے آ نا شروع ہوگئے ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے فارن ایکسچینج بفر کو بہتر بنایا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی محاذ سے روز نت نئے معاشی حقائق جاری کیے جاتے ہیں اور مالیاتی پیشرفت کے سامنے لائے جانے والے بیانیے کی بنیاد پر خزانہ سے وابستہ مشیر اور وزرا معیشت کی بہتری کی داستانیں سنا رہے ہیں، تاہم ماہرین ان کی اعتباریت کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے۔ اپنے یومیہ تجزیوں میں حکومتی مالیاتی ماہرین میڈیا پر تاجروں، صنعتکاروں اور عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں کہ معیشت میں استحکام کا حقیقت پسندانہ دور کب عوام کی زندگیوں میںداخل ہو گا اور انھیں ٹریکل ڈاؤن کی نوید دیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت میں غیر مرئی جمود پر تشویش کا دائرہ وسیع تر ہونے کے باعث مارکیٹ میں تبدیلیوں کے امکانی مثبت اشاریوں سے عوام کی رورزمرہ زندگی میںکوئی نامیاتی بہتری کا شائبہ نہیں ملتا، ماہرین معیشت اعداد و شمار کی جادوگری سے عوام کے غصے اور مایوسی کاازالہ کرنے کی کوششوں میں ہیں مگر ضرورت میکرو اکنامک بریک تھرو کی ہے، لوگ اپنے معاشی مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں۔
ایک سال ان کے لیے بڑا دورانیہ ہے، معاشی معاملات کی سبک روی اور بے نتیجہ شماریاتی شٹل کاک کلچر سے انھیں سخت وحشت ہونے لگی ہے، میڈیا میں عوام کی معاشی صورتحال پر تاثرات کسی اور دنیا کی کہانی سناتے ہیں، واضح رہے پی ٹی آئی کے ووٹرز تک موجودہ ابتر معاشی حالات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں، کراچی کی دردا نگیز سماجی اور اربن بے بسی کی وجہ سے مسائل کے حل سے بد دلی کا گراف بھی عوام حلقوں کے نفسیاتی خلفشار اور بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔
حکمراں اور معاشی مشیر اور مسیحا سب مل کر اس حیقت کو تسلیم کر لیں کہ عوام اوراپوزیشن معیشت کو آئی ایم ایف کے عینک سے دیکھنے کا کرب مزید برداشت نہیں کریں گے اور قبل اس کے کہ شدت جذبات سے معاشی حقائق پر دو تین ماہ میں ایک عوامی اور سیاسی قوتوں کا غیر معمولی شوڈاؤن ہو جائے، ارباب اختیار اسٹیٹس کو کے غیر متوازن سنارریو کا رخ بدلیں، ورنہ دیر ہو جائیگی۔
حکومتی ذرائع بہر حال آئی ایم ایف کے جائزے کی روشنی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں توقع سے زیادہ تیزی سے بہتری آنے کی امید ظاہر کر رہے ہیں جو ان کے بقول زیادہ تیزی سے ایڈجسٹ ہو رہا ہے۔ مانیٹری پالیسی افراط زر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں بھی بہتری آئی ہے اور برآمد کنندگان کو ریفنڈز کی ادائیگی کے بعد پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں خالص شرح نمو ڈبل ڈیجٹ رہی ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے لیکن اصلاحاتی ایجنڈ ا آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے اسٹاف لیول مشن کے دورہ کے اختتام پرجاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کے لیے سٹرکچرل چیلنجز ابھی برقرار ہیں اوراس تناظر میں پاکستان کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال20۔ 2019 میں پاکستان کی شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) 2.4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان کا اقتصادی اصلاحاتی پروگرام ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے لیکن مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے فیصلہ کن نفاذ و عملدرآمد ضروری ہے۔ تاہم اصلاحاتی پروگرام کے کچھ شعبوں میں پیشرفت ہوئی ہے۔
اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن کا دورہ مکمل ہونے کے بعد ابتدائی فائنڈنگ کی بنیاد پر یہ اسٹیٹمنٹ جاری کیا گیا ہے اور یہ نکتہ نظر پاکستان دورے پر جانے والے آئی ایم ایف اسٹاف مشن کا نکتہ نظر ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ آئی ایم ایف ا یگزیکٹو بورڈ کی نمائندگی کرتا ہو۔ اس اسٹاف مشن کے نتائج آئی ایم ایف بورڈ میں زیر بحث نہیں آئیں گے۔
آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی پروگرام ایک پر امید آغاز ہے لیکن مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے فیصلہ کن نفاذ ضروری ہے۔ اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف مشن اور حکام نے گزشتہ مالی سال 19۔2018 کے توقع سے زیادہ خراب مالی نتائج کا بھی تجزیہ کیا ہے جو جزوی طور پر یکدم عوامل کا نتیجہ تھے اور رواں مالی سال 20۔2019 کے مالی اہداف کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
آئی ایم ا یف کا کہنا ہے کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ پسماندہ طبقے کے لیے سوشل سیفٹی نیٹ کے تحت اخراجات کے آئی ایم ایف کے طے کردہ اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پروگرام میں معاشرتی اخراجات کے اقدامات کو نافذ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت پاکستان کے ساتھ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے لیے طے شْدہ اہداف کا پہلا جائزہ مکمل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آیندہ ماہ (اکتوبر) کے آخر میں پاکستان آئے گا۔
جب کہ سچی بات تو یہ ہے کہ لوگ مالیاتی اہداف میں تبدیلیوں کی بحث پر شدید رد عمل دینے پر تیار ہیں ، عوام کی باڈی لینگویج میڈیا کے تجزیہ کاروں کے پروگراموں سے مترشح ہے۔ لوگ کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں، حکومت کو ان زمینی حقائق کا فوری ادراک کرنا چاہیے، اب عوام کے روزمرہ سماجی اضطراب، معاشی محرومیوں ، خدشدت کا زیادہ زور حکومت کی اس ضد پر ہے کہ عوام معاشی حقائق پر حکومتی اور آئی ایم یاف کے بیانات پر آمنا صدقنا کہہ دیں اورانتظار کریں کہ معیشت اپنے فطری دورانیئے میں استحکام کا نقارہ بجا دے گی۔
باوجود بے یقینی اور وزرا کے متضاد بیان بازیوں کے ماہرین معیشت کو خدشہ ہیں کہ سیمنٹ،آٹو موبیل انڈسٹری میں سلو ڈاؤن ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، بیروزگاری سے سماجی اضطراب اور جرائم میں شدت کے آثار نمایاں ہیں، عوام معیشت کے استحکام کی صرف خبروں سے مطمئن ہونے پر تیار نہیں جب کہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے حکام کی یقین دہانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی معاشی اور مالیاتی پالیسییوں کی سمت سازی اور جمہوری ثمرات کا بھی کوئی امکان نظر نہیںآتا۔
اس ممکنہ منظر نامہ کی تشویشناکی بعض اخباری اطلاعات میںدیکھی جا سکتی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے خبردار کیا ہے کہ دو سال میں مزید مہنگائی رہ سکتی ہے، اگلے 24 ماہ میں مہنگائی کی شرح کم ہو جائیگی، شرح سود میں اضافہ کے باعث مہنگائی بڑھ گئی، جس پر قابو پانے کے لیے کنوینر عائشہ غوث پاشا کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ڈپٹٰی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں گرنے سے1.9 ارب ڈالر کی برامدات نہ بڑھ سکیں، پاکستان کی برامدات کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ شرح سود 7.5 فیصد سے بڑھ کر 13.25 فیصد تک پہنچی، دیگر حقائق بھی معاشی دباؤ کا باعث بنے۔
ادھرپی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کے مطابق صحت تعلیم کے لیے فنڈز نہیں، دوا نہیں تو کفایت کا کیا فائدہ؟ کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں، ہیلتھ کارڈ میں ایسی اسپتال ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ارباب اختیار معیشت پر ریس کے فرضی گھوڑے نہ دوڑائیں، حقیقت پسند بنیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سمیت معیشت کے کچھ شعبوں میں بہتری آئی ہے، میکرو اکنامک آؤٹ لک میں بڑی تبدیلی نہیں ہوئی۔ مارکیٹ شرح مبادلہ ریٹ، بیرونی ادائیگیوں کے توازن کے مثبت نتائج سامنے آ نا شروع ہوگئے ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے فارن ایکسچینج بفر کو بہتر بنایا ہے۔
پاکستان کے اقتصادی محاذ سے روز نت نئے معاشی حقائق جاری کیے جاتے ہیں اور مالیاتی پیشرفت کے سامنے لائے جانے والے بیانیے کی بنیاد پر خزانہ سے وابستہ مشیر اور وزرا معیشت کی بہتری کی داستانیں سنا رہے ہیں، تاہم ماہرین ان کی اعتباریت کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان میں کتنی حقیقت اور کتنا افسانہ ہے۔ اپنے یومیہ تجزیوں میں حکومتی مالیاتی ماہرین میڈیا پر تاجروں، صنعتکاروں اور عوام کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں کہ معیشت میں استحکام کا حقیقت پسندانہ دور کب عوام کی زندگیوں میںداخل ہو گا اور انھیں ٹریکل ڈاؤن کی نوید دیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت میں غیر مرئی جمود پر تشویش کا دائرہ وسیع تر ہونے کے باعث مارکیٹ میں تبدیلیوں کے امکانی مثبت اشاریوں سے عوام کی رورزمرہ زندگی میںکوئی نامیاتی بہتری کا شائبہ نہیں ملتا، ماہرین معیشت اعداد و شمار کی جادوگری سے عوام کے غصے اور مایوسی کاازالہ کرنے کی کوششوں میں ہیں مگر ضرورت میکرو اکنامک بریک تھرو کی ہے، لوگ اپنے معاشی مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں۔
ایک سال ان کے لیے بڑا دورانیہ ہے، معاشی معاملات کی سبک روی اور بے نتیجہ شماریاتی شٹل کاک کلچر سے انھیں سخت وحشت ہونے لگی ہے، میڈیا میں عوام کی معاشی صورتحال پر تاثرات کسی اور دنیا کی کہانی سناتے ہیں، واضح رہے پی ٹی آئی کے ووٹرز تک موجودہ ابتر معاشی حالات کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں، کراچی کی دردا نگیز سماجی اور اربن بے بسی کی وجہ سے مسائل کے حل سے بد دلی کا گراف بھی عوام حلقوں کے نفسیاتی خلفشار اور بے چینی کی عکاسی کرتا ہے۔
حکمراں اور معاشی مشیر اور مسیحا سب مل کر اس حیقت کو تسلیم کر لیں کہ عوام اوراپوزیشن معیشت کو آئی ایم ایف کے عینک سے دیکھنے کا کرب مزید برداشت نہیں کریں گے اور قبل اس کے کہ شدت جذبات سے معاشی حقائق پر دو تین ماہ میں ایک عوامی اور سیاسی قوتوں کا غیر معمولی شوڈاؤن ہو جائے، ارباب اختیار اسٹیٹس کو کے غیر متوازن سنارریو کا رخ بدلیں، ورنہ دیر ہو جائیگی۔
حکومتی ذرائع بہر حال آئی ایم ایف کے جائزے کی روشنی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں توقع سے زیادہ تیزی سے بہتری آنے کی امید ظاہر کر رہے ہیں جو ان کے بقول زیادہ تیزی سے ایڈجسٹ ہو رہا ہے۔ مانیٹری پالیسی افراط زر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں بھی بہتری آئی ہے اور برآمد کنندگان کو ریفنڈز کی ادائیگی کے بعد پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں خالص شرح نمو ڈبل ڈیجٹ رہی ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے لیکن اصلاحاتی ایجنڈ ا آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے اسٹاف لیول مشن کے دورہ کے اختتام پرجاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کے لیے سٹرکچرل چیلنجز ابھی برقرار ہیں اوراس تناظر میں پاکستان کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال20۔ 2019 میں پاکستان کی شرح نمو (جی ڈی پی گروتھ) 2.4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان کا اقتصادی اصلاحاتی پروگرام ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے لیکن مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے فیصلہ کن نفاذ و عملدرآمد ضروری ہے۔ تاہم اصلاحاتی پروگرام کے کچھ شعبوں میں پیشرفت ہوئی ہے۔
اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف مشن کا دورہ مکمل ہونے کے بعد ابتدائی فائنڈنگ کی بنیاد پر یہ اسٹیٹمنٹ جاری کیا گیا ہے اور یہ نکتہ نظر پاکستان دورے پر جانے والے آئی ایم ایف اسٹاف مشن کا نکتہ نظر ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ آئی ایم ایف ا یگزیکٹو بورڈ کی نمائندگی کرتا ہو۔ اس اسٹاف مشن کے نتائج آئی ایم ایف بورڈ میں زیر بحث نہیں آئیں گے۔
آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا معاشی پروگرام ایک پر امید آغاز ہے لیکن مضبوط اور پائیدار ترقی کی راہ ہموار کرنے کے لیے فیصلہ کن نفاذ ضروری ہے۔ اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اسٹاف مشن اور حکام نے گزشتہ مالی سال 19۔2018 کے توقع سے زیادہ خراب مالی نتائج کا بھی تجزیہ کیا ہے جو جزوی طور پر یکدم عوامل کا نتیجہ تھے اور رواں مالی سال 20۔2019 کے مالی اہداف کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
آئی ایم ا یف کا کہنا ہے کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ پسماندہ طبقے کے لیے سوشل سیفٹی نیٹ کے تحت اخراجات کے آئی ایم ایف کے طے کردہ اہداف حاصل کرلیے گئے ہیں۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پروگرام میں معاشرتی اخراجات کے اقدامات کو نافذ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت پاکستان کے ساتھ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے لیے طے شْدہ اہداف کا پہلا جائزہ مکمل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کا جائزہ مشن آیندہ ماہ (اکتوبر) کے آخر میں پاکستان آئے گا۔
جب کہ سچی بات تو یہ ہے کہ لوگ مالیاتی اہداف میں تبدیلیوں کی بحث پر شدید رد عمل دینے پر تیار ہیں ، عوام کی باڈی لینگویج میڈیا کے تجزیہ کاروں کے پروگراموں سے مترشح ہے۔ لوگ کھل کر اظہار خیال کر رہے ہیں، حکومت کو ان زمینی حقائق کا فوری ادراک کرنا چاہیے، اب عوام کے روزمرہ سماجی اضطراب، معاشی محرومیوں ، خدشدت کا زیادہ زور حکومت کی اس ضد پر ہے کہ عوام معاشی حقائق پر حکومتی اور آئی ایم یاف کے بیانات پر آمنا صدقنا کہہ دیں اورانتظار کریں کہ معیشت اپنے فطری دورانیئے میں استحکام کا نقارہ بجا دے گی۔
باوجود بے یقینی اور وزرا کے متضاد بیان بازیوں کے ماہرین معیشت کو خدشہ ہیں کہ سیمنٹ،آٹو موبیل انڈسٹری میں سلو ڈاؤن ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، بیروزگاری سے سماجی اضطراب اور جرائم میں شدت کے آثار نمایاں ہیں، عوام معیشت کے استحکام کی صرف خبروں سے مطمئن ہونے پر تیار نہیں جب کہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ کے حکام کی یقین دہانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی معاشی اور مالیاتی پالیسییوں کی سمت سازی اور جمہوری ثمرات کا بھی کوئی امکان نظر نہیںآتا۔
اس ممکنہ منظر نامہ کی تشویشناکی بعض اخباری اطلاعات میںدیکھی جا سکتی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے خبردار کیا ہے کہ دو سال میں مزید مہنگائی رہ سکتی ہے، اگلے 24 ماہ میں مہنگائی کی شرح کم ہو جائیگی، شرح سود میں اضافہ کے باعث مہنگائی بڑھ گئی، جس پر قابو پانے کے لیے کنوینر عائشہ غوث پاشا کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ڈپٹٰی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں گرنے سے1.9 ارب ڈالر کی برامدات نہ بڑھ سکیں، پاکستان کی برامدات کی مقدار میں اضافہ ہوا۔ شرح سود 7.5 فیصد سے بڑھ کر 13.25 فیصد تک پہنچی، دیگر حقائق بھی معاشی دباؤ کا باعث بنے۔
ادھرپی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کے مطابق صحت تعلیم کے لیے فنڈز نہیں، دوا نہیں تو کفایت کا کیا فائدہ؟ کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں، ہیلتھ کارڈ میں ایسی اسپتال ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ارباب اختیار معیشت پر ریس کے فرضی گھوڑے نہ دوڑائیں، حقیقت پسند بنیں۔