تمام ادارے اور سارے افراد مجرم ہیں

وہی غالب کی سی کیفیت آج ہماری بھی ہےکہ:<br /> حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں<br /> مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں


Saad Ulllah Jaan Baraq October 02, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: وہی غالب کی سی کیفیت آج ہماری بھی ہے کہ:

حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

لیکن اگر مقدور ہو بھی نوحہ گر رکھنے کا تو نوحہ گر بھی کب تک دل کو رو سکے گا یا جگر کو پیٹ پائے گا کہ ابھی ایک قیامت نے دم نہیں لیا ہوتا کہ دوسری اس سے بھی بڑی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، افغانستان کے پرانے لوگ اکثر کسی غم کی تعزیت کو جاتے ہیں تو ان کی آخری دعا یہ ہوتی ہے ''خدا یہ غم نہ بھلائے'' جو بظاہر بددعا لگتی ہے لیکن دنیا کی سب سے بہتر دعا ہے، غم تب بھولے گا جس اس سے بھی بڑا غم سر پر پڑتا ہے تازہ غم پرانے غم کو بھلا دیتا ہے لیکن ہم کو شاید کسی نے بھی یہ دعا نہیں دی ہے بلکہ یہ دعا دی ہے کہ خدا تمہارا ہر غم بھلائے، اس سے بھی بڑے غم سے ... اس سے بڑا غم اور کیا ہو گا جب خون پانی سے بھی سستا ہو جائے انسان کی قیمت منرل واٹر کی ایک بوتل سے بھی کم ہو جائے ایسی حالت میں یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے غم

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

شرم آ جاتی ہے انسان کو ... یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسے لوگ ہیں، یہ کیسے دل ہیں، یہ کیسی سوچ ہے کہ ایک ایسے بے ضرر، معصوم خدمت گزار، کسر نفس فروتن اور مطیع و فرماں بردار طبقے کو بھی بربریت کا نشانہ بنایا جائے جس سے کبھی کسی چیونٹی کو بھی تکلیف نہیں ہوئی ہے، باقی تو جتنے بھی دھماکے ہوتے جہاں بھی ہوتے ہیں جو بھی ہوتے ہیں اور جن کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے وہ قابل افسوس تو ہیں اور ان کا جواز بھی ڈھونڈا جاتا ہیلیکن یہ جو چرچ میں ہوا ... اس کے لیے کسی کے پاس کیا جواز ہے؟ سوائے اس کے کہ اسے رقص ابلیس کا نام دیا جائے، پاکستان کے اندر پایا جانے والا مسیحی طبقہ تو انتہائی مسکین، لاتعلق اپنے کام سے کام رکھنے والا انتہائی بے ضرر طبقہ ہے بقول کسے نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں ... نہ تو اس کی کوئی آواز ہے نہ کوئی عزائم ہیں نہ سیاست میں دخیل ہے نہ مذہب سے کوئی سروکار رکھتا ہے نہ ان میں بڑے بڑے افسر ہیں نہ سرمایہ دار ہیں نہ کی پوسٹوں پر ان کا قبضہ ہے، صرف خدمت ہی ان کا پیشہ بھی ہے مذہب بھی اور روزگار بھی، زیادہ سے زیادہ ترقی کی تو نرس اور ڈاکٹر بن کر اور بھی خدمت گزار ہو جاتے ہیں نہ کوئی غرور نہ تکبر، نہ سرگرمی نہ دخل در معقولات ۔۔۔

پشاور کے اس حادثے نے بہت ساری ایسی چیزوں اداروں اور دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں جن کو ہم اپنا طرہ دستار بنائے ہوئے ہیں جن میں سب سے بڑا سوالیہ نشان ان حکومتی اداروں پر لگا ہوا ہے جو عوام کے خون پسینے کی بوند بوند نچوڑ کر مال غنیمت کی طرح ہڑپ کر رہے ہیں، بڑے بڑے بجٹ، بڑے بڑے مشاہرے اور مراعات، بڑے بڑے بنگلے، بڑے بڑے اختیارات، بڑے بڑے دعوے، بڑے بڑے سر اور بڑے پیٹ رکھنے کے باوجود یہ حال ہے کہ جنگل بھی اس سے زیادہ پرامن ہوتا ہے، سوال تو یہ ہے کہ جب میری جان محفوظ نہیں ہے، مال محفوظ نہیں ہے، بچے محفوظ نہیں ہیں، عزت محفوظ نہیں ہے، گھر محفوظ نہیں ہے، سڑک محفوظ نہیں ہے، بازار گھر عبادت گاہ، اسکول اسپتال کچھ بھی محفوظ نہیں ہے تو کس بات کے محافظ اور کیسی حفاظت ، بے شمار ادارے انتہائی کثیر رقومات پر پل کر دندناتے ہیں کہ کہیں رخنہ ہو تو اسے بند کریں، یہ تفتیشی ادارے، یہ انٹیلی جنس کی طرح کے ادارے ... ہر ہر سڑک پر دس دس بار جانچ پڑتال اور حالت یہ کہ کوئی جہاں جی چاہے خون کا بازار گرم کر دے، مشہور تو یہ ہے کہ ان اداروں کو چوبیس گھنٹے پہلے ہی واردات کا علم ہو جاتا ہے۔

بدمعاشوں کے ہر اڈے، منشیات کی ہر نقل و حرکت، عصمت فروشی کے ہر کوچے اور جرائم کے ہر سرچشمے پر ان کی نہ صرف نظر ہوتی ہے بلکہ سب سے بروقت اپنا خراج بھی وصول کرتے ہیں لیکن ناک کے نیچے اتنے بڑے واقعات کا پتہ لگتا ہے تو صرف اتنا کہ حملہ آور دو تھے، بارود اتنے کلو تھا، حملہ آوروں کی عمریں اتنی تھیں وہ اپنا سر چھوڑ گئے جن کی جانچ ہو رہی ہے، تفتیش جاری ہے بہت جلد پکڑے جائیں گے، ماسٹر مائنڈ کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا، ذمے داروں کو چھوڑا نہیں جائے گا ... ان کو توقع ہوتی ہے کہ بہت جلد اس سے بھی بڑا غم ٹوٹنے والا ہے جو پرانے غم پر گرد ڈال دے گا، بڑے سروں بڑے پیٹوں اور بڑے بڑے دستاروں والے مذمتی بیان جاری کر دیتے ہیں واقعہ کو اسلام اور انسانیت کا جرم قرار دیا جاتا ہے اور مزے سے اپنی کرسی میں اور گھس کر بیٹھ جاتے ہیں، دوسرا بڑا سوالیہ نشان تمام اسلامی ممالک کے نام پر عموماً اور پاکستان کے نام پر خصوصاً یہ لگ چکا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اقلیتوں کے حقوق کی جو ضمانت اسلام نے دی ہوئی ہے وہ کہاں ہے، ذمیوں اور اقلیتوں کے بارے میں جو اسلامی ہدایات ہیں وہ ہر کسی کو معلوم ہیں اور اگر کوئی مملکت ان کی حفاظت نہیں کر پاتی تو اسے فوراً یا تو اپنا نام بدلنا چاہیے اور یا استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

پڑوسی ملک میں ریلوے کے حادثے میں وزیر مستعفی ہو سکتا ہے جو حادثہ ہوتا ہے اور ان میں بہت کم جانیں چلی جاتی ہیں لیکن یہاں ایک چیونٹی تک نے نہ کبھی استعفیٰ دیا نہ ناکامی یا ندامت کا اظہار کیا، بات اس پر گھما پھرا کر ختم کر دی جاتی ہے کہ شر پسند عناصر کو نہیں چھوڑا جائے گا، شر پسند تو دشمن ہیں اور دشمن تو دشمنی کرتے ہی ہیں ان سے دوستی کی توقع تو کوئی پاگل ہی کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دوست کیا کیا کر رہے ہیں اور کیا کر پائیں گے، تیسرا سوالیہ نشان ان تمام چھوٹے بڑے اسلامی فرقوں علماء، فضلا شیوخ اور مدعیوں پر کھڑا ہے کہ کیا ان کا کام صرف بیان دینا رہ گیا ہے واقعہ کا انتظار کرنا اور پھر اس پر روایتی اور ہموار بیان دینے کے علاوہ ان کی کچھ اور ذمے داری بنتی ہے یا نہیں۔ دعویٰ تو سب کو بہت بڑا ہے ہر ایک خود کو اسلام کا واحد نمایندہ سمجھتا ہے بلکہ باقاعدہ ٹھیکیدار بھی تصور کرتا ہے لیکن وہ کرتے صرف اتنا ہیں کہ صرف ایک مذمتی اور معذرت خواہانہ بیان یا قرارداد جاری کر دیتے ہیں دو ٹوک صاف صاف اور کھلی کھلی بات کوئی بھی نہیں کرتا کہ

لااکراہ فی الدین کے حکم کے بعد مذہب کے نام پر کوئی بھی تشدد جرم ہے کیا ان سب کو معلوم نہیں کہ یہ کون کر رہا ہے تو باقاعدہ نام لے کر کبھی کسی نے کچھ کہا ہے ... یہ بھی کوئی بیان ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف ہے، انسانیت کے ساتھ دشمنی ہے انصاف کا خون ہے ہم مذمت کرتے ہیں، جن کے گھر اجڑ گئے زندگی بھر کا نہ مندمل ہونے والا گھاؤ لگ گیا، ساری زندگی ایک درد اور دکھ کا نمونہ ہی بن کر رہ گئے ہیں مذمت کے بیانات کو لے کر چاٹیں گے ہمدردی کی قراردادیں سونگھیں گے اور یک جہتی کے نعرے اوڑھیں گے بچھائیں گے، سچ تو یہ ہے کہ اس ملک کی پوری سوسائٹی پورا نظام اور پورا وجود ہی ناکام ہے، سیاسی لیڈر سے لے کر عام آدمی تک سیاسی پارٹیوں سے لے کر حکومتی اداروں تک سب کے سب گناہ گار اور مجرم ہیں اور ان سب کو اب مداری پن چھوڑ دینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں