ایک بہت مختصر کتاب
’’چچا سام کیا چاہتا ہے‘‘ ایک ایسی کتاب جس کا ہر صفحہ تیسری دنیا کیلیے امریکا کے خلاف فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے
نوم چومسکی ایک ایسا شخص جو 1928ء میں پیدا ہوا۔ یہودی تارکین وطن کا بیٹا، ایک نابغۂ روزگار۔ اس نے شہرت لسانیات کے ماہر کے طور پر حاصل کی پھر وہ سیاسی اختلاف و انحراف کے میدان میں نکل گیا۔
1967ء میں اس نے نیویارک بک ریویو میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا '' دانشوروں کی ذمے داری''، یہ اس نے ویت نام کی جنگ کے تناظر میں لکھا تھا۔ اس کے دس برس بعد 1977ء میں اس نے ''دی نیشن'' میں کمبوڈیا کی کھیمرروج ریجیم کے بارے میں سوال اٹھائے۔
نوم چومسکی کی بین الاقوامی شہرت کا آغاز ایک ماہر لسانیات کے طور پر ہوا تھا لیکن 70ء کی دہائی سے اس نے بین الاقوامی سیاست میں امریکی مداخلت ، شہری اور انسانی حقوق اور دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے لیے انصاف کے حصول جیسے اہم موضوعات پر امریکی حکمرانوں سے کھل کر اختلاف کرنا شروع کر دیا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کی آواز بلند ہوتی گئی اور جلد ہی وہ تیسری دنیا کی مظلوم اقوام کا حمایتی بن کر سامنے آیا۔ امریکی حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں پر چومسکی کی تنقید کا لہجہ سخت سے سخت ترین ہوتا گیا۔ خلیج کی جنگ میں امریکی حکومت کے سامراجی رویوں اور اس کے بعد امریکی دباؤکے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے عراق پر عائد کی جانے والی ظالمانہ پابندیوں پر اس نے شدت سے اعتراض کیا۔
دسمبر 2001 میں نوم چومسکی نے برصغیرکا دورہ کیا تو اس کے اس دورے کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا 11 ستمبر 2001 کے سانحے سے دہشت زدہ تھی، امریکا نے دہشتگردی کے اس واقعے کو ساری دنیا پر اپنی بالادستی کے لیے استعمال کرنے کا تہیہ کر لیا تھا اور ''دہشتگردی کے خلاف جنگ'' کے نام پر افغانستان کے نہتے اور بیگناہ عوام پر امریکی طیاروں کی بے محابا بمباری جاری تھی ، امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج افغان شہروں اور دیہات میں کارروائیاں کر رہی تھیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب بین الاقوامی پریس میں نوم چومسکی ، ارون دھتی رائے اور ایڈورڈ سعید کے امریکا مخالف مضامین شائع ہورہے تھے اور افغانستان کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
نوم چومسکی ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1955 سے وہ امریکا کے ایک مشہور اور معتبر تعلیمی ادارے MIT سے وابستہ ہے۔ اس امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود اس نے امریکی حکمرانوں سے اختلاف کرنے اور اسرائیل کی صیہونی پالیسیوں اور فلسطین دشمن رویوں پر شدید تنقید کرنے کا کوئی بھی موقعہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
نوم چومسکی نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن اس کی ایک مختصر کتاب کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی What Uncle Sam Really Want۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1992 میں شائع ہوئی اور سنہ 2000 تک انگریزی میں اس کتاب کے بارہ ایڈیشن چھپ چکے تھے اور اس کی 1,66,000 کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ اس کتاب کے اب تک دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ اسلم خواجہ نے کیا اور اسے آصف فرخی نے شائع کیا۔
ایک مبصر نے نوم چومسکی کی تحریروں کے بارے میں لکھا ہے کہ ''نوم چومسکی طاقت (Power) کے تاریک رُخ کو بڑی بے رحمی کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ سیاست جو کچھ ہے، نوم چومسکی آپ کو وہاں لے جاتا ہے، جہاں قدم دھرنے کی ہمت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔''
اس کے بارے میں آرتھر نائمین اور سینڈی نائمین نے لکھا ہے کہ ''دنیا اگر زیادہ معقول جگہ ہوتی تو انصاف کے حصول کے لیے اپنی ان تھک کوششوں پر نوم چومسکی کو امن کا نوبل انعام مل چکا ہوتا مگر نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی یہ اعزاز ہنری کسنجر جیسے لوگوں کو دے دیتی ہے۔''
''چچا سام کیا چاہتا ہے'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں دنیا پر بلاشرکت غیرے اقتدار حاصل کرنے اور اس بالادستی کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر امریکی حکومت کے ظالمانہ، غیر انسانی اور غیر جمہوری رویوں پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ نوم چومسکی نے اپنی اس کتاب میں ویتنام اور مشرق بعید کے دوسرے ملکوں، افریقا، لاطینی امریکا، ایشیا اور شرق اوسط کے مختلف ملکوں کے بارے میں امریکی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ آئیے ہم لاطینی امریکا پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور انسانی حقوق کے تناظر میں اپنی بات کی ابتدا کرتے ہیں۔
لاطینی امریکا میں انسانی حقوق کے ایک اہم ماہر لارس شولز کی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ''امریکا کی جانب سے لاطینی امریکا کی ان حکومتوں کو بے تحاشہ امداد دی گئی جو اپنے شہریوں پر جبر وتشدد کر رہی تھیں۔'' اس امداد کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان ملکوں کو اس امداد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کرنے پر رضامند ہیں یا نہیں۔
ماہر اقتصادیات ایڈورڈ ہرمین نے بین الاقوامی سطح پر تشدد اور امریکی امداد کے درمیان قریبی تعلقات کا انکشاف کیا ہے۔ نوم چومسکی، ایڈورڈ ہرمین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ لاطینی امریکا میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کی صدرکینیڈی کی پالیسی کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت جس نوعیت کی ترقی پر زور دیا گیا، وہ امریکی سرمایہ کاروں کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اس ''ترقیاتی پروگرام'' کے تحت گائے کے گوشت کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن اس کی طلب میں کمی ہوگئی۔
نوم چومسکی لکھتا ہے کہ ترقی کا یہ امریکی نسخہ عام طور پر ایسا ''معاشی معجزہ'' کر دکھاتا ہے جس کے تحت مجموعی پیداوار میں تو یقینا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ملکی آبادی کی اکثریت کو بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں لازمی طور سے عوامی مزاحمت پیدا ہوتی ہے جسے جبر و تشدد کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عوامی مزاحمت کو پولیس کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب اس کام میں پولیس ناکام ہو جاتی ہے تو اس ملک کی فوج کے جرنیلوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور آخری حل کے طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی اس طرف بہ طور خاص اشارہ کرتا ہے کہ امریکی حکومتیں تیسری دنیا کی فوجوں اور ان کے جرنیلوں سے ہمیشہ بہتر اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ پالیسی اسلیے اختیار کی جاتی ہے کہ اگر کسی ملک کی حکومت سے امریکا کے تعلقات خراب ہوجائیں اور وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہ کرے تو پھر اس ملک کی فوج کے ذریعے '' ناپسندیدہ حکومت'' کا تختہ الٹ دیا جائے۔
اسی طریقۂ کار کے تحت 1973 میں چلی اور 1965 میں انڈونیشیا کی فوجوں نے اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹا اور فوجی ''انقلاب'' کے خلاف ہونے والی عوامی مزاحمت کو پوری قوت سے کچل دیا گیا۔ اس سارے عمل کو امریکی حکومت کی آشیر واد حاصل تھی۔ نوم چومسکی یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ امریکا حالانکہ چلی اور انڈونیشیا کی اس وقت کی حکومتوں کا سخت مخالف تھا، اس کے باوجود امریکا مخالف ان حکومتوں کو امریکی فوجی امداد فراخ دلی سے دی جا رہی تھی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ امریکی اعلیٰ حکام اس فوجی امداد کے پردے میں چلی اور انڈونیشیا کی فوجوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے اور جرنیلوں سے وہ رابطے استوار کررہے تھے جو بعد میں ان ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے کام آئے۔ یہی وہ جرنیل تھے۔
جنہوں نے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکی مفادات کے مکمل تحفظ کے لیے کام کیا۔ نوم چومسکی اپنی اس مختصر کتاب میں ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب برازیل کی جمہوری حکومت اپنے ملک کو امریکی اثرات سے فاصلے پر رکھنے کے لیے زیادہ سرگرم ہوئی تو کینیڈی انتظامیہ نے 1964 کے دوران برازیل میں فوجی بغاوت کے لیے راہ ہموار کی۔ امریکا نے اس قدر پُرجوش انداز میں برازیل کی فوجی بغاوت کی حمایت کی کہ برازیلی جرنیل قابو سے باہر ہوگئے اور انھوں نے تشدد اور جبر کے وہ طریقے اختیار کیے جو نازی طریقے کہلاتے ہیں۔
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ برازیل کے فوجی جرنیلوں کی امریکا نے جس طور پشت پناہی کی اس کے نتیجے میں ارجنٹائن اور چلی کے خطے میں 60ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 1980 کی دہائی تک ایسے واقعات کے تسلسل نے جنم لیا جو لاطینی امریکا میں ''خونیں دور'' کے طور پر مشہور ہے۔
ان ملکوں کی افواج کی پس پردہ اورکھلے بندوں حمایت کے نتیجے میں ان ملکوں کے عوام کو جس بیدردی سے کچلا گیا اور ان کے جمہوری اور انسانی حقوق جس طرح پامال ہوئے اس کی تمام تر ذمے داری امریکا کی مفاد پرستی پر مبنی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی یہ لکھتا ہے کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برسر اقتدار آنے والے ہر امریکی صدر کو قانونی طور پر معزول کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے۔ یہ تمام امریکی صدور یا تو براہ راست جنگی مجرم تھے یا جنگی جرائم میں شریک تھے۔''
''چچا سام کیا چاہتا ہے'' ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر صفحہ تیسری دنیا کے عوام کی طرف سے امریکا کے خلاف فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے نوم چومسکی نے خفیہ امریکی دستاویزات، منرو ڈاکٹرائن اور دوسری اہم امریکی کتابوں کو سامنے رکھا ہے، ان کے حوالے دیے ہیں اور اپنے ہر الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کا اور اعداد و شمار کا سہارا لیا ہے۔ کہنے کو یہ 88 صفحات پر مشتمل ایک ''مختصر'' سی کتاب ہے لیکن اس کے صفحوں پر تیسری دنیا کے مظلوم عوام کا مقدمہ نوم چومسکی نے نہایت قوت اور مہارت سے لڑا ہے۔ اس کی ایسی ہی تحریروں نے اسے بیسویں اور اکیسویں صدی کے اہم اور باضمیر دانشوروں کی صفِ اول میں جگہ دلائی ہے۔
1967ء میں اس نے نیویارک بک ریویو میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا '' دانشوروں کی ذمے داری''، یہ اس نے ویت نام کی جنگ کے تناظر میں لکھا تھا۔ اس کے دس برس بعد 1977ء میں اس نے ''دی نیشن'' میں کمبوڈیا کی کھیمرروج ریجیم کے بارے میں سوال اٹھائے۔
نوم چومسکی کی بین الاقوامی شہرت کا آغاز ایک ماہر لسانیات کے طور پر ہوا تھا لیکن 70ء کی دہائی سے اس نے بین الاقوامی سیاست میں امریکی مداخلت ، شہری اور انسانی حقوق اور دنیا بھر کی مظلوم اقوام کے لیے انصاف کے حصول جیسے اہم موضوعات پر امریکی حکمرانوں سے کھل کر اختلاف کرنا شروع کر دیا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کی آواز بلند ہوتی گئی اور جلد ہی وہ تیسری دنیا کی مظلوم اقوام کا حمایتی بن کر سامنے آیا۔ امریکی حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں پر چومسکی کی تنقید کا لہجہ سخت سے سخت ترین ہوتا گیا۔ خلیج کی جنگ میں امریکی حکومت کے سامراجی رویوں اور اس کے بعد امریکی دباؤکے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے عراق پر عائد کی جانے والی ظالمانہ پابندیوں پر اس نے شدت سے اعتراض کیا۔
دسمبر 2001 میں نوم چومسکی نے برصغیرکا دورہ کیا تو اس کے اس دورے کو بہت اہمیت دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری دنیا 11 ستمبر 2001 کے سانحے سے دہشت زدہ تھی، امریکا نے دہشتگردی کے اس واقعے کو ساری دنیا پر اپنی بالادستی کے لیے استعمال کرنے کا تہیہ کر لیا تھا اور ''دہشتگردی کے خلاف جنگ'' کے نام پر افغانستان کے نہتے اور بیگناہ عوام پر امریکی طیاروں کی بے محابا بمباری جاری تھی ، امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج افغان شہروں اور دیہات میں کارروائیاں کر رہی تھیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب بین الاقوامی پریس میں نوم چومسکی ، ارون دھتی رائے اور ایڈورڈ سعید کے امریکا مخالف مضامین شائع ہورہے تھے اور افغانستان کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
نوم چومسکی ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1955 سے وہ امریکا کے ایک مشہور اور معتبر تعلیمی ادارے MIT سے وابستہ ہے۔ اس امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہونے کے باوجود اس نے امریکی حکمرانوں سے اختلاف کرنے اور اسرائیل کی صیہونی پالیسیوں اور فلسطین دشمن رویوں پر شدید تنقید کرنے کا کوئی بھی موقعہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
نوم چومسکی نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھی ہیں لیکن اس کی ایک مختصر کتاب کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی What Uncle Sam Really Want۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1992 میں شائع ہوئی اور سنہ 2000 تک انگریزی میں اس کتاب کے بارہ ایڈیشن چھپ چکے تھے اور اس کی 1,66,000 کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ اس کتاب کے اب تک دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔ اردو میں اس کا ترجمہ اسلم خواجہ نے کیا اور اسے آصف فرخی نے شائع کیا۔
ایک مبصر نے نوم چومسکی کی تحریروں کے بارے میں لکھا ہے کہ ''نوم چومسکی طاقت (Power) کے تاریک رُخ کو بڑی بے رحمی کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ سیاست جو کچھ ہے، نوم چومسکی آپ کو وہاں لے جاتا ہے، جہاں قدم دھرنے کی ہمت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔''
اس کے بارے میں آرتھر نائمین اور سینڈی نائمین نے لکھا ہے کہ ''دنیا اگر زیادہ معقول جگہ ہوتی تو انصاف کے حصول کے لیے اپنی ان تھک کوششوں پر نوم چومسکی کو امن کا نوبل انعام مل چکا ہوتا مگر نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی یہ اعزاز ہنری کسنجر جیسے لوگوں کو دے دیتی ہے۔''
''چچا سام کیا چاہتا ہے'' ایک ایسی کتاب ہے جس میں دنیا پر بلاشرکت غیرے اقتدار حاصل کرنے اور اس بالادستی کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کی خاطر امریکی حکومت کے ظالمانہ، غیر انسانی اور غیر جمہوری رویوں پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ نوم چومسکی نے اپنی اس کتاب میں ویتنام اور مشرق بعید کے دوسرے ملکوں، افریقا، لاطینی امریکا، ایشیا اور شرق اوسط کے مختلف ملکوں کے بارے میں امریکی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ آئیے ہم لاطینی امریکا پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور انسانی حقوق کے تناظر میں اپنی بات کی ابتدا کرتے ہیں۔
لاطینی امریکا میں انسانی حقوق کے ایک اہم ماہر لارس شولز کی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ''امریکا کی جانب سے لاطینی امریکا کی ان حکومتوں کو بے تحاشہ امداد دی گئی جو اپنے شہریوں پر جبر وتشدد کر رہی تھیں۔'' اس امداد کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں تھا کہ ان ملکوں کو اس امداد کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کرنے پر رضامند ہیں یا نہیں۔
ماہر اقتصادیات ایڈورڈ ہرمین نے بین الاقوامی سطح پر تشدد اور امریکی امداد کے درمیان قریبی تعلقات کا انکشاف کیا ہے۔ نوم چومسکی، ایڈورڈ ہرمین کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ لاطینی امریکا میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کی صدرکینیڈی کی پالیسی کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت جس نوعیت کی ترقی پر زور دیا گیا، وہ امریکی سرمایہ کاروں کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اس ''ترقیاتی پروگرام'' کے تحت گائے کے گوشت کی پیداوار میں اضافہ تو ضرور ہوا لیکن اس کی طلب میں کمی ہوگئی۔
نوم چومسکی لکھتا ہے کہ ترقی کا یہ امریکی نسخہ عام طور پر ایسا ''معاشی معجزہ'' کر دکھاتا ہے جس کے تحت مجموعی پیداوار میں تو یقینا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن ملکی آبادی کی اکثریت کو بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں لازمی طور سے عوامی مزاحمت پیدا ہوتی ہے جسے جبر و تشدد کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا جاتا ہے کہ عوامی مزاحمت کو پولیس کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب اس کام میں پولیس ناکام ہو جاتی ہے تو اس ملک کی فوج کے جرنیلوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور آخری حل کے طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی اس طرف بہ طور خاص اشارہ کرتا ہے کہ امریکی حکومتیں تیسری دنیا کی فوجوں اور ان کے جرنیلوں سے ہمیشہ بہتر اور قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ پالیسی اسلیے اختیار کی جاتی ہے کہ اگر کسی ملک کی حکومت سے امریکا کے تعلقات خراب ہوجائیں اور وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے کام نہ کرے تو پھر اس ملک کی فوج کے ذریعے '' ناپسندیدہ حکومت'' کا تختہ الٹ دیا جائے۔
اسی طریقۂ کار کے تحت 1973 میں چلی اور 1965 میں انڈونیشیا کی فوجوں نے اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹا اور فوجی ''انقلاب'' کے خلاف ہونے والی عوامی مزاحمت کو پوری قوت سے کچل دیا گیا۔ اس سارے عمل کو امریکی حکومت کی آشیر واد حاصل تھی۔ نوم چومسکی یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ امریکا حالانکہ چلی اور انڈونیشیا کی اس وقت کی حکومتوں کا سخت مخالف تھا، اس کے باوجود امریکا مخالف ان حکومتوں کو امریکی فوجی امداد فراخ دلی سے دی جا رہی تھی۔
اس کا سبب یہ تھا کہ امریکی اعلیٰ حکام اس فوجی امداد کے پردے میں چلی اور انڈونیشیا کی فوجوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے تھے اور جرنیلوں سے وہ رابطے استوار کررہے تھے جو بعد میں ان ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے کام آئے۔ یہی وہ جرنیل تھے۔
جنہوں نے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکی مفادات کے مکمل تحفظ کے لیے کام کیا۔ نوم چومسکی اپنی اس مختصر کتاب میں ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جب برازیل کی جمہوری حکومت اپنے ملک کو امریکی اثرات سے فاصلے پر رکھنے کے لیے زیادہ سرگرم ہوئی تو کینیڈی انتظامیہ نے 1964 کے دوران برازیل میں فوجی بغاوت کے لیے راہ ہموار کی۔ امریکا نے اس قدر پُرجوش انداز میں برازیل کی فوجی بغاوت کی حمایت کی کہ برازیلی جرنیل قابو سے باہر ہوگئے اور انھوں نے تشدد اور جبر کے وہ طریقے اختیار کیے جو نازی طریقے کہلاتے ہیں۔
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ برازیل کے فوجی جرنیلوں کی امریکا نے جس طور پشت پناہی کی اس کے نتیجے میں ارجنٹائن اور چلی کے خطے میں 60ء کی دہائی کے وسط سے لے کر 1980 کی دہائی تک ایسے واقعات کے تسلسل نے جنم لیا جو لاطینی امریکا میں ''خونیں دور'' کے طور پر مشہور ہے۔
ان ملکوں کی افواج کی پس پردہ اورکھلے بندوں حمایت کے نتیجے میں ان ملکوں کے عوام کو جس بیدردی سے کچلا گیا اور ان کے جمہوری اور انسانی حقوق جس طرح پامال ہوئے اس کی تمام تر ذمے داری امریکا کی مفاد پرستی پر مبنی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی یہ لکھتا ہے کہ ''میں سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برسر اقتدار آنے والے ہر امریکی صدر کو قانونی طور پر معزول کرنے کا ٹھوس جواز موجود ہے۔ یہ تمام امریکی صدور یا تو براہ راست جنگی مجرم تھے یا جنگی جرائم میں شریک تھے۔''
''چچا سام کیا چاہتا ہے'' ایک ایسی کتاب ہے جس کا ہر صفحہ تیسری دنیا کے عوام کی طرف سے امریکا کے خلاف فردِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے نوم چومسکی نے خفیہ امریکی دستاویزات، منرو ڈاکٹرائن اور دوسری اہم امریکی کتابوں کو سامنے رکھا ہے، ان کے حوالے دیے ہیں اور اپنے ہر الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے حقائق کا اور اعداد و شمار کا سہارا لیا ہے۔ کہنے کو یہ 88 صفحات پر مشتمل ایک ''مختصر'' سی کتاب ہے لیکن اس کے صفحوں پر تیسری دنیا کے مظلوم عوام کا مقدمہ نوم چومسکی نے نہایت قوت اور مہارت سے لڑا ہے۔ اس کی ایسی ہی تحریروں نے اسے بیسویں اور اکیسویں صدی کے اہم اور باضمیر دانشوروں کی صفِ اول میں جگہ دلائی ہے۔