بلوچستان زلزلہ…کچھ اور پہلو
قدرتی وسائل کی بہتات اور انسانی آفات کا مارا بلوچستان، اب کے ایک بار پھر قدرتی آفت کا شکار ہوا۔
قدرتی وسائل کی بہتات اور انسانی آفات کا مارا بلوچستان، اب کے ایک بار پھر قدرتی آفت کا شکار ہوا۔ یہ بات ایک بار پھر درست ثابت ہوئی کہ ہمارے ہاں کوئی بھی قدرتی آفت اتنی نقصان دہ اور تکلیف دہ نہیں ہوتی جتنی کہ انسانوں کی بے حسی اور انتظامیہ کی بد انتظامی۔ خبر کے مرکزی دھارے سے کٹا ہوا اور الگ تھلگ پڑا بلوچستان کا یہ حصہ اتنی بڑی آفت کے باوجود خبر کے بھوکے میڈیا میں خاطر خواہ جگہ نہیں لے پایا تو یہ بات اہلِ بلوچستان کے لیے اتنی حیرت انگیز نہیں، البتہ یہ ان کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جنھیں ملکی سالمیت کی ہر دم فکر ستائے رہتی ہے۔
بلوچستان میں آنے والے زلزلے کی تباہی کا مرکز خضدار اور بیلہ کے اطراف میں واقع ضلع آواران رہا۔ یہ اتفاق بھی یہاں گفتگو کا موضوع رہا کہ تین دن کے وقفوں کے دوران دو بار سات اعشاریہ سے زائد کے آنے والے خطرناک جھٹکوں کا اصل مرکز آواران کی تحصیل مشکے کا وہ علاقہ تھا، جہاں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی رہائش واقع بتائی جاتی ہے۔ یہ وہی اللہ نذر ہیں جو موجودہ بلوچ مزاحمتی تحریک میں واحد غیر سردار اور لوئر کلاس کی نمایندگی کی علامت ہیں۔ مبینہ طور پر بلوچ نوجوانوں کی بڑی تعداد میں مزاحمتی تحریک میں شمولیت انھی کی مرہونِ منت بتائی جاتی ہے۔ (جب کہ بلوچستان کی مڈل کلاس کے نمایندے اس وقت سرکار کے مالک ہیں!) گو کہ گوریلا طرز کی زندگی گزارنے والے اللہ نذر کی کہیں ایک جگہ مستقل رہائش بعید از قیاس ہے، لیکن ان کا خاندان یہیں مشکے کے اسی علاقے کے گرد و نواح میں آباد ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر مبینہ طور پر بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کی قیادت کرتے ہیں۔ یہ بلوچ مزاحمتی تنظیم آواران اور مکران کے علاقوں میں اپنا خاصا اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ یہی علاقے ان کی تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہیں۔ آواران سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں کے نوے فیصد سے زائد عوام مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت حالیہ انتخابات میں ہونے والی پولنگ سے ملتا ہے۔ یاد کیجیے، یہ وہی ضلع ہے جہاں سے عبدالقدوس بزنجو محض ساڑھے پانچ سو ووٹ لے کر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس وقت ڈپٹی اسپیکر اسمبلی ہیں۔ ریاستی اداروں اور فورسز کے لیے ایک عرصے سے یہ علاقہ عملاََ نوگو ایریا بن چکا ہے۔ ذرا سنیے، بی بی سی کے نمایندے کو، بیلہ چوک سے آگے جانے سے منع کرتے ہوئے ایف سی اہلکاروں نے کہا، ''اس سے آگے آپ اپنے رسک پہ جائیں۔'' جب کہ میڈیا اور سماجی تنظیموں کے نمایندوں نے فورسز کے قافلے کے ساتھ یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ ان کے ساتھ جانا سیکیورٹی رسک ہے۔
دوسری طرف ایف سی کے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر جانے والے ایک سابق فوجی اور این ڈی ایم اے موجودہ چیئرمین پر ہونے والے حملے کی خبر تو دہرائی جاتی رہی، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان پہ حملہ کرنے والے مزاحمت کاروں نے واضح طور پر تنبیہ کی کہ ریاستی اداروں کی امداد قبول نہیں کی جائے گی، البتہ عالمی اداروں اور غیر سرکاری و سماجی تنظیموں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ جب کہ میڈیا کے نمایندے بھی اسی علاقے میں بنا کسی رکاوٹ کے نقل و حرکت کرتے رہے۔
اس کے باوجود لاعلمی یا خدا جانے خبر کے کون سے ذرایع پہ اعتماد کرتے ہوئے ملک کے مایہ ناز کالم نویس یہ لکھ دیتے ہیں کہ علیحدگی پسندوں کے خوف سے مقامی لوگ ایف سی اور فوج کے ہاتھوں امداد قبول نہیں کر رہے، انھیں یہ ڈر ہے کہ فوج کے چلے جانے کے بعد علیحدگی پسند انھیں مار ڈالیں گے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کسی سرکاری عمارت پہ بھی پاکستان کا پرچم نہیں لہراتا، جہاں کے اسکولوں میں پاکستانی ترانے کی بجائے بلوچ قومی ترانہ گایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو قبل از مسیح کے زمانے کا انسان دکھانے والے فاضل کالم نویس شاید یہ نہیں جانتے کہ یہاں کے گوریلے پہاڑوں میں بھی لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ علاقہ میں امداد لے جانے والے ایک معروف غیرسرکاری سماجی تنظیم کے اہلکار کے مطابق سامان سے لدے ان کے پندرہ ٹرک فورسز نے روک لیے، جن کا یہ اصرار رہا کہ تمام امدادی سامان وہ خود تقسیم کرینگے جب کہ عوام کا کہنا ہے کہ وہ فورسز کے ہاتھوں کچھ بھی نہیں لیں گے۔
یہ وہ خبریں ہیں، جن کی تردید یا تصدیق وہاں موجود میڈیا کے نمایندے با آسانی کر سکتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ میڈیا خبر کے اس پہلو پہ بات ہی نہیں کر رہا ۔ بی ایل اے اور بی ایل ایف نے علاقے میں تقسیم کیے گئے ایک پمفلٹ میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ کسی ریاستی ادارے کو امداد یا بحالی کے نام پر علاقے میں نہیں آنے دیں گے۔ ان کا الزام یہ ہے کہ فورسز اس بہانے میں علاقے میں گھس کر بیٹھ جائیں گی اور پھر امداد کے نام پر آپریشن کیا جائے گا۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کے علاوہ باقی تمام عالمی اداروں، غیر سماجی تنظیموں اور میڈیا کے نمایندوں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس وقت متاثرہ علاقے میں کئی تنظیمیں کام کر بھی رہی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی نے میڈیا سے گفتگو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ سماجی اداروں کو علاقے میں کام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں، سوائے اس کے کہ علاقہ نہایت دشوار گزار ہے، کہیں کوئی پختہ سڑک موجود نہیں ۔ سو کلومیٹر کا سفر پانچ، پانچ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ کراچی سے سامان کی گاڑی کو آنے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ سرکاری ادارے سامان کی ترسیل میں ہی مددگار ہوں تو یہی کافی ہے، باقی کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ لوگ انتہائی خوددار اور مددگار ہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ زلزلے کی اصل تباہی کا مرکز چونکہ آواران رہا اس لیے متاثر ہونے والے دیگر چھوٹے چھوٹے علاقوں کی جانب کسی کی توجہ ہی مبذول نہ ہو سکی۔ ان میں سے ضلع کیچ، تربت کے نواح میں واقع ایک گاؤں ڈنڈار کولواہ بھی ہے۔ کیچ کا یہ واحد علاقہ ہے جو زلزلے سے تقریباََ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ علاقے کا کوئی گھر تباہی کی زد سے نہ بچ سکا۔ ایک ایسا گھر بھی رہا جس میں ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے۔ لیکن دور دراز اور مرکزی شاہراہ سے الگ تھلگ ہونے کے باعث نہ تو خبروں میں اس کا خاطر خواہ تذکرہ ہوا، نہ ہی فلاحی اداروں کی اس جانب توجہ ہو سکی۔ تربت سے کچھ تنظیموں نے اپنے تئیں وہاں امداد پہنچانے کی کوشش کی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ یہ انفرادی کوششوں کا معاملہ ہی نہیں، جب تک کہ کوئی اجتماعی کاوش نہ ہو۔ البتہ علاقے میں امداد پہنچانے والے ایک سماجی ورکر کے بقول وہاں کی مقامی آبادی نے بتایا کہ موجودہ سرکار کے ایک مقامی رہنما تربت سے سامان کا ایک ٹرک لے کر وہاں پہنچے تو کچھ ہی دیر میں وہاں موٹر سائیکلوں پہ سوار کچھ مسلح افراد آئے۔ جنہوں نے پہلے تو موصوف کی اس بات پہ سرزنش کی کہ پورے صوبے کی سرکار کے مالک ہو کر اتنی بڑی آبادی کے لیے محض ایک ٹرک لائے ہو؟ نیز پھر انھیں کہا گیا کہ آپ جا سکتے ہیں، ٹرک آدھے گھنٹے میں فارغ ہو کر آپ کو مل جائے گا۔ عینی شاہدین کے بقول سامان سے لدا ٹرک وہ اپنے ساتھ لے گئے، جو ٹھیک آدھے گھنٹے بعد خالی ہو کر واپس آ گیا۔ خوفزدہ ڈرائیور بھی یہ بتانے سے قاصر تھا کہ ٹرک کہاں لے جایا گیا۔
مختصر یہ کہ ریاستی اداروں کے خلوص کا اندازہ تو یہیں سے ہوتا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں آنیوالے سیلاب اور زلزلے کے لیے عالمی اداروں کے سامنے امداد کے لیے گڑگڑانے والے ان اداروں نے بلوچستان میں ہونے والی اس خوف ناک تباہی کے سلسلے میں عالمی اداروں کی امداد کی پیشکش کو ہی ٹھکرا دیا۔ جس سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ ریاست، عالمی اداروں کی اس علاقے میں رسائی کو روکنا چاہتی ہے، تا کہ بیرونی دنیا یہاں کے حقیقی حالات سے آگاہ نہ ہو سکے!