وہمی

آپ کی توجہ اور باقاعدہ علاج ان کی زندگی بدل سکتا ہے

آپ کی توجہ اور باقاعدہ علاج ان کی زندگی بدل سکتا ہے

یہ تبدیلی اچانک سامنے نہیں آئی تھی، البتہ اس کا احساس اب ہوا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے، ایسا جو نہیں ہونا چاہیے۔

والدہ کے رویے اور عادات میں تبدیلیاں جیسے جیسے ہمارے علم میں آتی جا رہی تھی، ہم گھر والے ان سے اتنے ہی الجھنے لگے تھے۔ اب یہ صورتِ حال ایک خوف ناک رخ اختیار کر چکی تھی جس سے پورا گھر متاثر ہو رہا تھا۔

صفائی پسند تو وہ ہمیشہ سے تھیں، مگر کچھ عرصہ سے یہ سب بہت زیادہ ہو گیا تھا۔ وہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں خود کو ہلکان کیے جارہی تھیں۔ اور جس طریقے سے صفائی ستھرائی میں باریکی اور نفاست کو خود پر سوار کر چکی تھیں وہ ان کے سنکی پن کا شکار ہو جانے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ وہ انجانے اور غیرمحسوس طریقے سے اب دوسروں سے بھی توقع کرنے لگی تھیں کہ ان جیسی نزاکتوں کو اپنائیں، مگر کوئی کچھ بھی کر لے ان کو مطمئن کرنا آسان نہیں تھا۔

جس کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر نوک جھونک شروع ہوچکی تھی۔ اس معاملے کا انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ صفائی کے نام پر پورا گھر، یعنی ہر فرد ہمہ وقت تیار اور متحرک رہے۔ ہمارا گھر ایک جنون کی بھینٹ چڑھ رہا تھا اور رفتہ رفتہ نوک جھونک نے خوف ناک شکل اختیار کر لی تھی جب کوئی فرد صفائی کے حوالے سے ذرا سی کوتاہی یا ٹال مٹول سے کام لیتا یا والدہ کی بات کو مسترد کرتا تو وہ ایک طوفان کھڑا کر دیتیں۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہ تھاکہ گھر کے لوگ کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ وہ اپنی ضد کے آگے کچھ نہیں دیکھتی تھیں۔

ایک تو گھر کے تمام لوگ صفائی کے نام پر ذاتی طور پر متاثر ہورہے تھے اور دوسری جانب ان کی زندگی کا یہ بدلاؤ بھی اہلِ خانہ کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا تھا۔ سبھی کو ان کی فکر تھی۔ اس عمر میں ان کو جسمانی آرام اور ذہنی سکون کی ضرورت تھی لیکن وہ گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کو چمکانے اور صاف ستھرا رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہوئے جارہی تھیں۔ ہم انھیں کچن کی صفائی، کھانے پینے کے برتنوں کو بار بار دیکھتے، دھوتے، باتھ روم، الماریوں اور ایسے ہی بہت سے کاموں میں الجھا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اس کے علاوہ وضو کرنے جاتیں تو گھنٹہ بھر واش روم سے باہر نہ نکلتیں۔

وضو کرتے وقت بار بار ہاتھ دھوتیں، لیکن ان کی تسلی پھر بھی نہ ہوتی اور یوں خاصا وقت کھڑے رہنے کی تکلیف اٹھاتیں۔ نماز کی ادائیگی بھی ایک مسئلہ بن گئی تھی۔ انہیں لگتا کہ نماز ٹھیک سے ادا نہیں ہوئی ہے۔ وہ وہمی اور جھکی ہو گئی تھیں۔ وہ کسی کے کام سے مطمئن نہ ہوتیں، دھلے ہوئے برتن دوبارہ دھونا اور الٹ پلٹ کر دیکھنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ اپنا تولیہ، تکیہ، چادر، کمبل، چائے کا مگ، کھانے کی پلیٹ غرض اپنے استعمال کی ہر چیز انتہائی غیر محسوس انداز میں دوسروں سے الگ کرتی چلی جارہی تھیں۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ وہ اپنے بستر، اور اپنے جسم سے بچوں کو بھی دور رکھنے لگیں۔ بچے سمجھ دار تو تھے، مگر ابھی چھوٹے ہی تھے۔

کبھی ماں کے گلے لگنے کی کوشش کی تو ایک جھٹکے سے پرے دھکیل دیا جاتا۔ بیٹی یہ بات زیادہ محسوس کرتی تھی کیوں کہ ایسے کئی لمحے زندگی میں آئے جب ماں کی گود میں سَر رکھنے اور ان سے لپٹنے اور پیار سمیٹنے کی خواہش تھی مگر یہ نہ ہو سکا۔ وہ ہم سب سے دوری، بہت فاصلہ رکھتی تھیں۔ والد صاحب نے انھیں سمجھایا اور ہر طرح سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی مگر کچھ نہ بنا تو انہیں بتائے بغیر سکائٹرسٹ کے پاس لے گئے۔

شاید وہ ذہنی مریض بن چکی تھیں۔ یہ گویا ایک نفسیاتی پیچیدگی تھی جس سے کوئی ماہر معالج ہی انھیں نجات دلا سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ مسئلہ ابتدائی اسٹیج پر تھا، لہذا اس پر جلد قابو پا لیا گیا۔ یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم تو نہ ہوسکا مگر والدہ کافی حد تک بہتر ہو گئی تھیں۔ والد صاحب کی بروقت توجہ، محبت، نگرانی اور مستقل علاج سے مسئلہ سلجھتا چلا گیا۔ عموماً ایسے لوگوں کو گھر والے بھی مریض ہی نہیں سمجھتے اور پھر کسی نفسیاتی عوارض کے معالج کے پاس لے جانے کا تو تصور ہی نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ذہنی پیچیدگی، نفسیاتی الجھن اس نہج پر پہنچ جاتی ہے جس کا علاج بھی مشکل ہو جاتا ہے۔


یہ وہم کی ایک شکل ہے جس میں مریض اپنی ذات اور اشیاء سے متعلق غیرضروری اور ناقابلِ یقین حد تک حساس ہو جاتا ہے اور وہم اور وسوسوں میں گھر جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تمثیل صفائی ستھرائی میں وہم سے متعلق ہے جس کا شکار عموماً خواتین ہوتی ہیں اور یہ نہ صرف خود کو بُری طرح اس میں الجھا لیتی ہیں بلکہ دوسروں سے بھی اس کا تقاضا کرتی ہیں۔ تاہم اس کے علاوہ بھی مختلف اوہام اور وساوس کسی بھی انسان کی زندگی اجیرن کرسکتے ہیں جیسے کہ دروازے کھڑکیاں لاک کردینے کے بعد دوبارہ اور اکثر کیسز میں متعدد بار چیک کرنا اور اس حوالے سے بہت فکرمند رہنا۔ اسی طرح کسی بہت اہم، معمولی یا کام کی شئے کو جیسے گھر کی کنجیاں، کاغذات، ماہانہ حساب کتاب لکھنے والی ڈائری، تصویری البم وغیرہ کو دن میں ایک یا ایک سے زائد بار ضرور دیکھنا اور اس خدشے میں مبتلا رہنا کہ وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں یا نہیں۔ یہ سب وہم اور وسوسے کا شکار ہو جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ہمارے سماج میں وہم کی کسی بھی شکل کو کوئی بیماری یا نفسیاتی الجھن نہیں سمجھا جاتا اور جب ہم اسے بیماری ہی نہیں سمجھتے تو اس کا علاج کروانے کی بات کرنا ہی فضول ہے۔ یہاں ایک بات بہت عجیب اور قابلِ غور بھی ہے کہ ہم اپنے گھر کے ایسے کسی فرد کو مریض تو نہیں مانتے اور نہ ہی اس کی حالت دیکھ کر اس پر توجہ دینا اور اس کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب اس کی وجہ سے ذاتی طور پر متاثر ہونے لگیں تو اسے وہمی، جھکی اور نفیساتی مریض کہے بغیر نہیں رہتے۔ جس کی وجہ سے ایسا کوئی بھی فرد مزید الجھ جاتا ہے اور خود کو مجرم سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے رویے اور طرزِعمل میں شدت آسکتی ہے۔

وہم یا خبط ایک بیماری اور ذہنی پیچیدگی ہے جو قابلِ علاج ہے۔ اسے انگریزی میں Obsessive compulsive disorder کہتے ہیں۔ اسے مختصراً OCD لکھا جاتا ہے جسے ماہرین نے علامات کی بنیاد پر دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان بنیادی علامات میں ایک تو ایسے تصورات اور خیالات کا ابھرنا جو محض وہم یا وسوسہ ہوتے ہیں جن کو obsessions کہتے ہیں اور دوسرا compulsions یعنی ایک ہی عمل کو دہرانا اور اس حوالے سے مستقل اضطرابی کیفیت کا شکار رہنا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر کی آبادی کا دو فی صد اس عارضے میں مبتلا ہے۔ کہہ سکتے ہیں ہر پچاس میں سے ایک فرد اس مرض کا شکار ہے۔ تاہم اس کی حالتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ یہ معمولی اور شدید نوعیت کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے جس میں بہرحال علاج کی طرف توجہ دینا چاہیے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 15 سے 44 سال کی عمر کے افراد کو لاحق بیس بڑے دماغی امراض میں 'او سی ڈی' سرفہرست ہے۔

1977ء میں جارج اینجل نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کسی بھی بیماری میں مبتلا ہونے کی تین وجوہ ہوسکتی ہیں۔ یعنی حیاتیاتی (Biological)، سماجی (Sociological) اور نفسیاتی (psychological)۔ چناں چہ کسی بھی مرض کے لاحق ہونے میں موروثیت، بائیو کیمسٹری کے ساتھ ساتھ ہمارے رہن سہن اور ماحول کا عمل دخل لازماً ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق وہم اور اس کی مختلف حالتوں سے متعلق عارضہ خاندان میں ایک یا ایک سے زائد افراد کو بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ اس بیماری میں بیرونی عوامل جیسے سماج اور ماحول کی وجہ سے مسائل، مالی پریشانی یا بھاری نقصان، ناخوش گوار ازدواجی زندگی اور کسی واقعے سے بری طرح متاثر ہونا وغیرہ، تقریباً ایک تہائی لوگوں کو ذہنی دباؤ کے بعد اس عارضے میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ اسے نظر انداز کرنے یا ایسے فرد کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اس پر توجہ دی جائے۔ گھر میں جب کبھی کسی فرد کو ایسا مسئلہ پیش آئے تو سب سے پہلے اہلِ خانہ کو مریض کی حالت اور اس کے رویوں کا جائزہ لینا چاہیے اور اسے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ توجہ اور محبت بھرے انداز سے اس کی مدد کرنا چاہیے۔ اگر اس مسئلے میں شدت پائی جائے تو اسے ایک بیماری سمجھتے ہوئے مریض کو بھی یہ باور کروائیں کہ وہ ایک الجھن یا پیچیدگی کا شکار ہے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور گھر والے اس کے ساتھ ہیں۔ اسے آمادہ کریں کہ وہ اپنے مسئلے اور کیفیات کا اظہار کرے۔

اس کے لیے گھر کے ماحول کو سازگار بنائیں۔ ایسے مریض کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی اور اپنائیت کا احساس دلانا بہت ضروری ہے۔ طعنے، طنز یا اس کے سامنے جھنجلاہٹ کا مظاہرہ یا اس کا تمسخر اڑا کر اگر آپ چاہیں کہ وہ اپنا رویہ اور عادات بدل لے گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ گھر میں اس کے کام میں کیڑے نکالنے کے بجائے اسے پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں۔

اگر یہ معاملہ صفائی ستھرائی کا ہے اور مریض بار بار ہاتھ دھوتا ہے تو آپ اسے یہ احساس دلائیں کہ اب تمہارے ہاتھ صاف ہو چکے ہیں۔ اگر وہ کسی بھی قسم کی عبادت جیسے نماز یا کوئی وظیفہ وغیرہ بار بار اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے اس کی درستی اور قبولیت میں شبہہ ہے تو آپ اسے احساس دلائیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

ایسے مریض کے تمام معاملات کی نگرانی ضروری ہے اور اس کے حل میں وقت بھی لگ سکتا ہے، جس کے لیے اہلِ خانہ کو ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں جب آپ ہمت ہار جائیں گے تو مریض مزید مشکل میں پھنس جائے گا۔ وہ آپ سے پہلے ہی ہمت ہار دے گا۔ اگر آپ کی دل جوئی، توجہ اور راہ نمائی سے مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو بلکہ گمبھیر ہو رہا ہو تو بہتر ہوگا کہ کسی ماہر سائیکالوجسٹ سے باقاعدہ مدد لی جائے اور کاؤنسلنگ یا سائیکلوجیکل سیشنز کروائیں۔ یا پھر سائیکائٹرسٹ کے پاس جائیں جو باقاعدہ ٹیسٹ کے بعد دوا سے علاج کی کوشش کرے گا۔ بعض اوقات یہ دونوں طریقہ ہائے علاج ایک ساتھ اور بسا اوقات ان میں سے ایک کو اپنایا جاتا ہے۔
Load Next Story