بجلی اور پٹرول بم اور عوام

بجلی اور پٹرول بم گرا کر حکومت نے عوام کو پیٹ پر پتھر باندھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب بجلی کے...

ikhalil2012@hotmail.com

بجلی اور پٹرول بم گرا کر حکومت نے عوام کو پیٹ پر پتھر باندھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب بجلی کے بل دیکھ کر عوام کا خون خشک ہوتا چلا جائے گا۔ غریب عوام اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو کچھ کمائیں گے اس کا بڑا حصہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ کر دیں گے، بجلی کے نرخ بڑھانے کے ساتھ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا گیا ہے۔ اس سے قبل آئی ایم ایف کے مطالبوں پر من و عن عمل کرنے کے بجائے کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جاتا تھا۔ حکومت کو اس معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے تھا، کیونکہ جس سماج میں آمدنی اور اخراجات کا توازن نہ پایا جاتا ہو وہاں ایسے فیصلے کرنا جس سے عوام پر اخراجات کا بوجھ بالآخر ان کو غربت کی گہری کھائی میں دھکیلنے کے مترادف ہو گا۔ جہاں بیروزگاروں کا ایک جم غفیر ہو اور آمدن کے ذرایع محدود ہوتے چلے جائیں۔ ملک میں دہشت گردی، توانائی بحران اور دیگر کئی اسباب کے باعث معیشت انتہائی ناتواں ہو، ایسے میں بعض اندازوں کے مطابق غریب عوام کے ناتواں کندھوں پر ماہانہ 40 تا 47 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔

کیے گئے فیصلوں کے مطابق 201 سے300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے ریٹ 8 روپے 11 پیسے سے بڑھا کر 14 روپے فی یونٹ کر دیے گئے ہیں، اس طرح ان صارفین کے لیے بجلی 5 روپے 89 پیسے مہنگی کر دی گئی ہے۔ جب کہ 301 سے 700 یونٹ تک بجلی کے نرخوں میں 3 روپے 67 پیسے کا اضافہ کر دیا گیا ہے، البتہ 700 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی 2 روپے 93 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کر دی گئی ہے۔ اس طرح 301 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مزید دو ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے، جب کہ 701 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے بل میں مزید تین ہزار روپے کا اضافہ ہو چکا ہو گا۔

جب کہ پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر4 روپے 12 پیسے کا اضافہ کر دیا گیا ہے، اب نئی قیمت 113 روپے 25 پیسے بڑھا دی گئی ہے۔ جب کہ ڈیزل کی قیمت میں دو روپے 81 پیسے اضافہ ہونے کے باعث نئی قیمت 101 روپے 24 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے، مٹی کے تیل کی قیمت میں دو روپے 14 پیسے اضافہ کرنے کے بعد قیمت 105 روپے 99 پیسے سے بڑھ کر 108 روپے 13 پیسے فی لیٹر ہو چکی ہے، یعنی ایک لیٹر مٹی کے تیل کی قیمت کو ایک ڈالر کے برابر لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے، تا کہ غریب جب اپنی کٹیا کو لالٹین سے روشن کر لے تو کہہ سکے کہ اس لیے ایک ڈالر کا مٹی کا تیل خرید کر لایا ہوں۔ بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے باعث یہ اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ بہت سے لوگ بلب جلانے کے بجائے لالٹین روشن کرنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اب وہ بھی فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک ڈالر کا مٹی کا تیل خریدا ہے، ایچ او بی سی کی قیمت 138 روپے سے بڑھ کر 143 روپے 90 پیسے تک پہنچا دی گئی ہے۔


حکومت کے ان فیصلوں سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے، اس کے ساتھ ہی ملکی معیشت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے باعث جلد ہی بجلی کی لاگت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری لاگت 15 روپے 43 پیسے رہتی ہے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل سے بجلی کی پیداواری لاگت 19 روپے 10 پیسے فی یونٹ آتی ہے، پانی سے بجلی کی پیداواری لاگت بعض ذرایع کے مطابق 16 پیسے فی یونٹ البتہ لاگت کچھ زیادہ بھی ہو سکتی ہے، تربیلا بند کی تعمیر جو کہ 1978ء میں مکمل ہو چکی تھی اس کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا، حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو اگلے 10 سال میں ایک بڑا ڈیم تعمیر کر لینا چاہیے تھا۔ اب تربیلا بند کی بھی صلاحیت میں خاصی کمی آ چکی ہے، ایک آزاد کنسلٹنٹ کا کہنا ہے کہ تربیلا ڈیم سے ریت اور مٹی کی صفائی اب قابل عمل نہیں رہی۔

اس ڈیم میں اب پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 9.6 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر 6.6 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے، اب اس کی صفائی پر جتنے اخراجات آ رہے ہیں اس رقم سے نیا ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے، اس طرح صورتحال روز بروز پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے، اگر بجلی کی پیداوار کا انحصار فرنس آئل اور ڈیزل پر بڑھتا ہی رہا تو اس کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں اس وقت عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 112 ڈالر فی بیرل ہے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 119 ڈالر فی بیرل ہے، اس کے علاوہ ملک میں ڈالر کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جس کے باعث ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھتی چلی جائیں گی۔ معاشی حکام اب تک ڈالر کی بلند پرواز کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جب کہ گزشتہ دنوں بھارت نے ڈالر کی اونچی اڑان پر اس کے پر کاٹ دیے۔ جب کہ پاکستان میں ڈالر کو آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر مہنگائی کے عفریت کی صورت میں عوام پر تو آسمان ٹوٹ رہا ہے لیکن ذمے داران پائوں پھیلا کر سو رہے ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق بھارت نے مختلف طریقوں سے ڈالر کی پرواز کو روکا جس میں سے ایک سونے کی درآمد پر پابندی عائد کی، بعد میں اس پر ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا، جب کہ پاکستانی حکام ایسا نہ کر سکے جس کے باعث اب سونا بھارت منتقل ہو رہا ہے، اس صورتحال کے باعث بالآخر پاکستان کی درآمدات میں اضافہ ہو گا اور تجارتی خسارہ بڑھ جائے گا۔ بہر حال چونکہ ڈالر کی قیمت پر کنٹرول نہیں ہے اس لیے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھنے سے دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت پاکستان پر اس کے منفی اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا معیشت اور عوام دونوں کی خاطر ڈالر ریٹ کو روکنے کے لیے تمام تر اقدامات کو بروئے کار لانا چاہیے۔

اس کے علاوہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں اگرچہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے حکومت کو چاہیے تھا کہ عوام کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کے بجائے انڈسٹری کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا، لیکن یہاں یہ بات بھی ہے کہ کارخانہ دار بالآخر بجلی کے نرخوں میں اضافہ عوام سے ہی وصول کرے گا۔ لیکن یہاں یہ بھی ضروری ہو گا کہ تمام کارخانہ داروں اور مل مالکان کو اعتماد میں لے کر اس بات پر رضامند کیا جائے کہ بہر حال وہ اضافی بلوں کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے بجائے اپنے منافعے میں سے ادائیگی کریں گے، آخر وہ منافع کما رہے ہیں جب کہ غریب عوام پر تو آمدن کے دروازے ہی بند ہیں یا آمدن اس حد تک قلیل ہے کہ اب یہ فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ بچوں کے اسکولوں کی فیس ادا کی جائے یا بجلی کے بل ادا کیے جائیں۔ فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں تعلیم کا سلسلہ ترک کرنا ہے اور جہالت کے اندھیرے میں چلے جانا ہے۔ بجلی کا بلب جلائیں یا پھر لالٹین میں مٹی کا تیل ڈال کر اسے روشن کریں یا اندھیرے میں رات بسر کر لی جائے، غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے بہر حال حکومت کو قیمتوں میں اضافے پر فوری نظر ثانی کرنا چاہیے۔
Load Next Story