سرسوں کے پھولوں کا دیس
کھیر تھر سندھ کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے جس کے دامن میں کاچھو کا علاقہ واقع ہے۔ اس علاقے...
کھیر تھر سندھ کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے جس کے دامن میں کاچھو کا علاقہ واقع ہے۔ اس علاقے کی خوشحالی بارش کی مرہون منت ہے۔ جوہی، چھنی، واہی پاندھی، ٹنڈو رحیم اور گاجی شاہ کاچھو کے علاقے ہیں۔ کاچھو لفظ کا مطلب ہے دامن۔ یہ زمین قدیم ہواؤں اور بارشوں کی تخلیق ہے۔ یہ زرخیز زمین ہے، جس کے لیے عام کہاوت ہے کہ ''جس کا کاچھے کی زمین میں حصہ نہیں اس کا بھاگ میں بھی حصہ نہیں ہو گا''۔ کھیرتھر کی چوٹیوں سے پانی کاچھو کے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ کاچھو بارش کے بعد خوبصورت ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو کاچھو کی زندگی اور رونقیں دوبارہ آباد ہو جاتی ہیں۔ہم جیسے ہی جوہی شہر میں داخل ہوئے تو مجھے بچپن یاد آ گیا۔
لڑکوں کے اسکول میں زیر تعلیم میں واحد لڑکی تھی پھر عادتیں بھی لڑکوں والی تھیں۔ درختوں پر چڑھنا اور ندی میں تیرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوا کرتی اور ڈرایا دھمکایا جاتا مگر درخت اور پانی مجھے اپنی طرف کھینچ لیتے۔ تاحد نظر آسمان ہو اور ہوائیں ہم جولی تو جینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ والد ڈاکٹر تھے۔ ہر تین سال بعد ان کا تبادلہ سندھ کے کسی نہ کسی شہر یا گاؤں میں ہو جاتا۔ جو سوچ کی گہرائی مٹی کی قربت عطا کرتی ہے وہ دنیا گھومنے یا کتابیں پڑھنے سے کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو مٹی کا بگولہ رقصاں تھا۔ گرمیوں میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ جوہی شہر میں رہائش کے دوران جھلسا دینے والی دوپہروں میں یہ بگولے اٹھا کرتے۔ گاؤں کی عورتیں بتایا کرتیں کہ ان بگولوں میں جن ہوتے ہیں۔ آج مٹی کے بے خود رقص کو دیکھ کر مجھے مولانا رومی کے مزار پر ہونے والا رقص یاد آ رہا ہے۔ مٹی بھی کہہ رہی ہو می رقصم می رقصم۔۔۔۔
بارش کے بعد کاچھو کے لوگوں کی آنکھیں امید کی روشنی سے جگمگانے لگتی ہیں۔ جیسے ہی بوندیں پیاسی زمین کو سیراب کرنے لگتی ہیں تو ہونٹ روایتی لوک گیت ''ہمہ'' پرانے وقتوں میں گنگنانے لگتے۔ ''کاچھو سپیاں برسائے گا۔ ہر طرف گندم کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ ساون ہمیں یاد کرے گا گاج بھی گرجے برسے گی۔ کاچھو سپیاں برسائے گائے۔''
گاج برساتی نالہ ہے۔ یہ بلوچستان کی علاقے سے ہوتا ہوا سندھ کے اس میدانی علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ اور ہریالی ہر طرف گیت گانے لگتی ہے۔ گاڑی جیسے کاچھو کی حدوں میں داخل ہوتی ہے خوبصورت منظر آنکھوں میں جذب ہونے لگتا ہے۔ سورج کی روشنی میں پورا علاقہ سورج مکھی کے پھول کی طرح جھوم رہا تھا۔ تاحد نظر خاموشی ایسی تھی، جیسے کوئی جوگی دم سادھے فطرت کے رنگوں میں گم بیٹھا ہو۔ یہ علاقہ گرمیوں میں سلگتی ہوئی مٹی کی طرح دہک اٹھتا ہے۔ محقق اشتیاق انصاری لکھتے ہیں ''کاچھے کا نام کلہوڑہ دور سے پہلے رکھا گیا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سکندر اعظم کے زمانے میں کاچھو کو ''پراسنا'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اشوکا جو موریا خاندان کا بادشاہ تھا وہ جب 237 ق۔م میں مگد کے تخت پر بیٹھا تھا تو اس نے کافی حصے میں بدھ دھرم کو متعارف کروایا۔ خروشطی خط میں اس کے کتبے ملے ہیں۔ ''یوچی'' خاندان نے بھی یہاں بدھ دھرم کے پھیلاؤ کے لیے کافی کوششیں کی تھیں۔ عرب اس علاقے کو ''بدھیہ'' لکھتے تھے۔ عربوں کے بعد کاچھے کو ''دشت باراں'' اور ''ریل'' کے نام سے بھی پکارا گیا''۔
جوہی تعلقے میں زرتشتی مذہب کے آثار بھی ملے ہیں۔ ہماری گاڑی گاجی شاہ کے مزار کی طرف رواں دواں ہے۔ بچپن میں والدہ مجھے مزاروں پر لے جایا کرتی تھیں۔ سات سال کی عمر میں، میں نے سیہون کی دھمال دیکھی تھی۔ ان لمحوں میں معلوم نہیں کیا اثر تھا کہ وہ کبھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکا۔ مزار کی اپنی الگ پراسراریت ہے۔ ایک خاص ماحول جو باسی پھولوں اور اگربتی کی خوشبو سے مل کر حواسوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کھیرتھر کی پہاڑی کے ٹیلے پر واقع گاجی شاہ کا یہ مزار سندھ، بلوچستان کے علاوہ مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر سال یہاں سردی کے موسم میں میلہ لگتا ہے۔ جب گاڑی گاجی شاہ کے مزار کے قریب رکی تو شام کے چار بج رہے تھے۔ ایک سایہ دار پودے کے نیچے پانی کا چھوٹا سا نالہ بہہ رہا تھا۔ تیز دھوپ میں ذرا سی ٹھنڈک کا احساس ملا۔ مزار اونچائی پر واقع ہے۔ اردگرد قبریں ہیں۔ بیچ میں سیڑھی ہے اوپر مزار پر پہنچ کر دم لیا۔ ایک جالی نما کمرہ تھا۔ مزار کے قریب مسند بچھی تھی۔ جالیوں پر بند تالے ادھوری خواہشوں کی ترجمانی کر رہے تھے۔
یہ تالے جابجا لگے تھے۔ جب لوگوں کی مرادیں پوری ہوں گی تو وہ آ کے یہ تالے کھولیں گے اور کھانا کھلائیں گے۔ نہ جانے کب ان کے من کی مرادیں پوری ہوں گی۔ اندر کمرے میں اداس چہرے والی عورت بیٹھی تھی۔ میں اس سے باتیں کرنے لگی تو اس نے بتایا کہ وہ پنجاب سے آئی ہے۔ سامنے ایک درخت تھا جس پر خوب سارے تعویذ لٹک رہے تھے۔ یہ آسیب زدہ لوگوں کے تعویذ تھے۔ گاجی شاہ کے میلے میں بہت سے لوگ جن نکلوانے آتے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ ان میں اکثر لوگ شیزوفرینیا اور ہسٹیریا جیسی نفسیاتی بیماریوں کے متاثرین ہوتے ہیں۔ شیزوفرینیا میں مریض کو طرح طرح کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ خود سے باتیں کرتے منہ میں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر جنات کا سایہ ہے۔
گاجی شاہ پر لائے جانے والی لڑکیاں اکثریت میں ہسٹیریا کے مرض میں بھی مبتلا ہوتی ہیں۔ ایسے مریضوں میں جذباتیت اور فریب کاری کی وجہ والدین کے جارحانہ رویے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا تعلق ایسے ماحول سے ہوتا ہے جہاں جنس کو بظاہر قابل نفرت مگر رازداری میں پسندیدہ اور دلچسپ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تضاد اس بیماری کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ ان افراد میں پائی جانے والی مبالغہ آمیزی اور مصنوعی طرز عمل کی وجہ سے انھیں آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار بعض اوقات ذہنی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ ایک جگہ خوبصورت پرندے دیکھے۔ ''یہ کیا ہے؟'' میں نے حیرت سے پوچھا۔ جو کاچھو کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ نصرت کہنے لگی کہ ''یہ لمبے بالوں کی منت ہے۔ جن لڑکیوں کے بال تیزی سے نہیں بڑھتے ان کی مائیں یہاں آ کر منت مانتی ہیں'' ۔ پرندے خوبصورت تھے، رنگوں سے پروئے ہوئے۔ کاچھو میں خوبصورت کشیدہ کاری ہوتی ہے۔ عورتیں فارغ وقت میں رلیاں بناتی ہیں۔
کاچھو کی زندگی سادہ اور بہت خالص ہے۔ یہاں کے لوگ بھی سیپ میں بند موتی جیسے ہیں۔ لوک کہاوتوں اور ورثے سے مالا مال۔ میں نے بچپن میں دیہی زندگی کے خوبصورت منظر دیکھے تھے۔ سادہ اور پیار کرنیوالے دیہاتیوں کے درمیان رہ کر یہ احساس ہوا کہ دنیا میں محبت بھرے دل سے زیادہ کوئی اور قیمتی چیز نہیں ہے۔یہاں قبریں بہت پرانی اور شکستہ تھیں۔ ایک قبر سے بوسیدہ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ قدیم مٹی کی مہک گم گشتہ دور کی کہانی سنا رہی تھی۔ایک جنگلی پودے پر تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ ہواؤں میں قدیم خوشبو نے نیند جیسا احساس بھر دیا تھا۔ شکستہ قبروں کو دیکھ کر زندگی کی بے ثباتی کا دکھ ستانے لگا۔ رابرٹ ہیرک کی نظم یاد آنے لگی۔
خوبصورت نرگس کے پھول
دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر
تم مرجھا جاتے ہو کتنی جلدی
ہمارے پاس بھی تمہاری طرح
کم وقت ہے
بہار کا موسم ہمارے لیے بھی مختصر ہے
تمہاری طرح اور دوسری اشیا جیسے
ختم ہو جاتی ہیں وقت کے ساتھ
ہم بھی ختم ہو جاتے ہیں
گرمی کی برسات کی طرح
اوس کے قطروں کی مانند
لڑکوں کے اسکول میں زیر تعلیم میں واحد لڑکی تھی پھر عادتیں بھی لڑکوں والی تھیں۔ درختوں پر چڑھنا اور ندی میں تیرنا روزمرہ کا معمول تھا۔ خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوا کرتی اور ڈرایا دھمکایا جاتا مگر درخت اور پانی مجھے اپنی طرف کھینچ لیتے۔ تاحد نظر آسمان ہو اور ہوائیں ہم جولی تو جینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ والد ڈاکٹر تھے۔ ہر تین سال بعد ان کا تبادلہ سندھ کے کسی نہ کسی شہر یا گاؤں میں ہو جاتا۔ جو سوچ کی گہرائی مٹی کی قربت عطا کرتی ہے وہ دنیا گھومنے یا کتابیں پڑھنے سے کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو مٹی کا بگولہ رقصاں تھا۔ گرمیوں میں مجھے یاد پڑتا ہے کہ جوہی شہر میں رہائش کے دوران جھلسا دینے والی دوپہروں میں یہ بگولے اٹھا کرتے۔ گاؤں کی عورتیں بتایا کرتیں کہ ان بگولوں میں جن ہوتے ہیں۔ آج مٹی کے بے خود رقص کو دیکھ کر مجھے مولانا رومی کے مزار پر ہونے والا رقص یاد آ رہا ہے۔ مٹی بھی کہہ رہی ہو می رقصم می رقصم۔۔۔۔
بارش کے بعد کاچھو کے لوگوں کی آنکھیں امید کی روشنی سے جگمگانے لگتی ہیں۔ جیسے ہی بوندیں پیاسی زمین کو سیراب کرنے لگتی ہیں تو ہونٹ روایتی لوک گیت ''ہمہ'' پرانے وقتوں میں گنگنانے لگتے۔ ''کاچھو سپیاں برسائے گا۔ ہر طرف گندم کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ ساون ہمیں یاد کرے گا گاج بھی گرجے برسے گی۔ کاچھو سپیاں برسائے گائے۔''
گاج برساتی نالہ ہے۔ یہ بلوچستان کی علاقے سے ہوتا ہوا سندھ کے اس میدانی علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ اور ہریالی ہر طرف گیت گانے لگتی ہے۔ گاڑی جیسے کاچھو کی حدوں میں داخل ہوتی ہے خوبصورت منظر آنکھوں میں جذب ہونے لگتا ہے۔ سورج کی روشنی میں پورا علاقہ سورج مکھی کے پھول کی طرح جھوم رہا تھا۔ تاحد نظر خاموشی ایسی تھی، جیسے کوئی جوگی دم سادھے فطرت کے رنگوں میں گم بیٹھا ہو۔ یہ علاقہ گرمیوں میں سلگتی ہوئی مٹی کی طرح دہک اٹھتا ہے۔ محقق اشتیاق انصاری لکھتے ہیں ''کاچھے کا نام کلہوڑہ دور سے پہلے رکھا گیا تھا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سکندر اعظم کے زمانے میں کاچھو کو ''پراسنا'' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اشوکا جو موریا خاندان کا بادشاہ تھا وہ جب 237 ق۔م میں مگد کے تخت پر بیٹھا تھا تو اس نے کافی حصے میں بدھ دھرم کو متعارف کروایا۔ خروشطی خط میں اس کے کتبے ملے ہیں۔ ''یوچی'' خاندان نے بھی یہاں بدھ دھرم کے پھیلاؤ کے لیے کافی کوششیں کی تھیں۔ عرب اس علاقے کو ''بدھیہ'' لکھتے تھے۔ عربوں کے بعد کاچھے کو ''دشت باراں'' اور ''ریل'' کے نام سے بھی پکارا گیا''۔
جوہی تعلقے میں زرتشتی مذہب کے آثار بھی ملے ہیں۔ ہماری گاڑی گاجی شاہ کے مزار کی طرف رواں دواں ہے۔ بچپن میں والدہ مجھے مزاروں پر لے جایا کرتی تھیں۔ سات سال کی عمر میں، میں نے سیہون کی دھمال دیکھی تھی۔ ان لمحوں میں معلوم نہیں کیا اثر تھا کہ وہ کبھی میرے ذہن سے محو نہیں ہو سکا۔ مزار کی اپنی الگ پراسراریت ہے۔ ایک خاص ماحول جو باسی پھولوں اور اگربتی کی خوشبو سے مل کر حواسوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کھیرتھر کی پہاڑی کے ٹیلے پر واقع گاجی شاہ کا یہ مزار سندھ، بلوچستان کے علاوہ مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہر سال یہاں سردی کے موسم میں میلہ لگتا ہے۔ جب گاڑی گاجی شاہ کے مزار کے قریب رکی تو شام کے چار بج رہے تھے۔ ایک سایہ دار پودے کے نیچے پانی کا چھوٹا سا نالہ بہہ رہا تھا۔ تیز دھوپ میں ذرا سی ٹھنڈک کا احساس ملا۔ مزار اونچائی پر واقع ہے۔ اردگرد قبریں ہیں۔ بیچ میں سیڑھی ہے اوپر مزار پر پہنچ کر دم لیا۔ ایک جالی نما کمرہ تھا۔ مزار کے قریب مسند بچھی تھی۔ جالیوں پر بند تالے ادھوری خواہشوں کی ترجمانی کر رہے تھے۔
یہ تالے جابجا لگے تھے۔ جب لوگوں کی مرادیں پوری ہوں گی تو وہ آ کے یہ تالے کھولیں گے اور کھانا کھلائیں گے۔ نہ جانے کب ان کے من کی مرادیں پوری ہوں گی۔ اندر کمرے میں اداس چہرے والی عورت بیٹھی تھی۔ میں اس سے باتیں کرنے لگی تو اس نے بتایا کہ وہ پنجاب سے آئی ہے۔ سامنے ایک درخت تھا جس پر خوب سارے تعویذ لٹک رہے تھے۔ یہ آسیب زدہ لوگوں کے تعویذ تھے۔ گاجی شاہ کے میلے میں بہت سے لوگ جن نکلوانے آتے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ ان میں اکثر لوگ شیزوفرینیا اور ہسٹیریا جیسی نفسیاتی بیماریوں کے متاثرین ہوتے ہیں۔ شیزوفرینیا میں مریض کو طرح طرح کی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ خود سے باتیں کرتے منہ میں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر جنات کا سایہ ہے۔
گاجی شاہ پر لائے جانے والی لڑکیاں اکثریت میں ہسٹیریا کے مرض میں بھی مبتلا ہوتی ہیں۔ ایسے مریضوں میں جذباتیت اور فریب کاری کی وجہ والدین کے جارحانہ رویے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا تعلق ایسے ماحول سے ہوتا ہے جہاں جنس کو بظاہر قابل نفرت مگر رازداری میں پسندیدہ اور دلچسپ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تضاد اس بیماری کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ ان افراد میں پائی جانے والی مبالغہ آمیزی اور مصنوعی طرز عمل کی وجہ سے انھیں آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دہرا معیار بعض اوقات ذہنی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ ایک جگہ خوبصورت پرندے دیکھے۔ ''یہ کیا ہے؟'' میں نے حیرت سے پوچھا۔ جو کاچھو کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ نصرت کہنے لگی کہ ''یہ لمبے بالوں کی منت ہے۔ جن لڑکیوں کے بال تیزی سے نہیں بڑھتے ان کی مائیں یہاں آ کر منت مانتی ہیں'' ۔ پرندے خوبصورت تھے، رنگوں سے پروئے ہوئے۔ کاچھو میں خوبصورت کشیدہ کاری ہوتی ہے۔ عورتیں فارغ وقت میں رلیاں بناتی ہیں۔
کاچھو کی زندگی سادہ اور بہت خالص ہے۔ یہاں کے لوگ بھی سیپ میں بند موتی جیسے ہیں۔ لوک کہاوتوں اور ورثے سے مالا مال۔ میں نے بچپن میں دیہی زندگی کے خوبصورت منظر دیکھے تھے۔ سادہ اور پیار کرنیوالے دیہاتیوں کے درمیان رہ کر یہ احساس ہوا کہ دنیا میں محبت بھرے دل سے زیادہ کوئی اور قیمتی چیز نہیں ہے۔یہاں قبریں بہت پرانی اور شکستہ تھیں۔ ایک قبر سے بوسیدہ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ قدیم مٹی کی مہک گم گشتہ دور کی کہانی سنا رہی تھی۔ایک جنگلی پودے پر تتلیاں منڈلا رہی تھیں۔ ہواؤں میں قدیم خوشبو نے نیند جیسا احساس بھر دیا تھا۔ شکستہ قبروں کو دیکھ کر زندگی کی بے ثباتی کا دکھ ستانے لگا۔ رابرٹ ہیرک کی نظم یاد آنے لگی۔
خوبصورت نرگس کے پھول
دکھ ہوتا ہے یہ دیکھ کر
تم مرجھا جاتے ہو کتنی جلدی
ہمارے پاس بھی تمہاری طرح
کم وقت ہے
بہار کا موسم ہمارے لیے بھی مختصر ہے
تمہاری طرح اور دوسری اشیا جیسے
ختم ہو جاتی ہیں وقت کے ساتھ
ہم بھی ختم ہو جاتے ہیں
گرمی کی برسات کی طرح
اوس کے قطروں کی مانند