قومی ہاکی ٹیم کو سخت ترین چیلنج درپیش
اولمپکس کوالیفائرز میں مضبوط حریف ہالینڈ کا سامنا
ٹوکیو اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ کی تیاریوں کے لئے پاکستان ہاکی ٹیم کی بھر پور تیاریوں کا سلسلہ لاہور میں جاری ہے۔
کھلاڑیوں نے پہلے مرحلے میں نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں کیمپ کمانڈنٹ خواجہ محمد جنید کی نگرانی میں بھر پور ٹریننگ کی،سپورٹس فزیشن ڈاکٹر اسد عباس شاہ نے جہاں کھلاڑیوں کو سپر فٹ بنانے کے لئے خصوصی سیشنز کئے وہاںان کی طرف سے ایک ہفتہ کے آرام میں پلیئرز کو مخصوص پروگرام بھی دیا گیا ہے اور وٹس ایپ کے ذریعے ان پلیئرز کی روزانہ کی بنیادوں پر نگرانی بھی کی جا رہی ہے،کیمپ کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر سے شروع ہوگا۔چیف کوچ خواجہ جنید کا کہنا ہے کہ اسی فیصد کھلاڑیوں کی فٹنس اورسکلز میں بہتری آئی ہے،دوسرے مرحلے میں پلیئرز میں موجود خامیوں پر مزید قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس مرحلہ میں عماد بٹ، محمد رضوان، راشد محمود، علی شان اور لیگ کھیلنے میںمصروف دوسرے تجربہ کار کھلاڑی بھی کیمپ کا حصہ ہوں گے، چیف کوچ کے مطابق ہمیں یہ حقائق ہرگز فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ ہالینڈ کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے جبکہ ہم اس وقت عالمی رینکنگ میں سترھویں نمبر پر ہیں،دنیا ٹیموں میں نمایاں فرق ہونے کے باوجود کوالیفائنگ راؤنڈ میں بہترین نتائج دینے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان ہاکی ٹیم کااولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ میں ٹاکرا مضبوط حریف ہالینڈ کے ساتھ ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی ٹیم کو ہالینڈ کیخلاف میدان میں اتارنے کے لئے جرمنی کے خلاف دو میچوں کی سیریز کا پروگرام بھی ترتیب دیا ہے، یقینی طور ان میچوں کی وجہ سے گرین شرٹس کو نہ صرف یورپی ٹیم کے خلاف ایکشن میں دکھائی دینے کا موقع ملے گا بلکہ میگا ایونٹ سے قبل پلیئرز کی خامیوں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
بلاشبہ پی ایچ ایف کی ٹوکیو اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ کے لئے یہ تیاریاں قابل ستائش ہیں لیکن یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقا م ہے کہ ماضی میں دنیا بھر کے تمام ٹائٹلز اپنے نام کرنے والی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اس قدر گر چکی ہے کہ 2016 کے اولمپکس میں باہر ہونے کے بعد گرین شرٹس کو ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ راؤنڈ کا چیلنج درپیش ہے۔
اب تک کے ہونے والے اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا تویہ ریکارڈ شاندار بھی ہے اور قابل رشک بھی،گرین شرٹس کو اب تک تین بار اولمپکس میں گولڈ میڈلز اور اتنی ہی بار سلور میڈلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔مونٹرال اولمپکس1976 اور بارسلونا اولمپکس 1992ء میں پاکستانی ٹیم تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔بعد ازا ں قسمت کی دیوی پاکسنانی ٹیم سے اس حد تک روٹھی ہوئی ہے کہ 27 سال گزر جانے کے باوجود پاکستانی ٹیم میڈلز کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان ہاکی ٹیم نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس علی اقتدار شاہ کی قیادت میں شرکت کی اور میگا ایونٹ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1952میں ہیلیسنکی اولمپکس میں بھی قومی ہاکی ٹیم نے نیاز خان کی قیادت میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔1956کے ملبورن اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم نے عبدالحمید عرف حمیدی کی قیادت میں قومی ہاکی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔فائنل میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوا لیکن جیت پاکستان کا مقدر نہ بن سکی۔1960کے روم اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم نے بھارت کی ٹیم کو شکست دیکر ملبورن اولمپکس کی شکست کا بدلہ لے لیا اور ہاکی کے میدان میں حکمرانی حاصل کی۔
1964میں اولمپکس کی میزبانی ایشیا کو ملی لیکن پاکستان کی ٹیم اپنے اعزازکا دفاع نہ کر سکی۔ 1968کے میکسکو اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے آسٹریلیا کو ہرا کر دوسری دفعہ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1972میں ہونے والے میونخ اولمپکس کے فائنل میں پاکستان ناقص ایمپائرنگ کے باعث جرمنی سے ہار گیا۔احتجاجا شہناز شیخ نے اپنا میڈل جوتے پر وصول کیا جس پر آئی ایچ ایف نے ٹیم پر پابندی عائد کردی۔1976میں اولمپکس مانٹریال میں ہوئے جس میں پاکستان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 1984کے لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے منظور جونیئر کی قیادت میں تیسری دفعہ سونے کا تمغہ جیتا۔1988کے سی?ل اولمپکس میں پاکستا ن نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
1992کے بار سلونا اولمپکس میں پاکستان کی ٹیم نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔اٹلانٹا اولمپکس1996ء میں پاکستان کا نمبر چھٹا رہا،سڈنی اولمپکس2000ء میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک تو رسائی کرنے میں کامیاب رہی لیکن فیصلہ کن مقابلے میں ہار کے بعد گرین شرٹس کو چوتھی پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔ایتھنز اولمپکس2004 میں پاکستان نے پانچویں ، بیجنگ اولمپکس2008 میں آٹھویں اور لندن اولمپکس 2012میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔
ریو اولمپکس2016 میں پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی بار میگا ایونٹ تک کوالیفائی کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ اب ایک بار پھر گرین شرٹس کو ٹوکیو اولمپکس2020ء تک رسائی کا چیلنج درپیش ہے، آئندہ ماہ ہالینڈ میں میزبان ملک کے خلاف شیڈول کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی کی صورت میں ہی ٹوکیو اولمپکس کے لئے ٹکٹ کٹا سکیں گے۔پاکستانی ٹیم اس مہم میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لئے شائقین کو ایک ماہ کے لئے مزید انتظار کرنا پڑگا۔
کھلاڑیوں نے پہلے مرحلے میں نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں کیمپ کمانڈنٹ خواجہ محمد جنید کی نگرانی میں بھر پور ٹریننگ کی،سپورٹس فزیشن ڈاکٹر اسد عباس شاہ نے جہاں کھلاڑیوں کو سپر فٹ بنانے کے لئے خصوصی سیشنز کئے وہاںان کی طرف سے ایک ہفتہ کے آرام میں پلیئرز کو مخصوص پروگرام بھی دیا گیا ہے اور وٹس ایپ کے ذریعے ان پلیئرز کی روزانہ کی بنیادوں پر نگرانی بھی کی جا رہی ہے،کیمپ کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر سے شروع ہوگا۔چیف کوچ خواجہ جنید کا کہنا ہے کہ اسی فیصد کھلاڑیوں کی فٹنس اورسکلز میں بہتری آئی ہے،دوسرے مرحلے میں پلیئرز میں موجود خامیوں پر مزید قابو پانے کی کوشش کی جائے گی۔
اس مرحلہ میں عماد بٹ، محمد رضوان، راشد محمود، علی شان اور لیگ کھیلنے میںمصروف دوسرے تجربہ کار کھلاڑی بھی کیمپ کا حصہ ہوں گے، چیف کوچ کے مطابق ہمیں یہ حقائق ہرگز فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ ہالینڈ کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے جبکہ ہم اس وقت عالمی رینکنگ میں سترھویں نمبر پر ہیں،دنیا ٹیموں میں نمایاں فرق ہونے کے باوجود کوالیفائنگ راؤنڈ میں بہترین نتائج دینے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان ہاکی ٹیم کااولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ میں ٹاکرا مضبوط حریف ہالینڈ کے ساتھ ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن نے قومی ٹیم کو ہالینڈ کیخلاف میدان میں اتارنے کے لئے جرمنی کے خلاف دو میچوں کی سیریز کا پروگرام بھی ترتیب دیا ہے، یقینی طور ان میچوں کی وجہ سے گرین شرٹس کو نہ صرف یورپی ٹیم کے خلاف ایکشن میں دکھائی دینے کا موقع ملے گا بلکہ میگا ایونٹ سے قبل پلیئرز کی خامیوں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
بلاشبہ پی ایچ ایف کی ٹوکیو اولمپکس کوالیفائنگ راؤنڈ کے لئے یہ تیاریاں قابل ستائش ہیں لیکن یہ کتنے دکھ اور افسوس کا مقا م ہے کہ ماضی میں دنیا بھر کے تمام ٹائٹلز اپنے نام کرنے والی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اس قدر گر چکی ہے کہ 2016 کے اولمپکس میں باہر ہونے کے بعد گرین شرٹس کو ٹوکیو اولمپکس کے کوالیفائنگ راؤنڈ کا چیلنج درپیش ہے۔
اب تک کے ہونے والے اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیا تویہ ریکارڈ شاندار بھی ہے اور قابل رشک بھی،گرین شرٹس کو اب تک تین بار اولمپکس میں گولڈ میڈلز اور اتنی ہی بار سلور میڈلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے۔مونٹرال اولمپکس1976 اور بارسلونا اولمپکس 1992ء میں پاکستانی ٹیم تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔بعد ازا ں قسمت کی دیوی پاکسنانی ٹیم سے اس حد تک روٹھی ہوئی ہے کہ 27 سال گزر جانے کے باوجود پاکستانی ٹیم میڈلز کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان ہاکی ٹیم نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس علی اقتدار شاہ کی قیادت میں شرکت کی اور میگا ایونٹ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1952میں ہیلیسنکی اولمپکس میں بھی قومی ہاکی ٹیم نے نیاز خان کی قیادت میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔1956کے ملبورن اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم نے عبدالحمید عرف حمیدی کی قیادت میں قومی ہاکی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔فائنل میں پاکستان کا مقابلہ بھارت سے ہوا لیکن جیت پاکستان کا مقدر نہ بن سکی۔1960کے روم اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم نے بھارت کی ٹیم کو شکست دیکر ملبورن اولمپکس کی شکست کا بدلہ لے لیا اور ہاکی کے میدان میں حکمرانی حاصل کی۔
1964میں اولمپکس کی میزبانی ایشیا کو ملی لیکن پاکستان کی ٹیم اپنے اعزازکا دفاع نہ کر سکی۔ 1968کے میکسکو اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے آسٹریلیا کو ہرا کر دوسری دفعہ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1972میں ہونے والے میونخ اولمپکس کے فائنل میں پاکستان ناقص ایمپائرنگ کے باعث جرمنی سے ہار گیا۔احتجاجا شہناز شیخ نے اپنا میڈل جوتے پر وصول کیا جس پر آئی ایچ ایف نے ٹیم پر پابندی عائد کردی۔1976میں اولمپکس مانٹریال میں ہوئے جس میں پاکستان نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ 1984کے لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے منظور جونیئر کی قیادت میں تیسری دفعہ سونے کا تمغہ جیتا۔1988کے سی?ل اولمپکس میں پاکستا ن نے پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
1992کے بار سلونا اولمپکس میں پاکستان کی ٹیم نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔اٹلانٹا اولمپکس1996ء میں پاکستان کا نمبر چھٹا رہا،سڈنی اولمپکس2000ء میں پاکستانی ٹیم سیمی فائنل تک تو رسائی کرنے میں کامیاب رہی لیکن فیصلہ کن مقابلے میں ہار کے بعد گرین شرٹس کو چوتھی پوزیشن پر اکتفا کرنا پڑا۔ایتھنز اولمپکس2004 میں پاکستان نے پانچویں ، بیجنگ اولمپکس2008 میں آٹھویں اور لندن اولمپکس 2012میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔
ریو اولمپکس2016 میں پاکستانی ٹیم تاریخ میں پہلی بار میگا ایونٹ تک کوالیفائی کرنے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ اب ایک بار پھر گرین شرٹس کو ٹوکیو اولمپکس2020ء تک رسائی کا چیلنج درپیش ہے، آئندہ ماہ ہالینڈ میں میزبان ملک کے خلاف شیڈول کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی کی صورت میں ہی ٹوکیو اولمپکس کے لئے ٹکٹ کٹا سکیں گے۔پاکستانی ٹیم اس مہم میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لئے شائقین کو ایک ماہ کے لئے مزید انتظار کرنا پڑگا۔