کیا شفاف احتساب ممکن ہوسکے گا
وزیر اعظم کو آگے بڑھ کر حزب اختلاف کے اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی
کیا پاکستان میں شفاف اورمنصفانہ احتساب ممکن ہے؟یہ ایک ایسا بنیادی نوعیت کا سوال ہر سطح پر بحث کا موضوع ہے۔ پاکستان میں اول کبھی احتساب ہوا نہیں ہے اور اگر کچھ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس میں سیاسی انجینئرنگ یا سیاسی انتقام کی بو زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔
اسی لیے احتساب کے تناظر میں ایک مایوسی اور عدم اعتماد کی فضا ہے۔ سب ہی طبقوں نے احتساب پر یا تو سمجھوتہ کیا یا اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ ملک میں کرپشن، لوٹ مار، مالی بدعنوانی اور ریاستی و حکومتی وسائل پر ڈکیتی کی صورت میں نکلا ہے۔
پاکستان کی سیاست اوراہل دانش سے جڑے افراد نے کمال ہوشیاری سے اس فکری مغالطہ کو تقویت دی کہ کرپشن اورمالی بدعنوانی کوئی بڑا مسئلہ نہیں اور آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ تمام فریقین کسی نہ کسی شکل میں کرپشن اوربدعنوانی سے جڑے نظر آئے۔ یہ عمل بھی دیکھنے کو ملا کہ طاقت کے تمام مراکز یا فریقین کے درمیان کرپشن اور بدعنوانی پر ایک مضبوط گٹھ جوڑ بھی موجود ہے جو ایک دوسرے کی کرپشن کو چھپانے یا ان کو سیاسی اور قانونی تحفظ دینے کا سبب بنتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت کی بنیاد ایک مضبوط اور شفاف احتساب سے جڑی تھی۔ لیکن عمران خان کے اقتدارکے ایک برس بعد بھی احتساب کا عمل ہم کو وہ مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام نظر آتا ہے جس کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس وقت جو احتساب کی لہر چل رہی ہے اس پر چار طرح کے بنیادی سوالات ہیں۔ اول کیا وجہ ہے کہ نیب کی حراست میں موجود بڑے بڑے سیاسی مجرموں کے مقدمات منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ دوئم سارے احتساب کا زور حکومت مخالف جماعتوں کی طرف نظر آتا ہے اورکیوں حکمران طبقوں سے جڑے کرپٹ افراد گرفتار نہیں کیے جا سکے۔
سوئم کیا وجہ ہے کہ خود چیف جسٹس کو موجودہ احتساب کے تناظر میں لفظ سیاسی انجینئرنگ کا استعمال کرنا پڑا۔ چہارم حزب اختلاف اس سے جڑے اہل دانش کیونکر احتساب کو سیاست، جمہوریت اور سیاسی نظام کے خلاف سمجھتے ہیں یا اس عمل کو حکمران طبقہ کے باہمی گٹھ جوڑ سے جوڑتے ہیں۔ اگر جس تیز عمل سے حزب اختلاف کے لوگ گرفتار ہوئے ہیں اور یہ ہی عمل حکمران طبقوں کے اندر بھی جڑا نظر آتا تو اس احتساب کی موثر اور بہتر سیاسی اور قانونی ساکھ بن سکتی تھی۔ لیکن جب تک احتساب کا عمل دوطرفہ نہیں ہوگا لوگ اسے سیاسی انجینئرنگ کے ساتھ ہی جوڑکر حکومت مخالف نکتہ نظر کو ہی بنیاد بنا کر احتساب پر سوالات اٹھائیں گے۔
یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ جو بھی پکڑا جائے گا وہ کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ کرپٹ یا بدعنوان ہے۔ یقینی طور پر اس کی پہلی اورآخری ترجیح سیاسی انتقام کے ساتھ ہی جڑی ہے۔ ہمیں اس مفروضہ یا مغالطہ سے باہر نکلنا ہو گا کہ کڑے احتساب کا عمل ملک میں سیاست، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کا سبب بنے گا۔ کیونکہ اس گٹھ جوڑ نے نہ صرف کرپشن پر مبنی سیاست کو فروغ دیا بلکہ مجموعی طورپر پورے سیاسی کلچر، نظام اورجمہوری عمل کو بھی کمزور بھی کیا اوربدنام بھی۔ بدقسمتی سے جب سیاسی قیادتیں یا بڑے سیاسی نام خود کرپشن اوربدعنوانی کی سیاست سے جڑے ہوں تو پھر ان کی اپنی جماعتوں سے جڑے افراد کیسے خود کو کرپشن سے دور کر سکتے ہیں۔ سیاسی قیادت اورجماعتوں نے عملی طور پر کرپٹ لوگوں کو سیاسی تحفظ دے کر جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کا سیاسی ماضی احتساب کے نام پر سمجھوتہ، سیاسی انجینئرنگ یا سیاسی انتقام سے جڑا ہے، ان دونوں بڑی جماعتوں نے شفاف احتساب کے عمل کو بری طرح مفلوج کیا ۔موجودہ نیب کا خاتمہ نہ کرنا یا اس میں بہتر ترامیم نہ لانا اورایسے چیرمینوں کا انتخاب جو ان کے سیاسی مفادات کو تحفظ دے سکے، یہ سنگین جرائم ہیں جن میں یہ دونوں جماعتیں برابر کی حصہ دار ہیں۔ لیکن کیا تحریک انصاف بھی اسی جانب بڑھنا چاہتی ہے جہاں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کھڑے تھے یا ہیں ۔کیونکہ تحریک انصاف اوران کی اتحادی جماعتوں میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو وزیر اعظم کو احتساب کے عمل سے ڈی ٹریک کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
بے نامی جائیدادیں، منی لانڈرنگ، ناجائز ذرائع آمدنی ، آمدن سے زیادہ اثاثے، بے نامی اکاونٹس، ملازمین کے نام پر جائیدادیں، ظاہر نہ کرسکنے والے اثاثہ جات جرائم ہیں اورہمیں ان کو جرائم ہی کے تناظر میںلینا چاہیے ۔ اگر مسئلہ نیب یا عدالتوں کا ہے تو اس میں جو خرابیاں ہیں ان کے خاتمہ یا ترامیم پر ضرور بات ہونی چاہیے اورپارلیمنٹ کی مدد سے نئی قانون سازی بھی کی جانی چاہیے۔ لیکن احتساب کے خاتمہ کی بات کرنا یا احتساب کو پس پشت ڈالنے کا ایجنڈا ہی جرائم پر مبنی سیاست کو طاقت فراہم کرنے سے جڑا ہے۔ وزیر اعظم یقینا اپنے سیاسی مخالفین کا احتساب کریں لیکن نیب کو بھی پابند کریں اور خود بھی آگے بڑھ کر اپنے اندر موجود ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کریں جو احتساب کے عمل میں آتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ اگر انھوں نے بھی احتساب کے نظام کو ماضی کے حکمرانوں کی طرح متنازعہ بنایا تو پھر ان میں اور سابقہ حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ وزیر اعظم کو آگے بڑھ کر حزب اختلاف کے اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی کہ ان کے حامیوں کا احتساب نہ ہونے کی وجہ یا اس میں نیب کا سرگرم نہ ہونا خود حکومتی ایما پر ہو رہا ہے۔ اسی طرح جن بھی حکمران طبقات کے لوگوں کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں یا جن پر نیب میں سنگین نوعیت کے الزامات ہیں ان کو کسی بھی طور پر حکومتی عہدہ کا حصہ دار نہ بنایا جائے اورپابند کیا جائے کہ جب تک وہ اپنے خلاف الزامات غلط ثابت نہیں کرتے وہ حکومت کا حصہ نہیں بن سکتے۔