پولیس اصلاحات میں مسلسل تاخیر
سانحہ ساہیوال میں وزیر اعظم وعدہ کرکے کمیشن نہ بنواسکے تو ایک صلاح الدین کس گنتی میں شمار ہوگا
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے پولیس میں اصلاحات پر کام شروع کر رکھا ہے اور آیندہ سال تک اس سلسلے میں پیش رفت نظر آئے گی۔خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد ڈھائی سال میں اصلاحات ہوئی تھیں۔
پہلے کے پی کے میں پی ٹی آئی کی جب حکومت بنی تھی اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جب کہ پولیس اصلاحات کے سلسلے میں وفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیس اصلاحات کا انھیں مکمل اختیار تھا۔ صوبائی پولیس سربراہ کا تقرر وفاق صوبوں کی مشاورت سے کرتا ہے اور صوبے سے وفاق کو تین افسروں کے نام دیے جاتے ہیں اور وفاق سے بھی آئی جی پولیس کے تقررکے لیے متعلقہ صوبے کو تین نام دیے جاتے ہیں اور صوبہ راضی نہ ہو تو صوبے کی مرضی سے نئے آئی جی کا تقررکیا جاتا ہے۔
2013ء میں کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت نے ناصر درانی کو صوبے کا آئی جی مقررکیا تھا اور نواز شریف حکومت کے پی میں پی ٹی آئی حکومت افسروں کے تقرر میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی تھی اور صوبائی حکومت ہر جگہ اپنی پسند کا افسر مقررکرانے میں آزاد تھی۔ صوبائی حکومت نے آئی جی ناصر درانی کو مکمل فری ہینڈ دیا تھا اور عمران خان سمیت پورے کے پی کے کی حکومت ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھی اور عمران خان کے پی کے کی پولیس کو ملک کی بہترین پولیس قرار دیتے تھے جب کہ اپوزیشن ان کی یہ بات تسلیم نہیں کرتی تھی مگر بہرحال کے پی کے میں پولیس معاملات میں بہتری ضرور آئی تھی۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیس کے سلسلے میں مکمل بااختیار صوبے بن تو گئے تھے مگر ہر صوبے میں پولیس سیاست میں مکمل طور پر ملوث اور سیاست زدہ تھی اور اس سلسلے میں اقتدار میں رہنے پر سیاسی پارٹی نے پولیس کو اپنے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہمیشہ استعمال کیا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی حکومت رہی وہاں پولیس کا رویہ برسر اقتدار پارٹی کے لیے نرم بلکہ جانبدارانہ رہا ہے کیونکہ پولیس برسر اقتدار پارٹی کے رہنماؤں کی فیور کرتی ہے اور ان کے کہنے پر ان کے مخالفین کو بھی جھوٹے مقدمات میں ملوث کرتی رہی ہے اور یہ شکایت ہر صوبے میں رہی ہے۔
سندھ میں 11 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی مرضی کا آئی جی صوبے میں رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میں سندھ سے زیادہ کے پی کے کی حکومت کا خیال رکھا جسکی وجہ سے سندھ حکومت کو (ن) لیگی حکومت سے شکایت بھی رہی۔ سندھ حکومت اپنے پسندیدہ آئی جی کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کو بھی نظر انداز کردیتی تھی جسکا ثبوت آئی جی غلام حیدر جمالی تھے جن کے خلاف کرپشن کے متعدد مقدمات زیرسماعت ہیں۔
سندھ حکومت نے عدالتی حکم پر مجبوری میں غلام حیدر جمالی کو ہٹا کر ایک جونیئر افسر اے ڈی خواجہ کو یہ سمجھ کر آئی جی بنایا تھا کہ وہ اس کے ہر حکم پر عمل کرینگے مگر اے ڈی خواجہ کی شہرت مختلف تھی اور انھیں عوام میں مقبولیت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ سندھ حکومت کے کہنے پر نہ چل سکے تو حکومت نے انھیں تبدیل کر کے سردار عبدالمجید دستی کو اس بنیاد پر آئی جی مقررکردیا کہ وہ اے ڈی خواجہ سے سینئر تھے۔
یہ سینیارٹی سندھ حکومت کو پہلے نظر نہیں آئی تھی۔ وفاقی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو ہٹانے میں سندھ حکومت کا ساتھ نہ دیا تب بھی سردار دستی کا تقررکردیا مگر عدالت نے عمل نہ ہونے دیا۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت نے کابینہ سے بھی فیصلے لیے مگر آخر تک اے ڈی خواجہ کو نہ ہٹا سکی تھی۔
خیبر پختون خوا حکومت میں جس ناصر درانی پر عمران خان اعتماد کرتے تھے انھیں وزیر اعظم عمران خان ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب لائے اور انھیں پولیس ریفارمزکمیشن کا سربراہ مقررکیا مگر پنجاب میں پولیس کے پی کے سے مختلف مزاج کی حامل ہے،یہاں اتحادیوں کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی تھی اور حکومتی حلیف اس قدر طاقتور تھے کہ انھوں نے عمران خان کے اصولوں پر عمل نہ ہونے دیا اور مختصر مدت میں پنجاب کے آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا اور ناصر درانی سے اس سلسلے میں مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا جس پر ناراض ہوکر ناصر درانی کمیشن کی سربراہی سے مستعفی ہوگئے تھے۔ حکومت نے ان کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی تھی اور ایک سال ہونے والا ہے ناصر درانی جن کی کے پی کے میں بے انتہا تعریفیں کی جاتی تھیں مگر پنجاب میں انھیں نظرانداز کردیا گیا۔
پولیس جعلی مقابلوں، عوام پر جھوٹے مقدمات بنانے، قیدیوں کو ماورائے عدالت قتل، عوام سے بد سلوکی اور تشدد میں بدنام ہے اور آئے دن میڈیا میں پولیس کی لاقانونیت اور عوام کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں آتی ہیں ۔
ستمبرکے آغاز کے ساتھ ہی پولیس تشدد سے متعدد افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں بلکہ ایک ضعیف خاتون کے ساتھ ایک پولیس افسرکی بدتمیزی کی ایک خبر بھی میڈیا پر آئی جس کے بعد مذکورہ پولیس افسر گرفتار کرلیا گیا۔ ایک لیڈی پولیس اہلکار پر ایک وکیل کے تشدد کے بعد ہی گرفتاری مگر اگلے روز ہی وکیل کی ضمانت پر رہائی کا تماشا بھی دنیا نے دیکھا کہ لیڈی پولیس کانسٹیبل پر تشدد کرنے والے وکیل کا غلط نام بھی تھانے میں پولیس اہلکار نے لکھا اور لکھنے والے اہلکار کو اپنی پیٹی بہن پر تشدد کا خیال تک نہ آیا ، تو اب مقدمے کا کیا انجام ہو، یہ وقت بتائے گا۔
سانحہ ساہیوال میں بے گناہوں کی ہلاکت پر وزیر اعظم وعدہ کرکے کمیشن نہ بنوا سکے تو ایک صلاح الدین کس گنتی میں شمار ہوگا۔ پولیس افسران اپنے مجرم مرد اہلکاروں کو تو بچا لیتے ہیں مگر لیڈی کانسٹیبل پر مردانہ تشدد پر ضمیر نہیں جاگتا۔قانون اور آئین جسمانی ریمانڈ کو پولیس تشدد کو اپنا حق سمجھتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ہر گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا قانونی ضرورت ہے مگر پولیس کے اپنے نجی عقوبت خانوں میں ملزموں کو کئی روز قید میں رکھ کر رشوت ملنے پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے اور رشوت نہ ملنے پر اس پر کئی روز بعد اگر بچ جائے تو جھوٹا مقدمہ ڈال دیا جاتا ہے۔ تفتیش کے نام پر سیکشن 4 ضابطہ فوجداری کے تحت شہادتوں کو جمع کرنا ہوتا ہے۔
بغیر مقدمہ درج ہوئے تھانوں میں لوگوں کو کئی روز ناحق قید رکھا جاتا ہے جن پر تشدد آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت نہیں کیا جاسکتا مگر پولیس اہلکار پکڑے گئے شخص کو دو چار تھپڑ مارنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ پولیس کا عوام سے رویہ ہمیشہ ذلت آمیز اور ناروا رہا ہے اور ہاتھ آجانے پر کسی کو بھی گالیاں دینا اور دو چار تھپڑ ضرور مارنا پولیس اپنا حق اولین سمجھتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح وزیر اعظم نے بھی اقتدار ملنے سے قبل پولیس کی اصلاح کے بڑے دعوے کیے تھے جو صرف سیاسی تھے عملی طور پر ایک سال میں باتوں کے سوا کچھ نہیں کیا گیا اور اب بھی پولیس کی اصلاح میں تاخیر کی جا رہی ہے۔
پہلے کے پی کے میں پی ٹی آئی کی جب حکومت بنی تھی اس وقت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جب کہ پولیس اصلاحات کے سلسلے میں وفاق کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیس اصلاحات کا انھیں مکمل اختیار تھا۔ صوبائی پولیس سربراہ کا تقرر وفاق صوبوں کی مشاورت سے کرتا ہے اور صوبے سے وفاق کو تین افسروں کے نام دیے جاتے ہیں اور وفاق سے بھی آئی جی پولیس کے تقررکے لیے متعلقہ صوبے کو تین نام دیے جاتے ہیں اور صوبہ راضی نہ ہو تو صوبے کی مرضی سے نئے آئی جی کا تقررکیا جاتا ہے۔
2013ء میں کے پی کے میں پی ٹی آئی حکومت نے ناصر درانی کو صوبے کا آئی جی مقررکیا تھا اور نواز شریف حکومت کے پی میں پی ٹی آئی حکومت افسروں کے تقرر میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی تھی اور صوبائی حکومت ہر جگہ اپنی پسند کا افسر مقررکرانے میں آزاد تھی۔ صوبائی حکومت نے آئی جی ناصر درانی کو مکمل فری ہینڈ دیا تھا اور عمران خان سمیت پورے کے پی کے کی حکومت ان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتی تھی اور عمران خان کے پی کے کی پولیس کو ملک کی بہترین پولیس قرار دیتے تھے جب کہ اپوزیشن ان کی یہ بات تسلیم نہیں کرتی تھی مگر بہرحال کے پی کے میں پولیس معاملات میں بہتری ضرور آئی تھی۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد پولیس کے سلسلے میں مکمل بااختیار صوبے بن تو گئے تھے مگر ہر صوبے میں پولیس سیاست میں مکمل طور پر ملوث اور سیاست زدہ تھی اور اس سلسلے میں اقتدار میں رہنے پر سیاسی پارٹی نے پولیس کو اپنے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہمیشہ استعمال کیا۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جس صوبے میں جس پارٹی کی حکومت رہی وہاں پولیس کا رویہ برسر اقتدار پارٹی کے لیے نرم بلکہ جانبدارانہ رہا ہے کیونکہ پولیس برسر اقتدار پارٹی کے رہنماؤں کی فیور کرتی ہے اور ان کے کہنے پر ان کے مخالفین کو بھی جھوٹے مقدمات میں ملوث کرتی رہی ہے اور یہ شکایت ہر صوبے میں رہی ہے۔
سندھ میں 11 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور اس نے ہمیشہ اپنی مرضی کا آئی جی صوبے میں رکھا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے دور میں سندھ سے زیادہ کے پی کے کی حکومت کا خیال رکھا جسکی وجہ سے سندھ حکومت کو (ن) لیگی حکومت سے شکایت بھی رہی۔ سندھ حکومت اپنے پسندیدہ آئی جی کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کو بھی نظر انداز کردیتی تھی جسکا ثبوت آئی جی غلام حیدر جمالی تھے جن کے خلاف کرپشن کے متعدد مقدمات زیرسماعت ہیں۔
سندھ حکومت نے عدالتی حکم پر مجبوری میں غلام حیدر جمالی کو ہٹا کر ایک جونیئر افسر اے ڈی خواجہ کو یہ سمجھ کر آئی جی بنایا تھا کہ وہ اس کے ہر حکم پر عمل کرینگے مگر اے ڈی خواجہ کی شہرت مختلف تھی اور انھیں عوام میں مقبولیت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ عرصہ سندھ حکومت کے کہنے پر نہ چل سکے تو حکومت نے انھیں تبدیل کر کے سردار عبدالمجید دستی کو اس بنیاد پر آئی جی مقررکردیا کہ وہ اے ڈی خواجہ سے سینئر تھے۔
یہ سینیارٹی سندھ حکومت کو پہلے نظر نہیں آئی تھی۔ وفاقی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو ہٹانے میں سندھ حکومت کا ساتھ نہ دیا تب بھی سردار دستی کا تقررکردیا مگر عدالت نے عمل نہ ہونے دیا۔ اس سلسلے میں سندھ حکومت نے کابینہ سے بھی فیصلے لیے مگر آخر تک اے ڈی خواجہ کو نہ ہٹا سکی تھی۔
خیبر پختون خوا حکومت میں جس ناصر درانی پر عمران خان اعتماد کرتے تھے انھیں وزیر اعظم عمران خان ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب لائے اور انھیں پولیس ریفارمزکمیشن کا سربراہ مقررکیا مگر پنجاب میں پولیس کے پی کے سے مختلف مزاج کی حامل ہے،یہاں اتحادیوں کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی تھی اور حکومتی حلیف اس قدر طاقتور تھے کہ انھوں نے عمران خان کے اصولوں پر عمل نہ ہونے دیا اور مختصر مدت میں پنجاب کے آئی جی کا تبادلہ کردیا گیا اور ناصر درانی سے اس سلسلے میں مشاورت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا جس پر ناراض ہوکر ناصر درانی کمیشن کی سربراہی سے مستعفی ہوگئے تھے۔ حکومت نے ان کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی تھی اور ایک سال ہونے والا ہے ناصر درانی جن کی کے پی کے میں بے انتہا تعریفیں کی جاتی تھیں مگر پنجاب میں انھیں نظرانداز کردیا گیا۔
پولیس جعلی مقابلوں، عوام پر جھوٹے مقدمات بنانے، قیدیوں کو ماورائے عدالت قتل، عوام سے بد سلوکی اور تشدد میں بدنام ہے اور آئے دن میڈیا میں پولیس کی لاقانونیت اور عوام کے ساتھ بدسلوکی کی خبریں آتی ہیں ۔
ستمبرکے آغاز کے ساتھ ہی پولیس تشدد سے متعدد افراد کی ہلاکت کی خبریں سامنے آئیں بلکہ ایک ضعیف خاتون کے ساتھ ایک پولیس افسرکی بدتمیزی کی ایک خبر بھی میڈیا پر آئی جس کے بعد مذکورہ پولیس افسر گرفتار کرلیا گیا۔ ایک لیڈی پولیس اہلکار پر ایک وکیل کے تشدد کے بعد ہی گرفتاری مگر اگلے روز ہی وکیل کی ضمانت پر رہائی کا تماشا بھی دنیا نے دیکھا کہ لیڈی پولیس کانسٹیبل پر تشدد کرنے والے وکیل کا غلط نام بھی تھانے میں پولیس اہلکار نے لکھا اور لکھنے والے اہلکار کو اپنی پیٹی بہن پر تشدد کا خیال تک نہ آیا ، تو اب مقدمے کا کیا انجام ہو، یہ وقت بتائے گا۔
سانحہ ساہیوال میں بے گناہوں کی ہلاکت پر وزیر اعظم وعدہ کرکے کمیشن نہ بنوا سکے تو ایک صلاح الدین کس گنتی میں شمار ہوگا۔ پولیس افسران اپنے مجرم مرد اہلکاروں کو تو بچا لیتے ہیں مگر لیڈی کانسٹیبل پر مردانہ تشدد پر ضمیر نہیں جاگتا۔قانون اور آئین جسمانی ریمانڈ کو پولیس تشدد کو اپنا حق سمجھتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ ہر گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا قانونی ضرورت ہے مگر پولیس کے اپنے نجی عقوبت خانوں میں ملزموں کو کئی روز قید میں رکھ کر رشوت ملنے پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے اور رشوت نہ ملنے پر اس پر کئی روز بعد اگر بچ جائے تو جھوٹا مقدمہ ڈال دیا جاتا ہے۔ تفتیش کے نام پر سیکشن 4 ضابطہ فوجداری کے تحت شہادتوں کو جمع کرنا ہوتا ہے۔
بغیر مقدمہ درج ہوئے تھانوں میں لوگوں کو کئی روز ناحق قید رکھا جاتا ہے جن پر تشدد آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت نہیں کیا جاسکتا مگر پولیس اہلکار پکڑے گئے شخص کو دو چار تھپڑ مارنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔ پولیس کا عوام سے رویہ ہمیشہ ذلت آمیز اور ناروا رہا ہے اور ہاتھ آجانے پر کسی کو بھی گالیاں دینا اور دو چار تھپڑ ضرور مارنا پولیس اپنا حق اولین سمجھتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی طرح وزیر اعظم نے بھی اقتدار ملنے سے قبل پولیس کی اصلاح کے بڑے دعوے کیے تھے جو صرف سیاسی تھے عملی طور پر ایک سال میں باتوں کے سوا کچھ نہیں کیا گیا اور اب بھی پولیس کی اصلاح میں تاخیر کی جا رہی ہے۔