فوجی انخلا کے معاہدے پر امریکا افغان اختلافات صدر شاید دستخط نہ کریں ترجمان کرزئی

القاعدہ کے صرف 75 ارکان سے نمٹنے کیلیے امریکا کو 10 برس تک یک طرفہ فوجی کارروائیوں اور تلاشی کی اجازت کاکوئی جواز نہیں


Net News/AFP October 03, 2013
القاعدہ کے صرف 75 ارکان سے نمٹنے کیلیے امریکا کو 10 برس تک یک طرفہ فوجی کارروائیوں اور تلاشی کی اجازت کاکوئی جواز نہیں، ترجمان کرزئی

افغانستان سے امریکی افوج کے2014 میں انخلا سے متعلق معاہدے پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

افغان صدر کے ترجمان نے عندیہ دیا ہے کہ شاید صدر کرزئی اس معاہدے پر دستخط ہی نہ کریں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے افغان صدر کے ترجمان ایمل فیضی کے حوالے سے تبایا ہے کہ شاید یہ معاہدہ اگلے برس اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج تک طے نہ پا سکے۔ صدرکرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکا اس معاہدے میں2014ء کے بعد بھی فوجی آپریشن، رات کو چھاپے اور گھروں کی تلاشی کی آزادی چاہتا ہے۔ صدرکرزئی کے ترجمان نے کہا کہ امریکا کو یک طرفہ طورپر افغانستان میں کارروائیاں کرنے کی اجازت افغانوں کوقابلِ قبول نہیں۔ ترجمان کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کے صرف75 ارکان موجود ہیں اور ان سے نمٹنے کیلیے امریکا کودس برس تک یک طرفہ طور پر فوجی کارروائیوں، رات کو چھاپوں اور گھروں کی تلاشی کی اجازت دینے کاکوئی جواز نہیں بنتا۔



دونوں ممالک کو معاہدے میں افغانستان کیخلاف ''جارحیت'' کی تشریح پر بھی اختلافات ہیں۔ افغانستان سمجھتا ہے کہ اگر بیرون ممالک سے دہشت گردوں کوافغانستان میں حملوں کیلیے بھیجا جائے تو اسے بھی افغانستان کے خلاف جارحیت تصور کیا جانا چاہیے۔ افغانستان امریکاکا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے لہٰذا افغانستان کیخلاف ''جارحیت'' کی صورت میں اس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ افغان صدر حامدکرزئی کی مدتِ صدارت 2014 میں ختم ہو رہی ہے اور وہ افغانستان کے آئین کے مطابق تیسری مرتبہ صدراتی عہدے کیلیے امیدوار نہیں ہوسکتے۔ صدارتی ترجمان نے کہا اگر موجودہ صدرامریکاکے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں اور مستقبل میں معاملات توقع کے برعکس خراب ہوجاتے ہیں تو تاریخ ان سے جواب طلب کریگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں