’’میں پاکستان میں ’سوشل ورک‘ کی پہلی ’میریٹوریس پروفیسر‘ ہوں‘‘

جامعہ کراچی میں اسلحہ چلتے اور طلبہ کی شہادت ہوتے دیکھنا افسوس ناک یاد ہے


Rizwan Tahir Mubeen September 24, 2019
ایک سال پہلے اسکوٹر چلانا سیکھی، جامعہ کراچی کی رئیس کلیہ ’فنون و سماجی علوم‘ ڈاکٹر نسر ین اسلم شاہ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

اعلیٰ عہدہ یا اختیار ملنے کے بعد اکثر لوگوں کے پاؤں زمین پر نہیں رہتے۔۔۔

بالخصوص جب ہم سرکاری ملازمتوں کی بات کریں تو کیا ایک گریڈ سے 16 اور کیا 17 گریڈ سے آخری 22 گریڈ۔۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہندسے ان کی بڑائی یا مرتبے کا نہیں، بلکہ ان کی ہواؤں میں اڑان کی خبر دے رہے ہوں۔۔۔

پھر 'حسبِ مرتبہ' ان کو باقی سب لوگ خود سے بہت چھوٹے دکھائی دینے لگتے ہیں۔۔۔ کبھی تو 'ہوا' اتنی تیز ہوتی ہے کہ انہیں یہ چھوٹے لوگ دکھائی دینے ہی بند ہو جاتے ہیں۔۔۔ یہ چلتے اگر چہ یہ زمین پر ہی ہیں۔۔۔ مگر یوں لگتا ہے کہ ان کے قدموں تلے مٹی کی دھرتی نہیں، بلکہ ستاروں بھرا آکاش رُند رہا ہے۔۔۔ پھر اس 'اونچائی' کے ساتھ معلوم نہیں ان کے چہروں پر لگی ہوئی 'کلف' اور گردن میں پڑا ہوا 'سریا' مفت ملتا ہے یا پھر یہ ان کی اپنی ذاتی 'صلاحیت' ہوتی ہے، جو 'کرسی' دیکھتے ہی ایک دم عیاں ہو جاتی ہے۔۔۔

اس لیے کسی ایرے غیرے، نتھو خیرے کو اُن کے پاس پھٹکنے کی مجال نہیں ہوتی۔۔۔ بہت ضرورت پڑنے پر بات کیجیے تو نہایت سرد لہجے اور سخت الفاظ میں ایسا ٹکا سا جواب منہ پر دے مارتے ہیں۔۔۔ کہ آدمی پھر انہیں بہت سوچ سمجھ کر ہی منہ لگاتا ہے۔ ظاہر ہے، اِن 'مسند نشینوں' کو لگتا ہے کہ اگر وہ یہ سب رویے نہیں دکھائیں گے، تو خلقت کو پتا کیسے چلے گا کہ وہ بہت 'بڑے' آدمی ہوگئے ہیں۔۔۔ لیکن کچھ افسران ترقی کے بلند ترین درجوں پر بھی حیدر علی آتشؔ کے اس شعر کے مصداق اپنے فطری انداز میں ہی دکھائی دیتے ہیں ؎

جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں

صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ

جامعہ کراچی کی 'رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم' ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کو ہم عاجزی کے اسی زمرے میں شمار کر سکتے ہیں۔ ان سے محو کلام ہوں، تو انہیں ہمیشہ بے ساختہ اور بالکل عوامی انداز میں گفتگو کرتے ہوئے پائیں۔۔۔ اردگرد کے ماحول اور سماج کے دکھ میں وہ بہت سی ایسی تلخ وترش باتیں بھی کر جاتی ہیں کہ پھر انہیں تاکید کرنا پڑتی ہے ''بچہ، یہ لکھ نہیں دینا۔۔۔!''

ڈاکٹر نسرین بتاتی ہیں کہ وہ آٹھ ستمبر 1961ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔۔۔ دو بہن اور تین بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ اُن کے والد نجی ٹھیکے دار تھے، والدہ بھی پڑھی لکھی تھیں، انہوں نے لکھنؤ سے 'سی سی ٹی' کیا ہوا تھا، جب کہ نسرین اسلم نے وسیم گرلز اسکول ناظم آباد سے 1978ء میں میٹرک کیا، پھر 'بیگم رعنا ہوم اکنامکس کالج' سے 'بی ایس سی' کے مرحلہ طے کیا۔ اس کے بعد 1983ء میں جامعہ کراچی میں شعبہ 'سماجی بہبود' میں داخلہ لیا اور 1985-86ء میں ایم اے مکمل کرلیا۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ جس زمانے میں جامعہ کراچی کی طالبہ ہوئیں، تو جامعہ کراچی میں تشدد کی شدید لہر آئے ہوئے دو برس ہو چکے تھے اور اُسی برس جنرل ضیا الحق نے 'طلبہ یونین' پر پابندی بھی عائد کر دی تھی۔ ہم نے اس حوالے سے استفسار کیا، تو ڈاکٹر نسرین نے بتایا کہ جامعہ کراچی میں طلبہ تنظیموں کے درمیان چھوٹی موٹی باتوں پر جھگڑے ہو جاتے تھے، جس میں ڈنڈوں سے لے کر کرسیاں وغیرہ تک استعمال کی جاتی تھیں، میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہاں اسلحہ بھی چلتے ہوئے دیکھا۔ 1989ء میں جامعہ کراچی میں طلبہ کی شہادت اور پھر یہاں رینجرز کی آمد وغیرہ، سب میرے سامنے کے ہی واقعات ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ طلبہ ایک دوسرے کو بے دردی سے مار دیتے ہیں، قتل وغارت کرتے ہیں اور خود کو بڑا مسلمان کہتے ہیں۔

ڈاکٹر نسرین اسلم نے بتایا کہ 1987ء میں 'پاپولیشن اسٹڈی سینٹر' میں پروفیسر ایم وائی ادھم کے زیر نگرانی اپنے 'ایم فل' کی تیاری شروع کی، ان کا موضوع ''دی سیلف ایمپلائڈ ویمن اِن پاکستان'' تھا، جس میں اپنے گھر میں رہ کر کام کرنے والی خواتین پر تحقیق کی۔ ہم نے پوچھا کہ عنوان تو پورے پاکستان کا ہے، لیکن کام آپ نے صرف کراچی ہی کی خواتین پر کیا؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کام ضرور کراچی پر کیا، لیکن اس کے ساتھ اس موضوع پر پورے پاکستان کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کا ایم فل 1994ء میں مکمل ہوا۔

اس کے بعد نسرین اسلم نے اختر حمید خان کی نگرانی میں 'پی ایچ ڈی' شروع کیا، کہتی ہیں کہ اُن کی تحقیق آخری مراحل میں تھی کہ اختر حمید خان کا انتقال ہو گیا۔ پھر ان کی جگہ پروفیسر ایس ایم خالد نے نگراں کی ذمہ داری نبھائی۔ ان کے 'پی ایچ ڈی' کا موضوع ''چینجنگ رول ویمن ان پاکستان'' تھا، جس میں انہوں نے کام کرنے والی مختلف خواتین کو اپنا معاش بہتر کرنے کے لیے 25 ہزار روپے دیے اور پھر جائزہ لیا کہ وہ اپنے کام کو کس طرح بہتر بناتی ہیں۔ اس میں سلائی کڑھائی کے کام سے لے کر جینز اور جیکٹ وغیرہ سینے، منہدی کی تیاری، پلاسٹک مولڈنگ مشین، قالین بنانے سے لے کر ہر وہ کام کرنے والی ہنر مند خواتین تھیں، جو کہ عام طور پر مرد کر رہے ہیں۔ 'پی ایچ ڈی' کا مرحلہ 2002ء میں طے ہوا۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ بتاتی ہیں کہ وہ 1988ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ 'سماجی بہبود' میں لیکچرر منتخب ہوگئیں۔ اس کے بعد 1997ء میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر 2001ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئیں۔ 2005ء میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔ 2003ء سے جامعہ کراچی کے 'ویمن اسٹڈی سینٹر' کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے شعبۂ 'سماجی بہبود' میں اپنا 'ایم فل' اور 'پی ایچ ڈی' کیا، وہ 'پروفیسر' کے لیے اپلائی کر چکی تھیں کہ اس دوران ''ویمن اسٹڈی سینٹر'' کے ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں بھی تفویض ہوگئیں۔ 2014ء میں وہ ''میریٹوریس پروفیسر'' (Meritorious Professor) بن گئیں۔

اُن کے بقول جامعہ کراچی میں ساڑھے سات سو اساتذہ میں یہ اعزاز صرف آٹھ سے دس اساتذہ ہی کے پاس ہے، جس میں 'کلیہ فنون' میں وہ واحد 'میریٹوریس پروفیسر' ہیں۔ یہ اعزاز تحقیق کے میدان میں ایک طے شدہ پیمانے پر پورا اترنے کے بعد عطا کیا جاتا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ پورے ملک میں 'سماجی بہبود' میں پہلی 'میریٹوریس پروفیسر' ہیں، اس اعزاز کے بعد انہیں 21 گریڈ سے 22 گریڈ میں ترقی دے دی گئی۔ وہ 2014ء تا 2016ء شعبہ 'سماجی بہبود' کی چئیر پرسن بھی رہیں۔ 24 دسمبر 2018ء کو جامعہ کراچی میں 'رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم' بن گئیں، اِن دنوں 'کلیہ قانون' کی بھی قائم مقام 'رئیس' ہیں۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے گفتگو کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ بچپن سے ہی دو پہیوں کی سائیکل چلا رہی ہیں، لیکن اب ایک برس پہلے اسکوٹر بھی چلانا سیکھ لی ہے۔۔۔

تصنیف وتالیف کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اُن کی اب تک لگ بھگ درجن بھر کتابیں آچکی ہیں۔ 'پی ایچ ڈی' کا مقالہ 2013ء میں شایع ہوا اور آن لائن بھی موجود ہے۔ ''سیلف ایمپلائڈ ویمن ایک جائزہ'' کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک سیمینار کے احوال کو بھی کتابی صورت دی۔ 'ہائر ایجوکیشن کمیشن' کی جانب سے 2005ء میں ساڑھے دس لاکھ گرانٹ ملی، جس کے بعد انہوں نے کراچی کے 18 ٹاؤن سے 18 سو خواتین کا ڈیٹا جمع کیا، اس کام میں ساڑھے چار سال لگے۔ اس تحقیق پر جامعہ کراچی کے شعبہ 'سماجی بہبود' کے ڈاکٹر ندیم اللہ اور ڈاکٹر محمد فیصل ضیا نے 'پی ایچ ڈی' کیا۔ اس ڈائریکٹری میں تمام خواتین کا ڈیٹا جمع کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی ایک کتاب بہ عنوان ''کراچی کے نو عمر محنت کش بچے'' 2011ء میں شایع ہوئی۔ 2012ء میں 'ایچ ای سی' کی گرانٹ ملنے کے بعد ''کونسلر خواتین''، ''گرل چائلڈ'' اور ''خواتین اور مزارات'' کے موضوعات پر تحقیق کرائی۔ ایک کتاب 'ہوم بیسڈ ویمن ورکرز ان کراچی'' 2015ء میں ہائر ایجوکشن کے تعاون سے شایع ہوئی۔ کراچی اور ٹھٹھہ کے مزارات کے حوالے سے ان کی کتاب 2016ء میں 'صوفی خواتین کا ایک جائزہ' بھی منصۂ شہود پر آئی۔ اب اس پر مزید کام شروع کر رہی ہیں۔

''خواتین کے حوالے سے تحقیق میں ان مسائل کے لیے کیا حل ملا؟''

ہمارے ذہن میں یہ ساری تفصیل سنتے ہوئے یہ سوال اٹھا، وہ کہتی ہیں کہ اس تحقیق میں بہت سی نئی چیزیں بھی آشکار ہوئیں، جس پر خواتین کے مسائل کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بہت چھوٹے بچوں سے مشقت لی جاتی ہے، بغیر کسی حفاظتی اقدام کے قالین بنانے کا کام لیا جاتا ہے، جس سے وہ سانس کے مہلک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اسی طرح بچے بغیر کالا چشمہ پہنے ویلڈنگ کر رہے ہوتے ہیں، یہ نہایت خطرناک طریقہ ہے۔ بڑے پیمانے پر محنت کش بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ کفالت کی بھی ضرورت ہے۔

''آپ کے موضوعات زیادہ تر خواتین کے معاشی امور یا گھر سے باہر خواتین کے حوالے سے ہیں، آپ نے گھریلو یا خانگی مسائل پر توجہ کیوں نہیں دی؟'' ہم نے انہیں کریدا، جس پر وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے گھریلو خواتین کے حوالے سے بھی بہت سے منصوبوں پر کام کیا ہے، جس میں 'ویمن اسٹڈی سینٹر' کے تحت 'یونیسف' (UNICEF) کے تعاون سے مصیبت زدہ خاندانوں کے علاوہ کچی آبادیوں میں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بھی خاصی سرگرم رہیں۔ کہتی ہیں کہ ہم کراچی میں لیاری، اورنگی اور کھوڑی گارڈن وغیرہ جیسی قدیم اور پس ماندہ بستیوں میں بھی مستقل کام کر رہے ہیں۔

ہم نے پوچھا کہ آپ کی نظر میں آج کل کی خواتین یا لڑکیوں کا بڑا مسئلہ کیا ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ اُن کی شادی کا ہے۔۔۔! اس وقت بہت بڑی تعداد میں غیر شادی شدہ جوان لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں کو سنبھال رہی ہے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے بہتر مستقبل کے لیے شادی نہیں کی۔ کراچی میں اب مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

''اس کی وجہ کیا ہے؟''

ہمارے اس سوال پر ڈاکٹر نسرین اسلم نے خیال ظاہر کیا کہ لڑکیاں ٹیوشن وغیرہ کر کے اپنے تعلیمی اور معاشی مسائل دونوں سے ہی نمٹ لیتی ہیں، جب کہ نوجوان معاشی مجبوریوں کے سبب دو، دو نوکریاں کر کے اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں اور ان کی تعلیم متاثر ہو جاتی ہے

''تعلیم کا یا صنفی عدم توازن ہمارے سماج مین بگاڑ کا باعث بن رہا ہے؟''

اس استفسار پر وہ بولیں کہ جامعہ کراچی میں اب لڑکیوں کا تناسب 70 فی صد تک پہنچ گیا ہے، اس عدم توازن سے مختلف طرح کے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جب کہ آبادی میں مرد و خواتین کا تناسب تقریباً برابر ہی ہے، جب کہ 18 تا 30 سال کی عمر کے افراد کُل آبادی کا 64 فی صد بنتے ہیں۔

وہ لڑکیوں کے لیے شادی کی مناسب عمر 25 سال قرار دیتی ہیں، کہ ورنہ پھر اُن کی زائد عمر پر اعتراض کیے جانے لگتے ہیں۔ اس لیے والدین کو مناسب رشتے دیکھ کر اس عمر تک بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کر دینے چاہئیں۔

ملک میں'سماجی علوم' (سوشل سائنسز) سے بے اعتنائی کا ذکر ہوا تو ڈاکٹر نسرین نے بتایا کہ 'اعلیٰ تعلیمی کمیشن' کی طرف سے خالص سائنس کے مقابلے میں سوشل سائنسز کے شعبہ جات کو گرانٹ بھی کم دی جاتی ہے۔ معاشرے میں سماجی علوم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اعلیٰ سطح پر اِسے اہمیت دینا ہوگی۔ 14 نومبر 2019ء کو سماجی علوم کے کردار کے حوالے سے جامعہ کراچی میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی۔ تعلیم کی کمی کو وہ ہمارے ملک کا بڑا سماجی مسئلہ گردانتی ہیں، اس کے بعد روزگار کے حصول کے لیے اہلیت کے بہ جائے سفارش کا چلن بھی اُن کے خیال میں ایک اہم سماجی مسئلہ ہے، پھر ہمارے لوگ منتخب ہونے کے بعد اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرنے سے بھی غفلت برتتے ہیں، یہ رویہ بھی توجہ طلب ہے۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ جامعہ کراچی میں ہی رہائش پذیر ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ علی الصبح چار بجے بیدار ہوتی ہیں۔ چھے بجے آدھے گھنٹے کی چہل قدمی ان کے معمولات کا حصہ ہے، جس کے بعد ہی وہ ناشتا کرتی ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے لیے ایک بجے اور رات کے کھانے کے لیے ٹھیک ساڑھے سات بجے کا وقت طے شدہ ہے۔ آخر میں ہم نے اُن کی شخصیت کو منفرد بناتے ہوئے اُن کے بالوں کی مخصوص تراش کا سوال بھی کر ڈالا، تو انہوں نے انکشاف کیا کہ پندرہ، بیس برس قبل انہوں نے یہ انداز اپنایا، ورنہ پہلے ان کے بھی لمبے بال تھے اور وہ دو چوٹیاں بھی کرتی رہی ہیں۔ پھر انہیں چھوٹے بالوں کا یہ انداز اچھا لگا اور لوگوں نے بھی سراہا، چناں چہ پھر اِس انداز کو ہی مستقل اپنا لیا۔

روزانہ کے ''فلاحی دسترخوان'' کا سلسلہ درست نہیں۔۔۔!
ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کہتی ہیں کہ اِن کی ایک تحقیقی کتاب ''کراچی کی گداگر لڑکیاں'' 2004ء میں شایع ہوئی۔ جس میں کی گئی تحقیق میں پتا چلا کہ بھیک مانگنے والی بچیوں کے ساتھ جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں، پھر ان گداگر خواتین کو ہراساں بھی کیا جاتا ہے اور زیادتی کے واقعات بھی پیش آتے ہیںِ، زیادہ تر خواتین کا تعلق ملک کے دور دراز کے پس ماندہ علاقوں سے ہوتا ہے۔

ہم نے خواتین کی گداگری کی وجوہات کا پوچھا، تو ڈاکٹر نسرین بولیں کہ 'یہ بہت سی خواتین خاندانی طور پر اسی کام میں لگی ہوئی ہیں، اِن کے والدین انہیں بھی اپنے اسی میں لگا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ محنت سے بھی گھبراتے ہیں، اس لیے وہ گداگری کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔'

کراچی میں سڑکوں کے کنارے پر مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے صبح و شام جاری دسترخوانوں کے حوالے سے ڈاکٹر نسرین اسلم نے کہا کہ میں اس طریقے کے سخت خلاف ہوں۔۔۔ میں نے خود دیکھا کہ بہت سے اچھے گھرانوں کے لوگ اسکوٹروں پر آکر بھی یہاں بیٹھ کر کھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے آج تک کسی کو بھوکا مرتے ہوئے دیکھا؟ وہ کہیں نہ کہیں سے کھا ہی لیتا ہے، لیکن یہاں شور شرابا ہوتا ہے کہ دیکھیں آج یہاں پائے پک رہے ہیں، آج کلیجی پکائی جا رہی ہے۔ پورے رمضان یہ نمائش جاری رہی کہ ہم نے اتنے لوگوں کو کھانا کھلایا، جسے دیکھ کر افسوس ہوا۔ اپنے کام کی کچھ نہ کچھ تشہیر ضرور کریں، لیکن یہ ڈھنڈورا پیٹنا بالکل درست نہیں، حکم تو یہ ہے کہ اس طرح خرچ کرو کہ ایک ہاتھ سے دو، تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔

میں ایسے دستر خوان چلانے والے اداروں کو مشورہ دوں گی کہ وہ اسے فی الفور بند کر دیں! کیوں کہ اس طریقے سے آپ ملک میں ایک اور برائی پیدا کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت 'سماجی سائنس دان' میں اس طریقے کو غلط سمجھتی ہوں۔ ضروری ہے کہ آپ انہیں پہلے بٹھا کر کام کرائیں، اِن سے درخت اور پودے وغیرہ لگوائیں اور انہیں سماج کا ایک کار آمد فرد بنائیں۔ انہیں خود کفیل کرنے کے لیے کوئی چھوٹا سا 'کھوکھا' کھول کر دے دیں، جس میں ایک دفع سامان بھی دلوا دیں۔ ہم نے جامعہ کراچی میں پستہ قامت افراد کے لیے ایسی چھوٹی دکانوں کا کام یاب تجربہ کیا ہے، ایک بار انہیں سامان لے کر دے دیا، اب وہ اپنی دکان خود چلا رہے ہیں۔



میں تو گداگروں کو بھی پیسے دینے کے خلاف ہوں۔ کوئی ہاتھ پھیلاتا ہے تو میں ان سے کام کا کہتی ہوں، وہ کام کا سن کر فوراً بھاگ جاتے ہیں۔ جب تک ہم سب یہ طریقۂ کار نہیں آپنائیں گے، ہمارے سماج سے گداگری کی لعنت ختم نہیں ہو سکتی۔ ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے زمانے میں گداگری کے خلاف ایک مہم چلی، لیکن شاید ٹھیک سے کام نہ ہو سکا، ورنہ آج صورت حال بہتر ہو جاتی۔ اسی طرح ہمارے سماج میں خواجہ سرائوں کو بہت تضحیک اور ہنسی مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ہمیں انہیں بھی بہتری اور کام کی طرف لانا چاہیے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ''کراچی اسٹڈیز سوسائٹی'' کو وقت دوں گی
ڈاکٹر نسرین کہتی ہیں کہ زمانہ طالب علمی سے اب تک کسی بھی سیاسی تنظیم سے وابستہ نہیں رہی، لیکن میں کراچی کی ہوں، تو اس لیے میری سوچ 'کراچی والی' ہے۔ ایک زمانے تک میں 'ایم کیو ایم' کی حمایت ضرور کرتی رہی، لیکن بہ حیثیت ایک استاد اپنے تدریس کے پورے 31 سال کے دوران کوئی مجھے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کبھی کسی طالب علم کے ساتھ کبھی کوئی جانب داری برتی ہو۔ میرے سب طالب علم میرے لیے برابر رہے ہیں۔

ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ اپنی جنم بھومی کراچی سے اپنے والہانہ لگائو کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ کراچی پر تحقیق کروں اور اس حوالے سے لوگوں کو بتائوں۔ میری ایک کتاب 'شہروں میں شہر کراچی ایک مطالعاتی جائزہ' اگلے برس تک آجائے گی۔ اب تک زندگی میں صرف تین ماہ کے لیے کراچی کو خود سے الگ کیا۔ اس دوران لاہور، کوئٹہ، پشاور، سیال کوٹ، مری اور دبئی وغیرہ گئی۔۔۔ 15 دن کے لیے ہندوستان بھی گئی، جہاں آبائی علاقے سلطان پور اور لکھنئو وغیرہ کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے گزشتہ برس ''کراچی اسٹڈیز سوسائٹی'' قائم کی اور اسے 'ڈائریکٹر آف سوشل ویلفیئر' میں رجسٹر بھی کرایا۔

اس سوسائٹی کے تحت اب وہ کراچی سے متعلق تمام ضروری مواد جمع کر رہی ہیں۔ جس میں اب تک 'شہر قائد' پر لکھی گئی 125 انگریزی اور 60 اردو کتب ذخیرہ کرچکی ہیں، جس میں یاسمین لاری، عارف حسن، رشید جمال، اقبال یوسف، اسامہ قادری اور احمد حسن وغیرہ کی کتب شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کے مختلف نقشے، اہم اخباری تراشے، خبریں اور دیگر بہت سا ضروری مواد بھی اکھٹا کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں کہ 2021ء میں ریٹائر ہو کر 'کراچی اسٹڈیز سوسائٹی' میں اس حوالے سے تحقیق کروں گی، اس کے لیے ناظم آباد، کراچی میں ایک دفتر بھی لے لیا ہے۔

''اپنے ڈاک ٹکٹ اور سکّوں وغیرہ کی نمائش دوبارہ کرانا چاہتی ہوں''
ڈاکٹر نسرین نے بتایا کہ یوم آزادی کے حوالے سے انہوں نے آرٹسٹ شہزاد سے 'ٹرک آرٹ' سے مزیّن ایک 'آزادی جیپ' بھی تیار کرائی، جسے بہت پسند کیا گیا، اس کے علاوہ وہ ڈاک ٹکٹ اور سکے وغیرہ جمع کرنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ مختلف طرح کے پوسٹ کارڈوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ پاکستان سے متعلق لاتعداد بیجز، چوڑیاں، کی چین وغیرہ بھی جمع کی ہوئی ہیں۔ اس کی جامعہ کراچی میں نمائش بھی کراچکیں، اب دوبارہ خواہش کہ ایسی نمائش سجائیں۔

اپنی شادی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 1997ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئیں۔ شریک حیات کا انتخاب اُن کی پسند کا ہے، اُن کے شوہر پروفیسر محمد اسلم شاہ بھی جامعہ کراچی میں شعبہ 'سماجی بہبود' سے وابستہ رہے اور رواں برس تدریس سے سبک دوش ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ انہوں نے 2003ء میں 'انجمن ترقی نسواں' بنائی، جس کے تحت خواتین کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں