افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بلیک اکانومی کا بڑا سبب درآمدی مال کا بڑا حصہ پاکستان میں بکنے کا انکشاف

5برسوں میں 22 کروڑ آبادی والے پاکستان کی سالانہ امپورٹ 45 سے60 ارب، ڈھائی کروڑ آبادی والے افغانستان کی 44 ارب ڈالررہی


رضوان آصف September 24, 2019
سرحدی نگرانی موثربنائی جائے،ایف بی آرکی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

ایف بی آر کے زیر انتظام ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ افغان ٹرانزٹ اور افغان امپورٹ براہ راست پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ڈال رہی ہے اور پاکستان میں موجود بلیک اکانومی کا بنیادی جزو یہی ہے۔

افغانستان اپنے حجم سے کئی گنا زیادہ مال درآمد کرتا ہے اور دانستہ طور پرعالمی اداروں کو اپنی امپورٹ کا مکمل اور درست ڈیٹا فراہم نہیں کر رہا ۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کو افغانستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیلات میں امپورٹ کا مالیاتی حجم کئی گنا کم ظاہر کیا جاتا ہے تاکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اسمگلنگ کے حوالے سے افغانستان پر عائد کیے جانے والے اعتراضات کو غیر موثر بنایا جا سکے۔

رواں برس پاکستان میں سے گزرنے والے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کی افغان حکومت نے ڈیکلیئر امپورٹ ویلیو 14.8 ارب ڈالر ظاہر کی ہے جبکہ پاکستانی ویلیو ایشن فریم ورک کے تحت اس امپورٹ کی ویلیو 44.4 ارب ڈالر بنتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بازاروں میں سمگل شدہ اشیاء کی روک تھام سے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد''زیرو لائن'' پر انسداد اسمگلنگ کیلیے کسٹم ،رینجرز ،کوسٹل گارڈز اور افواج پاکستان کے موثر اشتراک کے ساتھ سخت ترین اقدامات کیئے جائیں اور بڑے شہروں میں قائم ''باڑہ مارکیٹ'' کو فوری طور پر ختم کیا جائے جہاں اربوں روپے مالیت کا اسمگل شدہ سامان فروخت ہو رہا ہے،بوگس سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور امپورٹ لائسنس کی روک تھام کیلئے نیا میکنزم بنایا جائے۔

رپورٹ میں گڈز ڈیکلیریشن اور ڈیوٹی اسیسمنٹ کے نظام سمیت انسداد اسمگلنگ کے لئے پاکستانی نظام کے غیر موثر ہونے کی جانب نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل چیئرمین ایف بی آر نے ملک بھر کے کسٹم افسروں کے ساتھ ایک اہم ویڈیو کانفرنس کی تھی جس کا مقصد سمگلنگ کی روک تھام کرنا تھا۔

اس کانفرنس کے دوران متعدد سینئر افسروں نے چیئرمین ایف بی آر کو اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بالخصوص اور افغانستان کی مجموعی امپورٹس بالعموم پاکستان میں اسمگلنگ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان کی بلیک اکانومی موجود ہے۔ جب تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جاتا تب تک ملکی معیشت درست نہیں ہو سکتی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اپنی مجموعی امپورٹ کا 28 فیصد پاکستان میں طورخم اور چمن کے راستے امپورٹ کرتا ہے جبکہ 37 فیصد امپورٹ ایران کے علاقہ اسلام قلعہ کے ذریعے ہوتی ہے اور 26 فیصد افغانی امپورٹ ازبکستان کے ذریعے کی جاتی ہے۔

حیران کن طور پر افغان اتھارٹیز پاکستان کسٹمز کو ٹرانزٹ سامان کی جو مالیت باضابطہ طور پر بتاتی ہے وہ اصل مالیت سے تین گنا کم ہوتی ہے جیسا کہ2016 ء میں افغانستان نے پاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ کی مجموعی امپورٹ مالیت 0.82 ارب ڈالر بتائی جبکہ پاکستان کسٹم ویلیو ایشن ٹیبل کے مطابق اصل مالیت 2.9 ارب ڈالر تھی۔

18۔2017ء میں مالیت 1.1 ارب ڈالر ظاہر کی گئی جو پاکستانی ویلیو ایشن ٹیبل کے مطابق 3.3 ارب ڈالر تھی۔ اسی طرح19۔2018ء میں افغانستان نے امپورٹ مالیت 2.34 ارب ڈالر ظاہر کی تھی لیکن پاکستان ویلیو ایشن ٹیبل کی اصل مالیت 5.33 ارب ڈالر ہے۔ رپورٹ میں اس جانب بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ افغانستان عالمی اداروں کو اپنی مجموعی امپورٹ کی مالیت کم ظاہر کر کے ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان جو اشیاء امپورٹ کر رہا ہے وہ افغانستان کے کاروباری اور معاشرتی نظام کی ضروریات کے مطابق نہیں، ان کا بڑا حصہ پاکستان میں اسمگل کیا جارہا ہے۔22 کروڑ آبادی والے پاکستان کی سالانہ امپورٹ گزشتہ پانچ برسوں میں 45 سے60 ارب ڈالر رہی ہے جبکہ ڈھائی کروڈ آبادی والے افغانستان کی 2012 ء سے 2017 تک امپورٹ 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی اور 2018 میں یہ 44 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔

ڈی جی ٹرانزٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹا کے تجزیہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سرحدی مقامات اور کوسٹل ایریاز میں کمزور انتظامی گرفت کی وجہ سے افغان امپورٹ اور پاکستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان اور ایران سے پٹرولیم مصنوعات سمگل ہو کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ حکومت نے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور بلیک اکانومی کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ پہلی مرتبہ انسداد سمگلنگ کیلئے اعلی ترین سطح پر ملک گیر مہم شروع کی گئی ہے جس میں تمام متعلقہ ادارے وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔

''ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر لاہور چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور اینٹی اسمگلنگ کمیٹی کے سربراہ فہیم الرحمن سہگل نے کہا کہ مقامی انڈسٹری کو مضبوط بنانے کیلیے اسمگلنگ روکنا اشد ضروری ہے اور سمگلنگ روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سرحدوں پر اسے روکا جائے۔ بازاروں اور سڑکوں پر چھاپے مارنے سے سمگلنگ نہیں روکی جا سکتی،اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو امپورٹ ڈیوٹیز کی شرح کم کرنا چاہئے کیونکہ جب ڈیوٹی بڑھتی ہے تو اسمگلنگ بڑھ جاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں