پٹرول کی قیمتیں کم کریں تو نوٹ چھاپنے پڑیں گے شاہد خاقان
عالمی منڈی میں پٹرول 4 فیصد مہنگا ہوا، یہاں نرخ 14 فیصد کیوں بڑھائے گئے؟ فرخ سلیم
وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اوگرا کرتی ہے، وزارت پٹرولیم کا بنیادی کام پٹرولیم کی تلاش اور اپنی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنا ہے۔
ٹرانسمیشن نیٹ ورک اور ڈسٹری بیوشن میں بہت سے مسائل ہیں، ان کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ ہرنظام میں خرابیاں ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے دور میں خرابیاں بہت ہی زیادہ ہیں۔ بجٹ میں ایک شق ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مد میں اتنے فیصد کمائی کی جائیگی، اگر پٹرول کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں تو نوٹ چھاپنے پڑیں گے۔ گیس اور بجلی کی چوری روکنے کے لیے موجودہ حکومت نے جو کچھ کیا وہ کسی اور حکومت نے نہیں کیا۔ سرکلر ڈیٹ دینے سے قبل آڈٹ کیا گیا تھا، یہ تاثر غلط ہے کہ آڈٹ نہیں کیا گیا۔ پی ایس او جو سودے کرتی ہے اس کا کروڈ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہم تیل باہر سے لیتے ہیں، ڈالر کی قیمت سودے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیوں کا تفصیلی آڈٹ ابھی تک نہیں ہوا جو ہونا بہت ہی ضروری ہے۔
پیداواری کمپنیوں کا آڈٹ ہوتا ہے تو وہ بھی بہت سے اعتراضات اٹھاسکتی ہیں کہ ہمیں فرنس آئل صحیح نہیں مل رہا۔ تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ میرے دوسوال ہیں، کوئی بھی حکومتی عہدیدار ان کا جواب دے، پہلا یہ کہ5جون کو نوازشریف نے بطوروزیراعظم حلف اٹھایا اس وقت سے اب تک عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں4 فیصد اضافہ ہوالیکن پاکستان میں14 فیصد تک اضافہ کیوں ہوا، دوسرا سوال یہ کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گری تو ہمارے ہاں کم کیوں نہیں کی گئی۔ بحران سے نکلنے کے بہت سے حل موجود ہیں، سب سے بہتر حل یہ ہے کہ کوئی خرچہ کئے بغیر بجلی کی پیداواری کمپنیوں کا آڈٹ کیا جائے، ان سے پوچھا جائے کہ جو تیل ہم ان کو دیتے ہیں کیا وہ اس کی بنیاد پر ہمیں درست مقدار میں بجلی دے رہی ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹرزکی بجلی چوری کی طرف کوئی توجہ نہیںکررہا۔ بجلی کی2درجن پیداواری کمپنیوں نے حکومت کی توانائیوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نیپرا میں قابل افسران کو لگانا ہوگا، آڈٹ کیا جائے تو بجلی کی پیداوا ر میں 22 فیصد تک اضافہ ہوسکتاہے، بیشک انفراسٹرکچر پرانا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کا جینا اور مشکل کردیا جائے۔سابق وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ کوئی حل نہیں کہ ہر کام پچھلی حکومت پر ڈالا جائے، جب ہم آئے تو افراط زر 25فیصد تھا، حکومت چھوڑی تو8 فیصد تھا مگر 3 ماہ میں25 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔ حکومت کی پالیسیاں سنجیدہ نہیں ہیں۔ سارے نظام کو بریک کرکے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ڈسکوز کو پرائیوٹائز کرکے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ٹرانسمیشن نیٹ ورک اور ڈسٹری بیوشن میں بہت سے مسائل ہیں، ان کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں میزبان جاوید چوہدری سے گفتگو میں انہوں نے کہاکہ ہرنظام میں خرابیاں ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے دور میں خرابیاں بہت ہی زیادہ ہیں۔ بجٹ میں ایک شق ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی مد میں اتنے فیصد کمائی کی جائیگی، اگر پٹرول کی قیمتیں کم کی جاتی ہیں تو نوٹ چھاپنے پڑیں گے۔ گیس اور بجلی کی چوری روکنے کے لیے موجودہ حکومت نے جو کچھ کیا وہ کسی اور حکومت نے نہیں کیا۔ سرکلر ڈیٹ دینے سے قبل آڈٹ کیا گیا تھا، یہ تاثر غلط ہے کہ آڈٹ نہیں کیا گیا۔ پی ایس او جو سودے کرتی ہے اس کا کروڈ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہم تیل باہر سے لیتے ہیں، ڈالر کی قیمت سودے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ بجلی پیداواری کمپنیوں کا تفصیلی آڈٹ ابھی تک نہیں ہوا جو ہونا بہت ہی ضروری ہے۔
پیداواری کمپنیوں کا آڈٹ ہوتا ہے تو وہ بھی بہت سے اعتراضات اٹھاسکتی ہیں کہ ہمیں فرنس آئل صحیح نہیں مل رہا۔ تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ میرے دوسوال ہیں، کوئی بھی حکومتی عہدیدار ان کا جواب دے، پہلا یہ کہ5جون کو نوازشریف نے بطوروزیراعظم حلف اٹھایا اس وقت سے اب تک عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں4 فیصد اضافہ ہوالیکن پاکستان میں14 فیصد تک اضافہ کیوں ہوا، دوسرا سوال یہ کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گری تو ہمارے ہاں کم کیوں نہیں کی گئی۔ بحران سے نکلنے کے بہت سے حل موجود ہیں، سب سے بہتر حل یہ ہے کہ کوئی خرچہ کئے بغیر بجلی کی پیداواری کمپنیوں کا آڈٹ کیا جائے، ان سے پوچھا جائے کہ جو تیل ہم ان کو دیتے ہیں کیا وہ اس کی بنیاد پر ہمیں درست مقدار میں بجلی دے رہی ہیں۔
پرائیویٹ سیکٹرزکی بجلی چوری کی طرف کوئی توجہ نہیںکررہا۔ بجلی کی2درجن پیداواری کمپنیوں نے حکومت کی توانائیوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ نیپرا میں قابل افسران کو لگانا ہوگا، آڈٹ کیا جائے تو بجلی کی پیداوا ر میں 22 فیصد تک اضافہ ہوسکتاہے، بیشک انفراسٹرکچر پرانا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غریب کا جینا اور مشکل کردیا جائے۔سابق وزیرخزانہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ کوئی حل نہیں کہ ہر کام پچھلی حکومت پر ڈالا جائے، جب ہم آئے تو افراط زر 25فیصد تھا، حکومت چھوڑی تو8 فیصد تھا مگر 3 ماہ میں25 فیصد سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔ حکومت کی پالیسیاں سنجیدہ نہیں ہیں۔ سارے نظام کو بریک کرکے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، ڈسکوز کو پرائیوٹائز کرکے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔