ٹرمپ عمران ملاقات کوئی بریک تھرو
وزیراعظم کے مطابق مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں، لاکھوں کشمیری محصور ہیں، یو این او اپنا کردار ادا کرے۔
نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے کے لیے مودی سے کہوںگا، وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باضابطہ باہمی ملاقات سے قبل مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے میڈیا نمائندوں کے سوالات کے جواب دیے۔
وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں بات چیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے سیاق و سباق میں پیشرفت ہے، صدر ٹرمپ نے ایک بار مسئلہ کشمیرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، بہت پیچیدہ معاملہ ہے مگر اپنی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کیا اور کہا کہ دونوں ملک راضی ہو جائیںتو میں ثالثی کے لیے تیار ہوں، ایک دلچسپ پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے بحران اور سعودی عرب، ایران تنازع کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کو ایران سے ثالثی کا مینڈیٹ بھی دے دیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر میں المیہ جنم لے چکا ہے، امریکا بطور طاقتور ملک کردار ادا کرے، ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کئی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ امریکا کی پاکستان کی ساتھ تجارت بہت کم ہے۔ ہماری دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور دیگر امور پر بات ہو گی۔ میں اپنے دوست عمران خان کو دورہ امریکا پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
امریکی صدرٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر بہت پیچیدہ معاملہ ہے جو بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اگر دونوں لیڈرکہتے ہیںکہ کچھ نکات پر ہم ایک ہیں تو میں بہت اچھا ثالث ثابت ہوں گا، ناکام نہیں ہوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت اچھی مددکر سکتا ہوں لیکن ضروری ہے کہ دوسرا فریق بھی راضی ہو۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ نے اپنا وزن مودی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے،اپنا بیانیہ بھی دے دیا ہے اس لیے آیندہ چند روز وزیراعظم عمران کے لیے ایک مشکل چیلنج سے نمٹنے کی سب سے بڑی آزمائش کے ہونگے۔
عمران کو مودی ٹرمپ شراکت داری کو توڑنے کا ہرکولین ٹاسک انجام دینا ہو گا، صدر ٹرمپ کا یہ کہنا معنیٰ خیز تھا کہ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ہیوسٹن میں ہونے والے جلسے میں بہت جارحانہ زبان استعمال کی اور ہال میں موجود ہزاروں لوگوں تک اپنا پیغام کافی جارحانہ انداز میں پہنچایا لیکن دوسری جانب یہ کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک عظیم لیڈر ہیں جو ان حالات میں بھی امن کی بات کر رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ نے کشمیریوں کے لیے تھوڑی سی ریلیف کی بات تک نہیں کی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ امریکا ایک طاقتور ملک ہے، اسے کشمیرکے معاملے پر اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم زبان غیر سے ''شرح آرزو''کی صدر ٹرمپ سے توقع رکھتے تھے۔ ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں مودی سے کشمیریوں پر جاری مظالم کے خاتمہ اور اور کرفیو اٹھانے کی فوری کمٹمنٹ سے بھی گریز کیا اور ''ان سے کہوں گا'' میں مودی کی تقدیم کو سامنے رکھا ۔ لہذا اب گیند اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چلی گئی ہے جہاں عمران خان کو ایک بہ انداز دگر شہسوار کے طور پر کشمیر کی جنگ لڑنا ہو گی ۔ یاد رہے بلوم برگ گلوبل بزنس فورم میں مودی کلیدی اسپیکر ہوںگے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ میں افغان مسئلے پر بھی صدر ٹرمپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔
پاکستان کا استحکام، افغانستان کے استحکام سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں استحکام خطے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے کردارکی تعریف کی اور کہا کہ ان دنوں بہت سے ممالک امریکی صدر سے ملنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن پاکستان ان ممالک میں سے ہے جن کی قیادت سے میں ملنا چاہتا تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ سابق امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم عمران خان خطے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے مودی اور عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، میں وزیراعظم عمران خان پر اعتمادکرتا ہوں، عمران خان بہترین وزیراعظم اور میرے اچھے دوست ہیں۔ نیویارک میں بہت اچھے پاکستانی دوست بھی ہیں جو اچھے مذاکرات کار ہیں ۔ زیب داستاں کے طور پر ٹرمپ نے مزید کہا کہ مجھ سے قبل امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سوال پرکہا میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے برابرکا سلوک کیا جائے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن میرے نمبر ون دوست ، اسمارٹ اورٹف ہیں، ایران کی جوہری ڈیل کی معیاد ختم ہونے والی تھی اور بورس جانسن دوسری ڈیل چاہتے ہیں۔
ادھر فارن ریلیشنز کونسل سے گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ امریکا کو افغانستان سے اب نکل جانا چاہیے، امریکی جنگ میں شامل ہونا پاکستان کی غلطی تھی، پہلے امریکا نے طالبان کو مجاہدین کہا اور پھر انھیں دہشتگرد قرار دیا، عمران نے کہا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں، امریکا 19 سال جنگ لڑ چکا، اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانیوں نے جانیں نثار کیں،200ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان ہوا، وزیراعظم کو چینی ماڈل یاد رہا ان کا کہنا تھا کہ یہ چینی ترقی کا ماڈل ہے، ان کی طرح حکم کا اختیار ہو تو پاکستان سے کرپشن اور غربت کا خاتمہ کرسکتا ہوں۔
آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی وجہ بھی عمراں نے معیشت کی زبوں حالی بتائی۔لیکن اب ایک مرحلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کا ہے، اس کی سائید لائنز پر ٹرمپ سے عمران مودی ملاقات کا ٹریلر ابھی باقی ہے۔ عمران خان نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور اردوان اور چینی وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں، روس کے خلاف جہادکرنے والوں کو نائن الیون کے بعد بے یارومددگار چھوڑنے پر امریکا پر تنقید کی۔
وزیراعظم کے مطابق مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں، لاکھوں کشمیری محصور ہیں، یو این او اپنا کردار ادا کرے۔ ایک امریکی رپورٹ نے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے، رپورٹ کے مطابق مسئلہ کشمیر انسانی حقوق کونسل ایجنڈے پر ہونے کے باوجود پاکستان قرارداد کے لیے سولہ ممالک جمع نہیں کر سکا، یہ طعنہ رپورٹ میں درپردہ اوربلاواسطہ عالم عرب اور مسلم امہ کے باب میں دیا گیا ۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو جواب دینا ہو گا کہ UNCHR میں ممکنہ حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکے۔
ادھر اپوزیشن نے ملک کی داخلی صورتحال اور حکومت کی اپوزیشن کے خلاف احتساب کی انتقامی کارروائی کے الزام کے تناظر میں کشمیر کاز کے لیے حکومت کی فاتحانہ پیش قدمی پر چوٹ کی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں محاصرے کا 50 واں دن بھی گزر گیا، مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے، قابض انتظامیہ کے مطابق اسکول کھلے ہیں مگر خوف سے کون سامنے آئے، مواصلاتی ذرائع معطل ہیں، کوئی ریلیف عالمی ضمیر کی طرف سے نہیںملی، یاسین ملک و دیگر کے لیے چارج شیٹ تیار ہے ، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے گیدڑ بھپکی دی ہے کہ پاکستان 65ء اور 71ء کی غلطی نہ دہرائے۔ لوگ ایل او سی پار کرنے کو بے تاب ہیں، کشمیر کا لاوا پک رہا ہے۔ اب دیکھیے کیا ہو۔
وزیر اعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں بات چیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے سیاق و سباق میں پیشرفت ہے، صدر ٹرمپ نے ایک بار مسئلہ کشمیرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، بہت پیچیدہ معاملہ ہے مگر اپنی طرف سے ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کیا اور کہا کہ دونوں ملک راضی ہو جائیںتو میں ثالثی کے لیے تیار ہوں، ایک دلچسپ پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے بحران اور سعودی عرب، ایران تنازع کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان کو ایران سے ثالثی کا مینڈیٹ بھی دے دیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر میں المیہ جنم لے چکا ہے، امریکا بطور طاقتور ملک کردار ادا کرے، ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کئی معاملات پر بات چیت جاری ہے۔ امریکا کی پاکستان کی ساتھ تجارت بہت کم ہے۔ ہماری دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور دیگر امور پر بات ہو گی۔ میں اپنے دوست عمران خان کو دورہ امریکا پر خوش آمدید کہتا ہوں۔
امریکی صدرٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر بہت پیچیدہ معاملہ ہے جو بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ اگر دونوں لیڈرکہتے ہیںکہ کچھ نکات پر ہم ایک ہیں تو میں بہت اچھا ثالث ثابت ہوں گا، ناکام نہیں ہوں گا۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت اچھی مددکر سکتا ہوں لیکن ضروری ہے کہ دوسرا فریق بھی راضی ہو۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ نے اپنا وزن مودی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے،اپنا بیانیہ بھی دے دیا ہے اس لیے آیندہ چند روز وزیراعظم عمران کے لیے ایک مشکل چیلنج سے نمٹنے کی سب سے بڑی آزمائش کے ہونگے۔
عمران کو مودی ٹرمپ شراکت داری کو توڑنے کا ہرکولین ٹاسک انجام دینا ہو گا، صدر ٹرمپ کا یہ کہنا معنیٰ خیز تھا کہ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے ہیوسٹن میں ہونے والے جلسے میں بہت جارحانہ زبان استعمال کی اور ہال میں موجود ہزاروں لوگوں تک اپنا پیغام کافی جارحانہ انداز میں پہنچایا لیکن دوسری جانب یہ کہا کہ وزیراعظم عمران خان ایک عظیم لیڈر ہیں جو ان حالات میں بھی امن کی بات کر رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ نے کشمیریوں کے لیے تھوڑی سی ریلیف کی بات تک نہیں کی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ امریکا ایک طاقتور ملک ہے، اسے کشمیرکے معاملے پر اپنا کردار اداکرنا چاہیے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم زبان غیر سے ''شرح آرزو''کی صدر ٹرمپ سے توقع رکھتے تھے۔ ٹرمپ نے دوٹوک انداز میں مودی سے کشمیریوں پر جاری مظالم کے خاتمہ اور اور کرفیو اٹھانے کی فوری کمٹمنٹ سے بھی گریز کیا اور ''ان سے کہوں گا'' میں مودی کی تقدیم کو سامنے رکھا ۔ لہذا اب گیند اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چلی گئی ہے جہاں عمران خان کو ایک بہ انداز دگر شہسوار کے طور پر کشمیر کی جنگ لڑنا ہو گی ۔ یاد رہے بلوم برگ گلوبل بزنس فورم میں مودی کلیدی اسپیکر ہوںگے، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ میں افغان مسئلے پر بھی صدر ٹرمپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔
پاکستان کا استحکام، افغانستان کے استحکام سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں استحکام خطے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے کردارکی تعریف کی اور کہا کہ ان دنوں بہت سے ممالک امریکی صدر سے ملنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن پاکستان ان ممالک میں سے ہے جن کی قیادت سے میں ملنا چاہتا تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ سابق امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم عمران خان خطے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے مودی اور عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، میں وزیراعظم عمران خان پر اعتمادکرتا ہوں، عمران خان بہترین وزیراعظم اور میرے اچھے دوست ہیں۔ نیویارک میں بہت اچھے پاکستانی دوست بھی ہیں جو اچھے مذاکرات کار ہیں ۔ زیب داستاں کے طور پر ٹرمپ نے مزید کہا کہ مجھ سے قبل امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سوال پرکہا میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے برابرکا سلوک کیا جائے۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن میرے نمبر ون دوست ، اسمارٹ اورٹف ہیں، ایران کی جوہری ڈیل کی معیاد ختم ہونے والی تھی اور بورس جانسن دوسری ڈیل چاہتے ہیں۔
ادھر فارن ریلیشنز کونسل سے گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ امریکا کو افغانستان سے اب نکل جانا چاہیے، امریکی جنگ میں شامل ہونا پاکستان کی غلطی تھی، پہلے امریکا نے طالبان کو مجاہدین کہا اور پھر انھیں دہشتگرد قرار دیا، عمران نے کہا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں، امریکا 19 سال جنگ لڑ چکا، اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانیوں نے جانیں نثار کیں،200ارب ڈالر کا معیشت کو نقصان ہوا، وزیراعظم کو چینی ماڈل یاد رہا ان کا کہنا تھا کہ یہ چینی ترقی کا ماڈل ہے، ان کی طرح حکم کا اختیار ہو تو پاکستان سے کرپشن اور غربت کا خاتمہ کرسکتا ہوں۔
آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی وجہ بھی عمراں نے معیشت کی زبوں حالی بتائی۔لیکن اب ایک مرحلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کا ہے، اس کی سائید لائنز پر ٹرمپ سے عمران مودی ملاقات کا ٹریلر ابھی باقی ہے۔ عمران خان نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور اردوان اور چینی وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں، روس کے خلاف جہادکرنے والوں کو نائن الیون کے بعد بے یارومددگار چھوڑنے پر امریکا پر تنقید کی۔
وزیراعظم کے مطابق مسئلہ کشمیر پر دو ایٹمی ملک آمنے سامنے ہیں، لاکھوں کشمیری محصور ہیں، یو این او اپنا کردار ادا کرے۔ ایک امریکی رپورٹ نے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے، رپورٹ کے مطابق مسئلہ کشمیر انسانی حقوق کونسل ایجنڈے پر ہونے کے باوجود پاکستان قرارداد کے لیے سولہ ممالک جمع نہیں کر سکا، یہ طعنہ رپورٹ میں درپردہ اوربلاواسطہ عالم عرب اور مسلم امہ کے باب میں دیا گیا ۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو جواب دینا ہو گا کہ UNCHR میں ممکنہ حمایت کیوں حاصل نہیں کر سکے۔
ادھر اپوزیشن نے ملک کی داخلی صورتحال اور حکومت کی اپوزیشن کے خلاف احتساب کی انتقامی کارروائی کے الزام کے تناظر میں کشمیر کاز کے لیے حکومت کی فاتحانہ پیش قدمی پر چوٹ کی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں محاصرے کا 50 واں دن بھی گزر گیا، مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے، قابض انتظامیہ کے مطابق اسکول کھلے ہیں مگر خوف سے کون سامنے آئے، مواصلاتی ذرائع معطل ہیں، کوئی ریلیف عالمی ضمیر کی طرف سے نہیںملی، یاسین ملک و دیگر کے لیے چارج شیٹ تیار ہے ، بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ نے گیدڑ بھپکی دی ہے کہ پاکستان 65ء اور 71ء کی غلطی نہ دہرائے۔ لوگ ایل او سی پار کرنے کو بے تاب ہیں، کشمیر کا لاوا پک رہا ہے۔ اب دیکھیے کیا ہو۔