صوفے کا خمار اور کپی نوشی
کپی کا لفظ یقیناً آپ کے لیے اجنبی ہو گا کیونکہ یہ نام یا اصطلاح صوفہ ازم کے کامریڈوں نے ایجاد کیا ہوا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے محقق ہونے کی شہرت دور دور تک پھیل چکی ہے چنانچہ ایک قاری نے ہمیں تصوف کے بارے میں تحقیق کرنے کا پراجیکٹ دیا ہے، ظاہر ہے کہ نہ تو ہم اپنے کسی فین کو ناراض کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ناکامی گوارا کر سکتے ہیں ، اس لیے بسم اﷲ۔ تصوف کے بارے میں ویسے تو ''سب ہی'' کچھ نہ کچھ ''جانتے'' ہیں کہ بہت ساری کتابوں میں اس کی تفصیلات آئی ہیں، اس کے بہت ''سلسلے'' اقسام، مسالک اور گروہ ہیں۔ لیکن جس تصوف کے بارے میں ہم جانتے ہیں اس کے بارے میں صرف ہم جانتے ہیں۔
''اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ''۔ تصوف کے بارے میں جب بھی، جہاں بھی اور جیسا بھی کبھی لکھا یا بولاجاتا ہے تو پہلی بحث اس نام ''تصوف'' کی آتی ہے جس میں طرح طرح کے لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں لیکن زیادہ تر کی دوڑ ''صوف'' یعنی اون اور اونی لباس تک ہوتی ہے کہ صوفی لوگ اون کا کھردرا لباس پہنتے تھے کیونکہ وہ نہ سرکاری تھے کہ ریشم پہنتے اور نہ شکاری تھے کہ پوستین پہنتے۔ اور ان کے علاوہ کوئی اور ریشہ یا لباس ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا۔
یہاں تک تو بات ٹھیک اور سیدھی جا رہی ہے لیکن اس میں ایک ''موڑ'' اس وقت آ جاتا ہے جب ہم تصوف کی ایک جدید یا ماڈرن یا اپ ٹو ڈیٹ۔ یا ترقی دادہ ''شاخ'' کو پھوٹتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اس شاخ کا تعلق صوف سے بھی ہے لیکن زیادہ تعلق ''صوفے'' سے ہے۔ جو ''صوفوں'' میں بیٹھ کر کیا جاتا ہے وہ ''صوفے'' جو حکومت اور اس کی ساجھے دار اشرافیہ یا تو ''کالانعاموں'' کی کھالوں سے بنائے ہوئے ہوتے ہیں یا ایک زمانے میں ہم بھی اس صوفہ تصوف کے صوفی ہوا کرتے تھے، خود اپنا صوفہ تو نہیں تھا لیکن کچھ بڑے بڑے ''صوفیاء'' کے ڈرائنگ روموں اور صوفوں میں بیٹھ کر تصوف تصوف کھیلتے تھے۔
اس صوفہ تصوف کا بنیادی نظریہ ''وجود بے وجود'' کا ہوتا ہے یعنی ہر ہر طرف اور اینگل سے اس ''وجود'' کو ''بے وجود'' کیا جائے، اس کے ہر کام میں کوئی نقص ڈھونڈا جائے اور پھر اس کی اصلاح کی جائے۔ ان صوفیا کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ دنیا اور کائنات کا ہر ہر پرزہ بیکار اور زنگ آلود ہے اور اس کو اوور ہالنگ کی اشد ضرورت ہے۔
جن دنوں ہم اس سلسلہ ''صوفیہ لتصوفیہ'' میں تازہ تازہ شامل ہوئے ان دنوں ایسی مجالس سلوک و معرفت میں مشروب خاص بھی مل جاتی تھی جسے ہمارے ساتھی تو پوری عقیدت و حترام سے گھٹک لیتے تھے لیکن ہم اپنی ڈرپوک اور بزدل طبعیت کی وجہ سے محروم رہ جاتے تھے کیونکہ ان دنوں اپنی حالت ایسی تھی کہ اپنا جدی پشتی نشہ ''خمار گندم'' بھی پورا نہیں کر پاتے تھے اس لیے ہمیشہ ڈرے ڈرے رہتے تھے کہ اگر کوئی اور ''بلا'' بھی خود سے چمٹ گئی تو مفلس کی قبا میں یہ پیوند کہاں سے لگائیں گے۔ اور اس کا ہمیں یہ فائدہ ملا کہ ''مجلس تصوف'' کے بعد کسی بھی چنتا میں مبتلا نہیں ہوئے لیکن ہمارے اکثر ساتھی اس طریقہ پر کاربند ہو جاتے تھے جسے اس وقت کی اصطلاح میں ''کپی نوشی'' کہا جاتا تھا۔
ڈرائنگ روم اور صوفوں کی سعادت تو کبھی کبھار ملتی تھی کیونکہ وہ ڈرائنگ روم اور صوفوں والے کبھی کبھار وقت نکال کر مجالس منعقدکرتے تھے باقی تو وہ ''خلق خدا'' کی خدمت کرتے ہوئے مختلف دھندوں میں مصروف رہا کرتے تھے، سیاست، یونین سازی، تجارت،ا سمگلنگ بلیک منی اور کرپشن وغیرہ۔ اور ان خالی دنوں میں یار ولایتی مشروب کی لت کو ''کپی'' کے ذریعے پوری کرتے تھے۔
کپی کا لفظ یقیناً آپ کے لیے اجنبی ہو گا کیونکہ یہ نام یا اصطلاح صوفہ ازم کے کامریڈوں نے ایجاد کیا ہوا تھا۔ ''کپی کشی'' افغانستان میں ایک مشہور لفظ ہے جو بازار اور خاص طور پر مستری خانوں میں جگہ جگہ لکھا ہوا نظر آتا ہے ''کپی کشی'' نعمت اللہ، کپی کشی گل مرجان، کپی کشی نیمروز وغیرہ یہ اصل میں ''ڈینٹنگ'' کا فارسی ترجمہ ہے یعنی گاڑیوں کی ڈینٹنگ اور ٹوٹ پھوٹ مرمت کرنا۔ لیکن یہاں کپی نوشی کی جگہ ''کپی کشی'' کی اصطلاح ایک اور کام کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
جو اکثر غریب غربا لوگ کرتے تھے یعنی تھوڑے سے میتھلیڈ اسپرٹ میں بہت سارا پانی ڈال کر اسے مشروب خاص سمجھ کر پینا۔ یہ ''کپی کشی'' ہوا کرتی تھی جو صوفہ ازم کے کے داعی کامریڈ لوگ کیا کرتے تھے،۔ اور جب ہمارے ڈر نے ہمیں اس سے بچایا تو ان دنوں ہم نے مان لیا کہ ڈر اور خوف کتنی قیمتی چیز ہیں اسی لیے تو پشتو میں کہاوت ہے کہ بھاگنا بھی آدھی بہادری ہے۔ اس کپی نوشی کے ماروں میں بہت سوں کو بعد میں خون تھوکتے اور کسمپرسی میں مرتے بھی دیکھا ہے لیکن جو بچ گئے، وہ آج سرمایہ دار ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک کامریڈ جو امیر ہوگئے تھے تو اس کے ایک پرانے ساتھی نے جل کر کہا تھا۔
اس سے کہنا کہ وہ وقت بھول گئے جب ہمارے ساتھ ''کپُی'' پیتے تھے اور آج کل ہزاروں کی غیر ملکی پی رہے ہو۔ تو اس خمار کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں جو ''صوفوں'' میں ہوتا ہے، وہ صوفے جو کالانعاموں کی کھالوں سے بنتے ہیں اور ان پر بیٹھ کر کالانعاموں کی ''غلطیاں'' نکال نکال کر انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ یہ بحث آج بھی انھی صوفوں اور ڈرائنگ روموں میں جاری ہے لیکن اس میںخود کی بجائے نظام کو کوسا جاتا ہے کیونکہ سب کچھ باقاعدہ کمرشلائز اور انڈسٹریلائز کر لیا گیا ہے اور اسے ''تصوف'' کی بجائے بیچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ ''کپی نوش'' ہوتا