پاکستانی عوام اقوام متحدہ میں وزیر اعظم کی تقریر کے منتظر

جو سچ ہے وہی قوم کے سامنے لانا ہوگا ورنہ اعتماد کا فقدان ہمیں اپنی عوام میں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔

جو سچ ہے وہی قوم کے سامنے لانا ہوگا ورنہ اعتماد کا فقدان ہمیں اپنی عوام میں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے خطے میں پیدا ہونیوالی کشیدگی کے اثرات اب پوری دنیا تک پھیلتے جا رہے ہیں اور جس طرح بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں فلسطین جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے بھارت ، امریکہ و اسرائیل گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آ گیا ہے اور پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طالبان کے ساتھ اختتامی مرحلے میں پہنچنے پر امن مذاکرات ملتوی کرنا اور ایران پر مزید پابندیاں سخت کرنا اس کے بعد پھر بڑے عوامی اجتماع میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کے ساتھ کھڑے ہوکر مسلمانوں کو انتہاء پسند دہشت گرد قرار دے کر ہندووں کے ساتھ مل کر ان سے نمٹنے کے اعلان نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

اگرچہ یہ شعلہ بیانی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی بھی ایک کڑی ہے لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے اور خصوصاً نائن الیون کے بعد سے شروع ہونیوالی مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان لڑائی کے تناظر میں یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں ہے اور نائن الیون کے بعد بھی اس وقت کے امریکی صدر بش نے بیان دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صلیبی جنگوں کا آغاز ہوگیا ہے اور وہ اعلان مسلم دنیاکا شدید ردعمل سامنے آنے پر کئی روز بعد واپس لیا گیا تھا لیکن اس وقت سے اب تک جو ہو رہا ہے وہ اسی بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ جو صلیبی جنگوں کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس بیان کی واپسی جنگی حکمت عملی تھی لیکن طاغوت اسی اعلان کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور ابھی بھی امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پوری دنیا کے ممالک کے حکمران جمع ہیں اور ساری دنیا کی نظریں امریکہ میں سجائی جانیوالی اس بیٹھک پر لگی ہوئی ہیں اور اس اجلاس کا سب سے اہم و خطرناک پہلو یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے اس اکھاڑے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دنیا کو ایٹمی جنگ کے خطرات سے دوچار کرنے والے شدت پسند ہندو ذہنیت کے مالک بھارتی پردھان منتری کی سرگرمیوں نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ یہ لڑائی ممالک کی نہیں بلکہ کفر اور اسلام کی لڑائی ہے جس کے پیچھے اصل قوت اسرائیل ہے اور اسرائیل کے فرنٹ لائن کے طور پر امریکہ بہادر اس جنگ کو مرحلہ وار آگے بڑھا رہا ہے اور اب جو بین الاقوامی سطع پر حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں ہیں وہ کئی برس قبل سابق امریکی صدر بش کی جانب سے صلیبی جنگوں کے آغاز کے حوالے سے دئے جانیوالے بیان کا تسلسل ہی معلوم ہو رہے ہیں مگر ہم ہیں کہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں اور ابھی بھی طاغوت سے امن کیلئے اچھے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

اب پوری قوم کی نظریں اس خطاب پر لگی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مقدمہ کس طرح لڑتے ہیں اور واپسی پر کشمیر بارے کیا اعلان کرتے ہیں جس کا کہ وہ امریکہ جانے سے پہلے عوام کو انتظار کرنے کا کہہ کر گئے تھے کہ وہ ایک مرتبہ اقوام متحدہ میں خطاب کر لیں اسکے بعد وہ خود کوئی اعلان کریں گے۔


اگرچہ اس پر بھی بعض سیاسی ناقدین کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائیگا اور جب مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے تو حکومت کی جانب سے آزاد کشمیر اور ایل او سی کی جانب مارچ کا اعلان کردیا جائیگا تاکہ پاکستان میں ملین مارچ سے توجہ ہٹادی جائے اور ان حالات میں کشمیر میں کسی ایڈونچر کا بھی خطرہ ہے اور اگر مولانا کا آزادی مارچ زور پکڑ جاتا ہے تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گی کیونکہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پاکستان میں طاقت کے تمام کرداروں سے مکمل رابطوں میں ہیں اور یوں معلوم ہو رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اپنے آزادی مارچ کو کامیابی سے اسلام آباد لانے کیلئے مدد و معاونت کے طلبگار ہیں جس کیلئے وہ پانی کی گہرائی کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

جہاں تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے وزیراعظم عمران خان کے خطاب میں مودی سرکار کو منہ توڑ جواب دینے کا تعلق ہے یہ توآنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہو جائے گی کہ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںکیا خطاب کرتے ہیں مگر اس سے پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کے حوالے سے قرار داد بارے خوب لے دے ہو رہی ہے۔

اس معاملہ میں معلوم یہی ہو رہا ہے کہ حکومتی اہلکاروں و ذمہ داروں کے غیر ذمہ دارانہ و جذباتی بیانات ہی انکے گلے پڑ رہے ہیںکیونکہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے گیارہ ستمبر کو جنیوا میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان نے پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت سے ایک مشترکہ بیان پیش کر دیا ہے جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے۔

یہی نہیں بلکہ اس سے اگلے ہی روز خود وزیراعظم عمران خان نے بھی بیان جاری کردیا جس میں ان کی طرف سے بھی باقاعدہ نہ صرف دعوٰی کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں پاکستان کی جانب سے پیش کئے گئے بیان کو 58 ممالک کی حمایت حاصل ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان نے ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کر دیا جسکی بھارت اگرچہ تردید کرتا رہا مگر اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کہیں یا سیاسی ناپختگی کہیں کہ ہمارے ہاں حکومتی ذمہ داران کی طرف سے یہی بتایا جاتا رہا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو زبردست سفارتی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور 27 ستمبر کو وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نریندر مودی کو بے نقاب کر دیں گے جس کا کہ قوم کو انتظار تھا لیکن اس سے پہلے ہی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے پہلے کہا جا رہا تھا کہ انیس ستمبر تک قرار دداد جمع کروانے کی تاریخ مقرر ہے مگر اب پتہ چلا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کے حوالے سے قرار داد پیش ہی نہیں کی جا سکی ہے۔

اب اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید ہو رہی ہے کہ اس معاملے کو خصوصی اجلاس میں زیر بحث لانے کیلئے 47 میں سے 16 ممالک کی حمایت درکار تھی تواقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے ارکان میں شامل چین، سعودی عرب، قطر، بحرین، عراق، نائیجیریا، تیونس اور صومالیہ و دیگر ممالک کے ہوتے ہوئے یہ حمایت کیوں حاصل نہ کی جا سکی اور کیا یہ سفارتی محاذ پر ایک بڑی ناکامی ہے اور ایسے میں کہ جب اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل خود اپنی حالیہ رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے تو ہم قرار داد لانے کیلئے درکار ممالک کی حمایت حاصل نہیں کر سکے اور اگر حمایت حاصل نہیں تھی تو ملک کی ذمہ دار شخصیات کس بل بوتے پر 58 ممالک کی حمایت کا دعویٰ کرتے رہے ہیں اور اگر اس لیول پر بھی غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں تو پھر ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور قوم کو اعتماد میں لینا ہوگا جو سچ ہے وہی قوم کے سامنے لانا ہوگا ورنہ اعتماد کا فقدان ہمیں اپنی عوام میں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔
Load Next Story