صوبائی کابینہ اور بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر ردو بدل کا امکان

وزیراعلیٰ جام کمال جلد ہی اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے محکموں کے قلمدان میں ردوبدل کرنے والے ہیں۔

وزیراعلیٰ جام کمال جلد ہی اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے محکموں کے قلمدان میں ردوبدل کرنے والے ہیں۔

سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ جام کمال جلد ہی اپنی کابینہ کے بعض وزراء کے محکموں کے قلمدان میں ردوبدل کرنے والے ہیں۔ اسی طرح چند ہی دنوں میں بیورو کریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہونگی۔

بلوچستان کے نئے چیف سیکرٹری کیپٹن (ریٹائرد) فضیل اصغر بھی تعیناتی کے بعد کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اور صوبے کے مختلف اضلاع کے دورے پر ہیں جہاں وہ ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ افسران کے حوالے سے سروے کر رہے ہیں اور اُن کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔

سیاسی حلقوں کے مطابق نئے چیف سیکرٹری بلوچستان کے ان دوروں کے نتائج آئندہ چند روز میں دکھائی دیں گے کیونکہ چیف سیکرٹری افسران کی کارکردگی کے حوالے سے فہرست مرتب کر رہے ہیں، اکتوبر کے درمیان میں بیورو کریسی میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہوگی،ان سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبے کی بیورو کریسی میں بھی کافی عرصے سے بے چینی پائی جاتی ہے اور اکثر بیورو کریٹس نجی محفلوں میں صوبائی مخلوط حکومت پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں بعض صورتحال سے دل برداشتہ ہو کر چھٹیاں بھی لے چکے ہیں۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق بیوروکریسی میں تقرریوں اور تبادلوں کے ساتھ ساتھ صوبائی کابینہ کے بعض ارکان کے محکموں میں بھی ردوبدل کی تجویز زیر غور ہے اور اس حوالے سے یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہیں کہ شاید اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بعض صوبائی وزراء اور مشیروں کے محکموں میں ردوبدل کردیا جائے۔

ان سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار سرفراز ڈومکی جنہوں نے وزارت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اُن کی جگہ پر بھی ابھی تک وزیراعلیٰ جام کمال نے کوئی وزیر کابینہ میں شامل نہیں کیا جس کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی سمیت اُن کی اتحادی جماعتوں کی کوشش ہے کہ اُن کے کسی رکن اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرلیا جائے جبکہ یہ کوٹہ بلوچستان عوامی پارٹی کا ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال کی موجودہ صوبائی کابینہ میں بعض وزراء و مشیر اپنے سیکرٹریز سے بھی نالاں ہیں اور اُن کی یہ پوری کوشش ہے کہ اُن کے محکموں کے سیکرٹریز اُن کی رضا مندی سے تعینات کئے جائیں، اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں محکمہ صحت کے اندر وزیر اور سیکرٹری کی آپس میں چپقلش کی داستان کا چرچا عام ہے اور صوبائی وزیر صحت اپنے سیکرٹری کو ہٹانے کیلئے سرگرم بھی ہیں اور شاید وزیراعلیٰ نے اُنہیں اس بات کی یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ وہ اُن کی اس خواہش کو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے پھر معلوم نہیں وزیراعلیٰ کی راہ میں کیا رکاوٹ آرہی ہے کہ وہ اپنی کابینہ کے رکن کے ساتھ کئے گئے وعدے کو وفا نہیں کر پا رہے۔


اسی طرح محکمہ تعلیم کے سیکرٹری اور صوبائی مشیر کے درمیان بھی ٹسل چل رہی ہے، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کے درمیان فی الحال وزیراعلیٰ نے سیز فائر کروا دیا ہے اور کچھ خاموشی ہے؟ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ تعلیم اور صحت دو اہم محکمے ہیں جو کہ موجودہ صوبائی مخلوط حکومت کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں دونوں محکموں کا براہ راست تعلق عوام سے بنتا ہے اگر ان محکموں میں وزراء اور سیکرٹریز کے درمیان ورکنگ ریلیشن اچھے نہ ہوں تو اس کے براہ راست منفی اثرات حکومت کی کارکردگی اور عوام پر پڑتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جو کہ ترقی و خوشحالی کے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان دونوں محکموں پر اُن کی گہری نظر بھی ہے کو چاہیے کہ وہ معاملات کو درست کرنے کیلئے مثبت اقدامات کریں کیونکہ آپس کی اس چپقلش اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل سے نقصان محکموں کو ہو رہا ہے بلکہ محکمے بھی تباہی کی جانب جا رہے ہیں یہی صورتحال دیگر محکموں میں بھی ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے تمام محکموں پر فوری توجہ دی جائے اور آپس میں مشیر، وزراء، سیکرٹریز اور دیگر افسران کے ورکنگ ریلیشن کو درست کیا جائے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اس کے منفی اثرات سے جہاں محکموں کو نقصان ہوگا وہاں حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی اور سیاسی طور پر بھی اس کے کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں ہونگے۔

بلوچستان میں بی این پی مینگل اور صوبائی سطح پر جمعیت علماء اسلام (ف) اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ گذشتہ دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بیاد نواب امان اﷲ زہری کے حوالے سے احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا جسے سیاسی حلقوں میں بہت اہمیت دی جارہی ہے، اس جلسے سے پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل سمیت دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔

سردار اختر مینگل نے اس جلسے کے توسط سے وفاقی حکومت کو براہ راست یہ پیغام دیا ہے کہ وفاقی حکومت ہمارے چھ نکات پر عملدرآمد کرائے ہم بھیک نہیں مانگ رہے اپنا حق مانگ رہے ہیں حکومت ہمیں گھسیٹے نہیں بلکہ ساتھ لے کر چلے اور کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم نے مرکزی حکومت کی حمایت کے نتیجے میں اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور نواب امان اﷲ زہری اور ان کے ساتھیوں کا قتل سیاسی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سابقہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ہمارے لوگوں کو شہید کرکے بدلہ لیا گیا ہے اور آج ہم پر سودے بازی کا الزام وہی لگا رہے ہیں جو وزارتوں پر بکتے رہے ہیں۔

دوسری جانب آزادی مارچ کیلئے جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی کابینہ نے صوبے میں عوامی رابطہ مہم کا زور و شور سے سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، صوبائی امیر اور رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالواسع صوبے بھر میں احتجاجی جلسے اور ریلیوں کا انعقاد کرکے رائے عامہ کو ہموار کر رہے ہیں ان جلسوں میں موجودہ وفاقی حکومت کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔مولانا عبدالواسع اور انکی کابینہ کا یہ دعویٰ ہے کہ آزادی مارچ کیلئے بلوچستان سے لاکھوں افراد پر مشتمل قافلے اسلام آباد روانہ ہونگے۔

والڈ سٹی اتھارٹی لاہور نے بلوچستان کے قدیم اور تاریخی ثقافتی ورثہ فورٹ سنڈیمن کے تحفظ اور اسے موثر طور پر اُجاگر کرکے عالمی سطح پر متعارف کرانے کیلئے بلا معاوضہ تکنیکی معاونت کی فراہمی کیلئے حکومت بلوچستان کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت بلوچستان کے ضلع ژوب میں1889ء میں تعمیر ہونے والی رابرٹ سنڈیمن کی قدیم رہائش گاہ کو دوبارہ اصل حالت میں بحال کیا جائے گا اس عمل سے جہاں صوبے میں سیاحت کو فروغ ملے گا وہاں بلوچستان کی تاریخی ثقافت کو احسن انداز میں اُجاگر کیا جا سکے گا۔
Load Next Story