انداز گفتگو میں پارلیمانی تہذیب پوشیدہ
تاریخ بتاتی ہے کہ ارکان اسمبلی میں نوک جھونک اور بحث و تکرار کا مسلمہ تہذیبی گراف کبھی زمین بوس نہیں ہونے دیا گیا۔
پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کی بنیادی اقدار کے دعوے کرنے والے کم نہ ہونگے مگر اہل درد یہ کہتے ہوئے روتے ہیں کہ وہ ایثار پسند ، سنجیدہ اور مہذب پارلیمنٹیرینزکہاں چھپ گئے، ان کی نسل کوکیا ہوا، انھیں زمین نگل گئی یا وہ سوئے آسمان کوچ کرگئے۔
وہ خوش گفتار پارلیمانی قبیلہ کس دیس جا بسا ہے؟ پرنٹ میڈیا کے آرکائیو میں گذری پارلیمانی بحثوں کی کارروائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے نابغہ ہائے روزگار اراکین قومی اسمبلی تھے جن کی تقاریر غور سے سنی جاتی تھیں اور بد ترین ایوبی آمریت میںبھی جہاںجی حضوریوں سے ایوان بھرا رہتا تھا ایسے پارلیمنٹیرنز بھی تھے جن کا انداز گفتگو ، بحث واستدلال کا معیار دیدنی ہوتا تھا۔
وہ ریاستی مفادات، حکومتی اختیارات ، عوام کو درپیش مسائل اور عالمی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے حد ادب کا کس طرح خیال رکھتے، اگرکوئی نا شائستہ اور غیرپارلیمانی بات کسی سے سرزد ہو جاتی تو اسے کارروائی سے حذف کر دیا جاتا ، اخبارات کی پارلیمانی ڈائریوں کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ جھلکیاں اس دور میں بھی لکھوائی جاتی تھیں، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین چشمک زنی بھی ہوتی تھی، سیاسی ایجنڈے سب کو عزیز تھے۔
مفاداتی سیاست کی بنیاد ڈالی جاچکی تھی، تنگ نظرانہ گروہی سیاست کے نئے باب رقم ہورہے تھے، بنیادی جمہوریتوں کے قصے بھی مشہور ہوئے، کئی مسلم لیگیں وجود میں لائی گئیں ، سٹیبلشمنٹ بطور ایک خاموش عفریت ملکی سیاست میں سر اٹھا چکی تھی، ایک مقدس گائے کا سیاسی تصور اپنی جگہ موجود تھا، اردو اور انگریزی صحافت اپنے ابتدائی ذمے دارانہ رنگ و روپ میں موجود تھی ، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فئیر پلے کے پارلیمانی پیرا میٹرز جیسے بھی تھے ان کے ابھرنے، نشوونما پانے اور مستحکم سیاسی وسماجی نظام کی حیثیت حاصل کرنے کے لیے اراکین اسمبلی نے بہرحال طے کرلیا تھا کہ ایوان کا تقدس برقراررکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس نوزائیدہ مملکت کو دنیا کی نظروں میں وقار ، تقدیس اورجمہوری توثیق کی ضرورت بھی تھی، بھارت کی مخاصمت اور دشمنی واضح تھی ، وہ پاکستان کے ارتقا پر توکاؤنٹ ڈاؤن میں لگا ہوا تھا۔
چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ ارکان اسمبلی میں نوک جھونک اور بحث و تکرار کا مسلمہ تہذیبی گراف کبھی زمین بوس نہیں ہونے دیا گیا، سب کو احساس وادراک تھا کہ پاکستان کی ریاست وحکومت کو انتظامی شفافیت ، معیشت کے استحکام ، موثر سفارت کاری ، عدلیہ اور چوتھے ستون کی آزادی کے معاملات میں عوام کے ساتھ شراکت داری کی کمٹمنٹ نبھانی ہے۔ اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو ملکی سیاست ہر قسم کے آمرانہ اور جمہوری بحرانوں اور پیش رفتوں میں 1947ء سے 1971 ء تک ایک سنگ میل عبور کرچکی تھی، لیکن ملک کے دو نیم ہونے کا المیہ ایک ایسا گھاؤ تھا۔
جس نے سیاست کو رفتہ رفتہ اخلاقی بنیاد سے محروم کیا، سیاستدان قومی مفادات اور سلامتی ، استحکام اور عالمی برادری سے جڑے رہنے کی پاسداری اور عالم عرب اور اسلامی دنیا سے رشتہ اخوت و تاریخی ہمسائیگی کے جذبات واحساسات کے سفر میں اصول اور ٹھکانے بدلتے رہے، ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کے ایسے اعصاب شکن تماشے ہوئے کہ آج جب ہم نتیجہ کے طور پر اپنی موجودہ پارلیمنٹ ، پارلیمنٹیرنز، ملکی سیاست کا جو حال دیکھتے ہیں، ہمیں وحشت سی ہونے لگتی ہے کہ اکیسویںصدی کی جدید داخلی سیاست نے ہمیں کہاں دے مارا ہے۔
تھوڑا سا سانس لے لیں پھر باتیں کریں کہ جمہوریت، صحافت ، معیشت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور عالمی سیاست کے گرداب اور جنگوں کی تباہ کاریوں میں ہم آخرکارکیا کیا ارمان لے کر کشمیرکاز کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تک آپہنچے، کشمیر میں کہرام برپا ہے، دنیا دو حصوں میں بٹ گئی ہے،ایک طرف ترقی یافتہ دنیا اور عالمی طاقتوں کے مفادات کے سربفلک پہاڑ ہیں تو دوسری جانب تیسری دنیا کے ملک ہیں جس میں ہم بھی شامل ہیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، معاشی وسیاسی جنگ اور اس کے نتائج و مضمرات ہیں۔ یہ 71سال کی ملکی تاریخ کا فیصلہ کن دورانیہ ہے۔ اس میں ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا۔ اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
کشمیریوں کے لیے پاکستان کی گھمبیر سیاسی، سفارتی اور علاقائی صورتحال ایک نہیں کئی تاریخی اسباق کھولنے کے لیے بے قرار ہے، ہمیں صفیں درست کرنی ہیں، اپنی پارلیمانی ترجیحات اور جمہوری رویے اور حکمرانی کے انداز پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ آج پارلیمانی معیار پاکستان کی قومی اسمبلیوں کے تقابل کا دردناک منظر نامہ پیش کرتی ہے۔لگتا ہے ہم ''بادشاہ بیگم ''کے زمانے میں بھیج دیے گئے ہیں۔
مملکت پر ''ڈینگی''نے حملہ کردیا ہے۔ کنڈی مین بھاگ گئے ، وزیراعلیٰ سندھ کچرا اٹھوا رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نہیں ہے،کشمیر کے سودے کی باتیں ہورہی ہیں، مودی نیو یارک کی ریلی میں صدر ٹرمپ کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات میں مضبوطی اور استحکام کا اعلان کر رہے تھے، دوسری طرف دنیا بھر سے بھارت کے کشمیر دشمن اقدامات پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، مودی ٹرمپ ریلی کے خلاف بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیرکازکے لیے جدوجہد اور اقوام متحدہ میں وزیر اعظم عمران خان کا 27 ستمبرکا خطاب ''میک آر بریک '' کا بگل ہے۔
لائن آف کنٹرول پر نوجوان ایک کال کا انتظار کررہے ہیں۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کے لیے یہ ویک اپ کال ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی ، تقدس ، وقار اور جمہوری روایات وآداب سے رجوع فرمائیں، اسلام آباد لاک ڈاؤن مہم جوئی سے قبل اپنے ٹی وی ٹاکس سے اٹھتے دھویں پر نظر ڈالیں ، اپنے لب ولہجے کا تہذیبی محاسبہ کریں۔ یہ ازبس ناگزیر ہے کہ دنیا کشمیر پر پاکستان کے بیانیے کی صداقت کو پرکھنا بھی چاہتی ہے، بھارت ہمارے داخلی جمہوری ارتباط، ایک پیج پر رہنے کی تصدیق ہمارے سیاسی رویے اور حکومت و اپوزیشن کے مابین سیز فائر کے ہونے اور متحدہ کشمیر ریسکیو مہم کے آئینہ میں کرنے کو بے تاب ہے۔
ملک کشمیر کی صورت حال پر باہمی کشمکش، محاذآرائی اور نوک جھونک کا متحمل نہیں ہوسکتا ، حکومت اور اپوزیشن سمیت اینکرزکی گل افشانیوں کا جو دروازہ کھلا ہے اس نے صحافت میں ادب نوازی کے نشمین جلا کر خاک کر دیے، لہجے میں زہر ہلاہل، سیاسی یا معاشی اقتصادی ترکش کا ایسا کون سا تیر ہے جو کمیںگاہ کی طرف نہ پھینکا گیا ہو ، طنز بھرے تبصرے ، ایک اسٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے ''دوست رقیبوں جیسے'' ۔ خواتین پارلیمنٹیرینز کو بھی نہیں بخشا جاتا، برہمی، غضبناکی کی کوئی انتہا نہیں، اینکرز جلتی پر تیل چھڑکنے میں تاک ، کوئی سنجیدہ گفتگو کسی سنجیدہ نتیجہ تک نہیں پہنچتی۔
یہ رسہ کشی اس وقت ہو رہی ہے جب قوم کشمیر اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور لاک ڈاؤن پینڈورا باکس سے کچھ ہی قدم دور ہے۔ قوم کراچی کے عذاب پر ٹی وی ٹاکس میں وہ سب کچھ سنتی ہے جسے اس کی گنہگار آنکھیں روز دیکھتی ہیں۔ ملک مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے، بیروزگاری اورگیس ، بجلی ، ٹرانسپورٹ کے کرایوںاور اسٹریٹ کرائمز کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے ۔ ملک اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران میں گرفتارہے، مسیحاؤں کی سمجھ میں نہیںآرہا کہ غم روزگار میں الجھے ہوئے معاشرے کے لیے کون سی دوا تجویزکریں۔ اس لیے لازم ہے دوستو ! کہ اہل سیاست شعلہ بیانی بندکریں ، میڈیا بھی محاذ آرائی پر خاک ڈالے جیسا کہ میر نے کہا تھا کہ
وہ تجھ کو بھولے ہیں تو تجھ پہ بھی لازم ہے اے میر
خاک ڈال، آگ لگا، نام نہ لے، یاد نہ کر
خدارا اہل سیاست نفرت آمیز طرز گفتگو کو خدا حافظ کہہ دیں، شگفتہ بیانی کی طرف لوٹیں، برداشت کا مادہ پیدا کریں، سیاسی اختلاف کو جمہوری حق سمجھیں، قانون کی حکمرانی کے پیغام کو دل سے قبول کریں، جمہوریت دو پہیوں کی گاڑی ہے ، جمہوری سپرٹ پر میثاق جمہوریت کر لیں، طرز فغاں میں سوز وگداز بھردیں جس کی میر انیس کی مناجات میں گونج سنائی دیتی ہے، میر انیس نے انیسویں صدی میں اللہ سے یہ سدا بہاردعا کی تھی کہ
بھر دے در مقصود سے اس درج دہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبعِ رِواں کو
آگاہ کر آغازِ تکلم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو
وقت کی مہلت بھی ہے کہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز مرزا غالب کے اس سوال پر غور کریں جو برسہا برس سے برصغیر کے اہل علم وہنر سے پوچھ رہا ہے کہ
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
اسی انداز گفتگو میں ہماری ساری سیاسی اور پارلیمانی تہذیب پوشیدہ ہیں، سیاست دان اپنے رویے، وژن اور طرز عمل میں آفاقیت اور وسعت نظر پیدا کریں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کسی کی میراث نہیں تو سیاسی مینڈیٹ بھی قوم کی امانت ہے۔ ساحر نے کہا تھا۔؎
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
اسے پوری ذمے داری سے لوٹانا بھی ہے۔