سپر ہائی وے پر مویشی منڈی کا قیام
حکومت کی جانب سے شہریوں کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے۔
ISLAMABAD:
قربانی کے لیے ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج گئی ہیں۔ مسلمان مذہبی فریضے کی انجام دہی کے لیے تیاریاں کررہے ہیں اور چند ہی دنوں میں جانوروں کی خریدوفروخت کا سلسلہ عروج پر ہو گا۔
یوں تو شہر قائد کے ہر چوراہے پر مویشی منڈی نظر آرہی ہے ، جہاں بیوپاری اپنے مویشی فروخت کر رہے ہیں ۔شہر میں خالی پلاٹوں پر بھی ٹینٹ لگا کر جانور فروخت کیے جا رہے ہیں ۔ مصروف چوراہوں پر جانوروں کی فروخت سے ٹریفک کی روانی متا ثر ہوتی اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کراچی میں ہر سال سپرہائی وے کے وسیع رقبے پر مویشی منڈی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس سال بھی یہ روایتی مویشی منڈی قائم کر دی گئی ہے اور اس کی تشہیر ی مہم بھی زوروں پر ہے۔ یہ منڈی خریداروں کا مرکز نگاہ ہوتی ہے ۔ کراچی میں عید قرباں پر لاکھوں کی تعداد میں قربانی کے مختلف جانور منڈیوں میں پہنچائے جاچکے ہیں ، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔
یہ جانور ملک کے مختلف حصوں سے کراچی لائے جاتے ہیں، جہاں فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں رقم دینے کے بعد بیوپاری کو خریدوفروخت کی اجازت دی جاتی ہے۔ ماضی میں شہریوں کو منڈی میں جانے اور جانور کی خریداری پر کسی قسم کی فیس ادا نہیں کرنا پڑتی تھی، لیکن اب یہ روایت بھی جنم لے چکی ہے۔ بیوپارلوں سے اس منڈی میں فی گائے اور بیل ایک ہزار روپے جب کہ بکرا،دنبہ اور بھیڑ چھ سو روپے فیس وصول کی جائے گی۔
مختلف مویشی منڈیوں کے ایڈمنسٹریٹروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت بیوپاریوں اور خریداروں کے لیے منڈیوں میں بہتر انتظامات کیے گئے ہیں۔ ادھر کے ایم سی کمشنر خریداروں کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے انہیں مناسب سیکوریٹی کی فراہمی کا دعوی کررہے ہیں۔ ملیر کینٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر محمدفاروق نے عیدالضحیٰ پر سب سے بڑی مویشی منڈی کا افتتاح کرتے ہوئے انتظامات اور خدمات سے متعلق بتایا کہ منڈی میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ خریداروں کو منہگے داموں کی شکایت سے بچایا جاسکے۔
اس کے ساتھ ویٹرنری ڈاکٹروں کی ٹیم بھی مختلف مویشی منڈیوں میں 24 گھنٹے خدمات انجام دے گی تاکہ کسی بھی بیماری سے مویشیوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ خریداروں کی سہولت کے لیے مویشی منڈی میں کئی مقامات پر قربانی کے جانوروں کو مال بردار گاڑیوں پر چڑھانے کے لیے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ شہریوں کی سہولت اور لوٹ مار کے واقعات سے بچانے کی غرض سے منڈی میں اے ٹی ایم مشین بھی نصب کی گئی ہے۔ ایک شکایتی سیل بھی قائم کیا گیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرے گا اور بیوپاری یا کسی بھی خریدار کی جانب سے کی جانے والی شکایت پر فوری ایکشن لے گا۔
موجودہ حالات اور بدامنی کے پیش نظر 32 مقامات پر کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہر قسم کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ کسی بھی مشکوک فرد کی موجودگی پر سیکوریٹی اہل کار فوری کاروائی کریں گے۔ مویشی منڈی کے ایڈمنسٹریٹر شہاب علی کے مطابق پہلے قربانی کے جانور منڈی میں لانے اور یہاں سے گھروں تک لے جانے کے لیے ریمپ کے استعمال پر شہریوں سے 200 روپے اور بیوپاریوں سے بھی رقم بٹوری گئی تھی، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مویشی منڈی میں پارکنگ کا بہتر ین انتظام کیا گیا ہے، جس میں موٹر سائیکل کی پارکنگ پر دس روپے اور کار کے لیے تیس روپے وصول کیے جائیں گے۔
کراچی کے مختلف مقامات پر مویشی منڈی کے انتظامات اور دیگر امور میں شہری حکومت کا کردار نہایت اہم ہے۔ یہی نہیں بلکہ قربانی کے بعد جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کا کام انجام دینے لیے بھی مقامی حکومت کے عملے کو ہنگامی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ اس کے لیے ایمرجینسی نمبرز پر کال کر کے آلائشوں اور صفائی ستھرائی کے کام کے ضمن میں شکایات درج کرانے کے لیے ایک شعبہ بھی قائم کیا جاتا ہے ۔
ان سارے انتظامات کے باوجود ہر سال شہریوں کو بدبو، غلاظت اور گندگی کے ساتھ ہی عید گزارنا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ہم شہریوں کی ذمہ داریوں کو دو حصے میں تقسیم کرسکتے ہیں، اول عید الاضحیٰ سے پہلے اور دوم عید الاضحیٰ کے بعد۔ عید سے پہلے اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا کہ جانور ایسی جگہ نہ باندھے جائیں، جس سے دیگر لوگ پریشان ہوں اور ٹریفک کی روانی میں خلل پڑے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، جب کہ عید کے ایام میں اس سے بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ قربانی کے بعد جانوروں کی آلائشیں گلیوں میں پھینکنے کے بہ جائے، انہیں ان مخصوص جگہوں پر ڈالا جائے جو بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے متعین کی جاتی ہیں۔
اکثر شہری غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی کے بعد آلائشیں اپنے گھر کے آگے سے تو ہٹا دیتے ہیں، لیکن دوسروں کے گھروں کے آگے پھینک دیتے ہیں، جس سے نہ صرف دوسرے مکین پریشان ہوتے ہیں، بلکہ تعفن کی وجہ سے راہ گیر بھی شدید اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بلدیہ عظمیٰ کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں فوری اور موثر کارروائی کرنے اور متعین کردہ مقامات پر آلائشوں کا ڈھیر نہ لگنے دے ۔
نئے بلدیاتی نظام سے نہ صرف شہری کم واقف ہیں بلکہ بہت سے افسران بھی کبھی اضلاع اور کبھی ٹائون کی تقسیم کے بیچ میں الجھ جاتے ہیں ، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عید قرباں کا موقع بھی شہری حکومت کا ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔
یہ موقع بارشوں کی طرح اچانک اور غیر متوقع نہیں ہوتا، اس لیے اس کے لیے تیاری نہ ہونے کا عذر کارگر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بلدیہ عظمیٰ اس اہم موقع پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے منصوبوں کو مربوط اور منظم بنائے تاکہ عید قرباں کے موقعہ پر شہری کسی قسم کی زحمت سے دوچار نہ ہوں۔ اس کے ساتھ شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صفائی کے عملے سے تعاون کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
قربانی کے لیے ملک بھر میں مویشی منڈیاں سج گئی ہیں۔ مسلمان مذہبی فریضے کی انجام دہی کے لیے تیاریاں کررہے ہیں اور چند ہی دنوں میں جانوروں کی خریدوفروخت کا سلسلہ عروج پر ہو گا۔
یوں تو شہر قائد کے ہر چوراہے پر مویشی منڈی نظر آرہی ہے ، جہاں بیوپاری اپنے مویشی فروخت کر رہے ہیں ۔شہر میں خالی پلاٹوں پر بھی ٹینٹ لگا کر جانور فروخت کیے جا رہے ہیں ۔ مصروف چوراہوں پر جانوروں کی فروخت سے ٹریفک کی روانی متا ثر ہوتی اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
کراچی میں ہر سال سپرہائی وے کے وسیع رقبے پر مویشی منڈی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس سال بھی یہ روایتی مویشی منڈی قائم کر دی گئی ہے اور اس کی تشہیر ی مہم بھی زوروں پر ہے۔ یہ منڈی خریداروں کا مرکز نگاہ ہوتی ہے ۔ کراچی میں عید قرباں پر لاکھوں کی تعداد میں قربانی کے مختلف جانور منڈیوں میں پہنچائے جاچکے ہیں ، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔
یہ جانور ملک کے مختلف حصوں سے کراچی لائے جاتے ہیں، جہاں فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں رقم دینے کے بعد بیوپاری کو خریدوفروخت کی اجازت دی جاتی ہے۔ ماضی میں شہریوں کو منڈی میں جانے اور جانور کی خریداری پر کسی قسم کی فیس ادا نہیں کرنا پڑتی تھی، لیکن اب یہ روایت بھی جنم لے چکی ہے۔ بیوپارلوں سے اس منڈی میں فی گائے اور بیل ایک ہزار روپے جب کہ بکرا،دنبہ اور بھیڑ چھ سو روپے فیس وصول کی جائے گی۔
مختلف مویشی منڈیوں کے ایڈمنسٹریٹروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کی نسبت بیوپاریوں اور خریداروں کے لیے منڈیوں میں بہتر انتظامات کیے گئے ہیں۔ ادھر کے ایم سی کمشنر خریداروں کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے انہیں مناسب سیکوریٹی کی فراہمی کا دعوی کررہے ہیں۔ ملیر کینٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر محمدفاروق نے عیدالضحیٰ پر سب سے بڑی مویشی منڈی کا افتتاح کرتے ہوئے انتظامات اور خدمات سے متعلق بتایا کہ منڈی میں پرائس کنٹرول کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ خریداروں کو منہگے داموں کی شکایت سے بچایا جاسکے۔
اس کے ساتھ ویٹرنری ڈاکٹروں کی ٹیم بھی مختلف مویشی منڈیوں میں 24 گھنٹے خدمات انجام دے گی تاکہ کسی بھی بیماری سے مویشیوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ خریداروں کی سہولت کے لیے مویشی منڈی میں کئی مقامات پر قربانی کے جانوروں کو مال بردار گاڑیوں پر چڑھانے کے لیے ریمپ بنائے گئے ہیں۔ شہریوں کی سہولت اور لوٹ مار کے واقعات سے بچانے کی غرض سے منڈی میں اے ٹی ایم مشین بھی نصب کی گئی ہے۔ ایک شکایتی سیل بھی قائم کیا گیا ہے جو 24 گھنٹے کام کرے گا اور بیوپاری یا کسی بھی خریدار کی جانب سے کی جانے والی شکایت پر فوری ایکشن لے گا۔
موجودہ حالات اور بدامنی کے پیش نظر 32 مقامات پر کلوز سرکٹ کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہر قسم کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ کسی بھی مشکوک فرد کی موجودگی پر سیکوریٹی اہل کار فوری کاروائی کریں گے۔ مویشی منڈی کے ایڈمنسٹریٹر شہاب علی کے مطابق پہلے قربانی کے جانور منڈی میں لانے اور یہاں سے گھروں تک لے جانے کے لیے ریمپ کے استعمال پر شہریوں سے 200 روپے اور بیوپاریوں سے بھی رقم بٹوری گئی تھی، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مویشی منڈی میں پارکنگ کا بہتر ین انتظام کیا گیا ہے، جس میں موٹر سائیکل کی پارکنگ پر دس روپے اور کار کے لیے تیس روپے وصول کیے جائیں گے۔
کراچی کے مختلف مقامات پر مویشی منڈی کے انتظامات اور دیگر امور میں شہری حکومت کا کردار نہایت اہم ہے۔ یہی نہیں بلکہ قربانی کے بعد جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگانے اور صفائی ستھرائی کا کام انجام دینے لیے بھی مقامی حکومت کے عملے کو ہنگامی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ اس کے لیے ایمرجینسی نمبرز پر کال کر کے آلائشوں اور صفائی ستھرائی کے کام کے ضمن میں شکایات درج کرانے کے لیے ایک شعبہ بھی قائم کیا جاتا ہے ۔
ان سارے انتظامات کے باوجود ہر سال شہریوں کو بدبو، غلاظت اور گندگی کے ساتھ ہی عید گزارنا پڑتی ہے۔ اس حوالے سے ہم شہریوں کی ذمہ داریوں کو دو حصے میں تقسیم کرسکتے ہیں، اول عید الاضحیٰ سے پہلے اور دوم عید الاضحیٰ کے بعد۔ عید سے پہلے اس چیز کا خیال رکھنا ہوگا کہ جانور ایسی جگہ نہ باندھے جائیں، جس سے دیگر لوگ پریشان ہوں اور ٹریفک کی روانی میں خلل پڑے اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، جب کہ عید کے ایام میں اس سے بھی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ قربانی کے بعد جانوروں کی آلائشیں گلیوں میں پھینکنے کے بہ جائے، انہیں ان مخصوص جگہوں پر ڈالا جائے جو بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے متعین کی جاتی ہیں۔
اکثر شہری غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانی کے بعد آلائشیں اپنے گھر کے آگے سے تو ہٹا دیتے ہیں، لیکن دوسروں کے گھروں کے آگے پھینک دیتے ہیں، جس سے نہ صرف دوسرے مکین پریشان ہوتے ہیں، بلکہ تعفن کی وجہ سے راہ گیر بھی شدید اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بلدیہ عظمیٰ کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں فوری اور موثر کارروائی کرنے اور متعین کردہ مقامات پر آلائشوں کا ڈھیر نہ لگنے دے ۔
نئے بلدیاتی نظام سے نہ صرف شہری کم واقف ہیں بلکہ بہت سے افسران بھی کبھی اضلاع اور کبھی ٹائون کی تقسیم کے بیچ میں الجھ جاتے ہیں ، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عید قرباں کا موقع بھی شہری حکومت کا ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔
یہ موقع بارشوں کی طرح اچانک اور غیر متوقع نہیں ہوتا، اس لیے اس کے لیے تیاری نہ ہونے کا عذر کارگر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بلدیہ عظمیٰ اس اہم موقع پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے منصوبوں کو مربوط اور منظم بنائے تاکہ عید قرباں کے موقعہ پر شہری کسی قسم کی زحمت سے دوچار نہ ہوں۔ اس کے ساتھ شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صفائی کے عملے سے تعاون کریں اور ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔