ایک نئی شروعات

بھارت اور پاکستان کے درمیان عداوت ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے

میرے خط کے جواب میں وزیر اعظم نواز شریف نے لکھا ہے کہ: ''میں اس وقت کا منتظر ہوں جب پاکستان اور بھارت ماضی کے مضمحل کر دینے والے بوجھ کو اتار پھینکنے کے قابل ہو جائیں گے اور زیادہ توجہ مستقبل پر مرکوز کر سکیں گے جب ان دو قابل فخر خود مختار قوموں کے تعلقات چیلنجوں کے بجائے مفید مواقع سے استفادہ کرنے پر منحصر ہو سکیں گے''۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ان کی ملاقات ان کی اس پُر جوش تمنا کا ایک ٹھوس ثبوت ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان عداوت ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس میں کمی کے لیے کوئی بھی اقدام اطمینان و راحت کا باعث محسوس ہوتا ہے۔ ان دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے فاصلے کم نہ کر سکے تاہم اس سے وہ جمود ضرور ٹوٹا ہے اور یہ ایک اچھی شروعات کی علامت ہے۔ تشکیکی فکر رکھنے والوں کو خوش کرنا مشکل ہے بالخصوص جب نواز شریف نے من موہن سنگھ کو دہشتگردی کے تربیتی مراکز کے بارے میں کوئی یقین دہانی نہیں کرائی تاہم دونوں کی ملاقات آگے کی جانب ایک قدم ہے۔ دونوں وزرائے اعظم اپنی داخلی اپوزیشن لابی کی طرف سے شدید دبائو میں تھے اس کے باوجود وہ ثابت قدم رہے اور پورے ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ دونوں ہی اس بات پر داد و تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ملاقات کو منسوخ کرنے کے بجائے آپس میں بات کرنے کو ترجیح دی ورنہ امن کے امکانات کو بڑا دھچکا لگتا۔

اُن لوگوں کی منطق میری سمجھ سے بالاتر ہے جو اس ملاقات کے خلاف تھے۔ کیا اس کے سوا اور کوئی متبادل بھی ہو سکتا ہے؟ دونوں فریق بات چیت کو معطل کر سکتے ہیں مگر انھیں جلد یا بدیر بات کرنا ہی ہو گی اور اس ملاقات کا نتیجہ مثبت تھا۔ دونوں وزرائے اعظم نے اولین ترجیح کی بالکل درست نشاندہی کی ہے: وہ یہ کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کو مستحکم کیا جائے۔

اس حوالے سے معاہدہ 1993ء میں کیا گیا تھا جو پورے ایک عشرے تک قائم رہا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جموں کشمیر میں پانچ بھارتی فوجیوں کو مار ڈالا گیا۔ اب جب کہ دونوں وزرائے اعظم نے اپنے اپنے ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن) کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ مل کر اس امر کو یقینی بنائیں کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ ہو سکے۔ دونوں ڈی جی ایم او کو یہ کھوج بھی لگانا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کس وجہ سے ہوئی۔ درست کہ اس کے ذمے دارنان اسٹیٹ ایکٹرز ہی ہوں گے نہ کہ پاک فوج۔ لیکن یہ لوگ جموں کشمیر میں کس طرح داخل ہو گئے؟ ظاہر ہے کہیں نہ کہیں سے ان کے ساتھ تعاون تو کیا ہی گیا ہو گا۔

طالبان کے عفریت نے عملی طور پر پاکستان میں ہر جگہ کو غیر محفوظ بنا دیا ہے لہذا ان کے ساتھ سخت ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج سوات اور شمالی وزیرستان کے کچھ علاقے میں موجود رہے گی جو افغانستان سرحد کے قریب ہے۔ پورے خطے کو القاعدہ سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے جو کہ طالبان کو ہدایات دے رہی ہے۔

آیندہ سال جب امریکی فوجی دستے افغانستان سے انخلا کریں گے تو صورتحال اور زیادہ خطرناک ہو جائے گی۔ القاعدہ نے پہلے ہی نوجوانوں کی بھرتی شروع کر دی ہے اور انھیں حملے کرنے کی تربیت دینا شروع کر دی ہے جو وہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے بعد کریں گے۔ مجھے افغانستان کی فوج اور ان کی پولیس کی صلاحیت پر، جنھیں کہ امریکا نے تربیت دی ہے، شک ہے کہ وہ القاعدہ کے حملوں کا مقابلہ کر سکیں گی۔


میرا خیال ہے کہ القاعدہ کی مذہبی انتہا پسندی کے نظریے کو پاکستان کے عوام تک پوری وضاحت کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا۔ یہ ملک اس انتہا پسندی کا ایک مظاہرہ اُس وقت دیکھ چکا ہے جب طالبان نے کچھ عرصے کے لیے وادی سوات پر قبضہ کر لیا تھا۔ میوزک شاپس بند کر دی گئیں اور لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ عورتوں کے لیے پردے کو زبردستی نافذ کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی انھیں حکم دیا گیا کہ وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ آزادی اظہار کا کوئی موقع موجود نہیں تھا چہ جائیکہ آزاد خیالی کا کوئی تصور کیا جا سکے۔اس علاقے کے مدارس بنیاد پرستی کے نظریے کی نرسریاں بن گئیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بعض مسلمان ممالک ان کی مالی امداد کیوں کر رہے تھے۔ لیبیا جو پہلے ہی بدنام ہو چکا ہے وہ انھیں مبینہ طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک اس 'عرب بہار' کو فراموش کر چکے ہیں جب آزاد خیال عناصر بنیاد پرستوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک نے جمہوریت کے نعرے لگانے شروع کر دیے تھے۔ لیکن بنیاد پرستوں نے طلباء کی صفوں میں گھس کر ان میں تقسیم پیدا کر دی اور اس طرح جمہوری حکومتوں کے قیام کے مطالبہ کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔ القاعدہ کی بنیاد پرستی ایک بار پھر 'عرب بہار' کی روح کو تازہ کر سکتی ہے۔

میری خواہش ہے کہ من موہن سنگھ اور نواز شریف القاعدہ کے ازسرنو ابھرنے کے امکانات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کرتے۔ بالخصوص جب مغربی افواج افغانستان سے نکلیں گی تو اس خلا کو کون سی طاقتیں پُر کریں گی۔ اگر دونوں ممالک القاعدہ کے پروردہ طالبان کے خلاف محاذ بنانے کا فیصلہ کرتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ ابھی تک تو صورت حال قابو میں ہے لیکن ہندو طالبان کے پیدا ہونے کے بعد یہ حالات بے قابو بھی ہو سکتے ہیں۔

میری خواہش ہے کہ دونوں ممالک اس صورت حال کی نزاکت کا اندازہ لگا کر مشترکہ ایکشن پر غور و خوض کرتے۔ نئی دہلی حکومت کو اس صورت حال کا ادراک کرنا چاہیے کہ مبادہ اسلام آباد میں طالبان کو غلبہ حاصل ہو جائے۔ حتیٰ کہ کینیا اور نائیجیریا بھی القاعدہ کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختون خوا) کا دارالحکومت پشاور القاعدہ کا بطور خاص ہدف ہے۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے میں وہاں پر تین حملے ہو چکے ہیں جن میں کم و بیش دو سو افراد لقمہ اجل بن گئے۔

من موہن سنگھ نے جب نواز شریف کو 26/11 کے ممبئی حملے کے ذمے داروں کے خلاف ایکشن لینے کی بات کی تو انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے ایک عدالتی کمیشن نے بھارت کا دورہ بھی کیا ہے۔

اس پس منظر میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی کانگریس کے خلاف ہرزہ سرائی نا مناسب تھی۔ اس نے ایک پاکستانی ٹی وی اینکر کے ریمارکس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہ نواز شریف نے من موہن سنگھ کا موازنہ ایک دیہاتی عورت کے ساتھ کیا ہے اپنی انتخابی مہم میں جوش پیدا کرنے کی کوشش کی حالانکہ نواز شریف نے اس قسم کا کوئی ریمارکس دیا ہی نہیں تھا جیسا کہ بعد میں ظاہر ہوا۔ مودی ملک کا وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ لہٰذا اسے احساس ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لیکن وہ جذبات کی رو میں بالکل ہی بہہ گیا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story