مسکراہٹوں کے تبادلے

البتہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ہمارے وفد کا شراکت دار بن کر سامنے آیا ہے خصوصیت کے ساتھ وہ جو امن کے گیت گا رہا ہے

anisbaqar@hotmail.com

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اختتامی اجلاس میں میاں نواز شریف کے بعض سوالوں کا جواب خصوصاً ڈرون حملوں کی وضاحت کردی گئی لہٰذا اگر اے پی سی کا یہ مطالبہ تو پاکستان منوانے کی پوزیشن میں نہیں جو طالبان کی امن شرائط کا ایک اہم جز ہے۔ اب اے پی سی کے لیڈران اس مسئلے سے کس طرح نبردآزما ہوتے ہیں یہ ان کا فکری اور عملی امتحان ہے۔ پاکستانی حکومت کے قائدین گزشتہ 2 دہائیوں سے زائد عرصہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں جن کا کوئی حساب کتاب نہ لیا جاسکے ۔

لہٰذا پاکستان میں لیڈری ایک بہترین کاروبار ہے اور اگر کوئی کاروباری ہو تو پھر سونے پر سہاگا ، جب تک نعرے کا ریکارڈ پوری طرح نہیں گھس جاتا وہی ریکارڈ چلتا رہے گا۔ آدھا ملک گنوا کے بیٹھ چکے ہیں اور اب باقی ماندہ کے پیچھے پڑے ہیں ایک ایک وزیر کی جان بچانے کے لیے پولیس کے دستے آگے بھی ہیں اور پیچھے بھی ہیں مگر جمہور بے امان ہے ان حکمرانوں کے تن لگنے والے دھن، ان کی رہائش گاہوں میں پلنے والے من کل کے حاکم ہیں دھن کی گھن گرج میں ان کا ہر قدم بڑھتا ہی رہتا ہے مگر عالمی منظرنامے پر ان کی اوقات کیا ہے ، شاعر حسن حمیدی کے قلم کی یہ آواز سنیے!نظم کا عنوان ہے ''بھکاریوں کی آواز''

ہماری جھولی میں بھیک دے دو

ہماری جھولی میں بھیک دے دو

دیار ظلمت کے پاسبانو

فصیل شب کے نگہہ بانو

ظلِ خدا کے مانند محترم ہو

ادھر بھی کچھ بارش کرم ہو

کھنکتے ڈالر کی گونج سن کر


نہ جانے دل کیوں دھڑک رہا ہے

کہ جیسے اپنا عظیم پرچم

کفن میں تبدیل ہو رہا ہے

یہ مردہ روحوں کی انجمن ہے

گداگروں کی یہ بزم فن ہے

عوام افلاس کے کس کرب سے گزر رہے ہیں ، کوئی پوچھے ان چاک گریباں والوں سے کوئی زیادہ دن نہیں پچھلے ہفتے کی بات ہے گزشتہ ہفتے کراچی کے ایک مزار کے سامنے چائے پی رہا تھا ، عین چائے خانے کے سامنے ایک عورت سے پہلے الٹی کرنے کی آواز آئی ، بس دوسرے لمحے وہ گر پڑی تو اس کو ہوٹل پر موجود چھوٹے لڑکے سے کہا کہ اس کو پانی پلاؤ، پانی پی کر بڑی مشکل اور نقاہت سے بولی صبح سے کچھ کھایا نہیں۔ 7/6 سالہ بچی اس کے ساتھ اس آس پر آئی تھی کہ مزار پر کچھ لنگر مل جائے گا۔ جو مجھ سے ہوسکا اس کو اور بچی کو کھلایا اس کی آنکھیں کھلیں مختصر سی رقم اس کو چھپا کے دی ۔ اس نے کہا ہم فقیر نہیں ہیں اصرار پر اس نے رکھ لیا اتنے میں ایک گاڑی آکر رکی اور لنگر اس کے ہاتھ میں تھمایا میں نہیں جانتا وہ کون تھی کہاں سے آئی تھی، لیکن اس سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگوں کی کیا حالت ہورہی ہے۔

یہ ملک ہے ہمارا جس کی زمین سونا اگلتی ہے، جس کے دریا سال میں کئی بار سمندر کو میٹھا پانی پلاتے ہیں مگر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمارے ملک کو دہشت گردی کے حوالے کردیا جو غش کھاکر گر نہیں سکتے ۔ انھوں نے زندگی کے لیے دوسری راہیں ڈھونڈ لی ہیں ، ملک معاشی اور سیاسی طور پر تو سامراجی ساہو کاروں کے ہاتھوں رہن رکھ دیا گیا ہے پھر بھی ہم یہ توقع کریں کہ عوامی فورم پر ہماری کوئی بات سنی جائے گی ہرگز نہیں۔ ہمارے لیڈر عوام کو دھوکا دینے میں کمال رکھتے ہیں، وہ ایک صدر بھی لائے ہیں مگر صدر تمام معاملات میں مقفل ہیں ، مانا کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کے صدر نہیں مگر وہ سیاسی مشورے دینے کی اہلیت تو رکھتے ہیں ملکی مفادات اور عالمی منظر نامے پر ان کی نگاہ کیا ہے ، بین الاقوامی فورم پر ہماری سیاسی بصیرت کی کوئی پذیرائی نہ کی گئی جب کہ ایران کے سلسلے میں امریکی موقف میں لچک نظر آتی ہے اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا بھارت جس انداز میں گفتگو کر رہا ہے اس کی لائن کافی عرصہ پہلے امریکا سے طے شدہ امور کے دائرے میں ہے۔

البتہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ہمارے وفد کا شراکت دار بن کر سامنے آیا ہے خصوصیت کے ساتھ وہ جو امن کے گیت گا رہا ہے نہ اس کے پیچھے کوئی مقصدیت ہے نہ ہمت اور نہ نظریہ اگر نظریہ اور جرأت ہو تو یہ معاملہ تسلسل سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے تھا مگر ان تمام شور وغوغا کے چند دنوں بعد معاملات بھارت کی جھولی میں چلے جائیں گے اور وہ ڈپلومیسی کے تھیلے سے اپنے نقطہ نظر سے مسائل کو دیکھتا رہے گا کیونکہ عالمی فورم پر کشمیر پر پاکستان کی کوئی لابی نہیں ، حسین حقانی جو زرداری دور میں پاکستان کے بڑے سرگرم تھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کس ملک کے سفیر تھے ، میموگیٹ کے ایک اہم کردار ضرور تھے ، ظاہر ہے پاکستان اور امریکا کے ڈاکخانے ملانے کے لیے جن لوگوں کو بھی رکھا جاتا ہے ان کی بچکانہ سوچ ہوتی ہے شیری رحمن صاحبہ کی پرفارمنس کا تجزیہ کیا جائے تو وہ بھی صفر ہی ہے مگر پاکستانی حکمران اب تک یہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کی نمایندگی سے خاصا فرق پڑے گا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ واجد شمس الحسن صاحب نے برطانیہ میں جس پختگی کا ثبوت دیا وہ ان کی ذاتی صلاحیت اور ان کی سیاسی اور علمی بصیرت ہے آپ خود سوچیے کہ جس ملک میں وزارت خارجہ کا قلمدان عملاً خالی ہو ایک کی جگہ کئی وزیر خارجہ کے ماہرین بیٹھے ہوں تو پھر کیا ہوگا جب کہ بھارت نے سلمان خورشید کو وزارت خارجہ کا قلم دان دے رکھا ہے جنہوں نے من موہن سنگھ ، نوازشریف کی ملاقات سے کچھ دیر قبل ہی ایسے بیانات داغے جو امور گفتگو طلب تھے۔

یہ بیانات سب کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت دیے گئے جس کا مقصد پاکستان کو دباؤ میں رکھنا تھا تاکہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو زیادہ پریشر سے نہ اٹھائے محض رسمی سی گفتگو ہو اور اس سے بھارت کو کافی فائدہ حاصل ہوا ۔ اب حل طلب مسائل میں ایک اور اہم پہلو امریکی میڈیا پر پاک بھارت مذاکرات کی کوئی اہمیت نہ دی گئی اور پاکستانی وزیر اعظم کی کوئی ترجمانی نہ کی گئی بلکہ یہاں سے اینکر پرسن اور ہم خیال لے جائے گئے جن کا امریکی دانشوروں میں کوئی مقام نہیں بلکہ ایسا لگا کہ امریکا بھارت کی پشت پر کھڑا ہے۔ پاکستان اس وقت معاشی اور خوں ریزی جیسی مشکلات میں گھرا ہوا ہے 90 دنوں میں 560 ارب کے نوٹ چھاپ چکا ہے لہٰذا گفتگو کا یہ وقت جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہ تھا البتہ آگے آگے دیکھیے تعلقات میں تجارتی فروغ ممکن ہے ورنہ یہ دو وزرائے اعظم کے مابین مسکراہٹوں کے تبادلے کے علاوہ کچھ نہ تھا جس کے لیے یہ اہتمام اور میڈیا پر دونوں جانب سے نفرتوں کے الاؤ جلائے گئے، البتہ نواز شریف کی طرف سے خطے میں امن کی پہل قابل تحسین تھی مگر اہل وطن پر نرخ کے اعتبار سے آسمانی بجلی گرانا عوامی مینڈیٹ کی خلاف ورزی سے کم نہیں۔
Load Next Story