آخر کب تک …

تعلیم اور علم کا ہتھیار، اعلیٰ اخلاقی قدریں ان کا ورثہ تھیں۔


Wasay Jalil October 03, 2013

آج سے پینتیس برس قبل پاکستان کی فرسودہ، جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کی حامل سیاست میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہلچل سی مچا دی ۔ پہلے پہل اس سوچ نے اُن پاکستانیوں کی نمایندگی کا بیڑہ اُٹھایا جو قیام پاکستان سے قبل بھی نہ صرف پاکستانی تھے بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے لیے حاصل کیے جانے والے وطن پاکستان کے لیے عظیم جدوجہد کر رہے تھے۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ان کے خواب چکنا چور ہوئے، کیونکہ مسلمان نہ تو بحیثیت امہ متحد رہ سکے اور نہ ہی اس قوم کا روپ دھار سکے جس کے لیے یہ عظیم وطن حاصل کیا گیا تھا۔ 60ء کی دہائی ہی میں ملک کے وفاقی دارالحکومت میں تشدد کا آغاز ہوا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کو جرم بنا دیا گیا۔

یہ سلسلہ مختلف حیلے بہانوں سے جاری رہا اور صوبہ سندھ کو دو لسانی صوبہ قرار دے کر تعصب کو باقاعدہ طور پر قانون کی شکل دی گئی ۔مظالم کا اگر کسی کو مشاہدہ کرنا ہے تو اس کی باقیات آج بھی''شہدائے اُردو'' کے نام سے تعمیر کیے جانے والے چوک کی صورت میں موجود ہیں اور ان مظالم کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔ یہ ان کا ورثہ ہے جو 70ء کی دہائی میں ملک کولسانیت کی آ گ میں جھونکنے کے خلاف تھے ۔اور جب سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کا استحصال انتہائی حدوں کو پہنچا تو پھر اس سوچ کو عملی شکل دی گئی جو آنے والی نسلوں کی بقاء، پاکستانیت کے تحفظ کا علم اٹھائے ہوئے تھی، یوں ایک طلباء تنظیم نے دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک سیاسی جماعت کو جنم دیا۔ یہ جماعت ان نوجوانوں پر مشتمل تھی جو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

تعلیم اور علم کا ہتھیار، اعلیٰ اخلاقی قدریں ان کا ورثہ تھیں۔ یہ وہ نوجوان تھے کہ جن کے گھروں کے چولہے تو بجھ گئے، تنگدستی اور علاج و معالجہ کی عدم موجودگی میں ان کے گھروں میں موت نے ڈیرے ڈالے، لیکن یہ جرم اور غیر اخلاقی حرکات سے دور رہے۔ نسل کی بنیاد پر ایک نام نہاد اتحاد بنا کر اس مثبت نظریے کے سامنے صف آراء کیا گیا، جس میں ڈرگ مافیا، ٹریفک مافیا اور قبضہ مافیا کو اس نام نہاد اتحاد کا حصہ بنا کر شہر کراچی کو مصنوعی طور پر لسانی فسادات کی آگ میں جھونکا گیا، جب کہ پس پردہ مقاصد اس تعلیم یافتہ سوچ کا راستہ روکنا مقصود تھا، جو ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے عوام کو متحد کر رہے تھے۔ اس طویل اور صبر آزما جدوجہد میں نومبر 1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کیا اور بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی بلدیاتی حکومت نے کراچی اور حیدر آباد میں وہ مثالی اقدامات کیے جو آج بھی نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اور یہی تاریخ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے نامزد ناظمین نے رقم کی اور ترقی کی ایسی تاریخ رقم کی جو مثال بن گئی۔

اس منظم ، متحرک اور مثبت سیاسی نظرئیے نے 1988ء اور 1990ء کے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کا سکہ جمایا اور یہاں سے ایم کیو ایم کے خلاف ایک ایسی سازش سامنے آئی، جس کا جال گزشتہ کئی دہائیوں سے بنا جارہا تھا۔ جب ظلم کے تمام ہتھکنڈے اس آہنی قیادت کے سامنے جسے دنیا الطاف حسین کے نام سے جانتی ہے، ناکام ہوئے تو پھر وہ آسان راستہ بھی اختیار کیا گیا جو پاکستان کی غیر سنجیدہ سیاست کا وطیرہ رہا ہے۔ یعنی ملک دشمنی کے الزاما ت۔ اس ضمن میں 1992ء کا ریاستی آپریشن مثال بنتا ہے کہ جس کے دوران ایک اسپانسرڈ پریس بریفنگ میں ریاستی اداروں نے ایم کیو ایم پر جناح پور بنانے کا الزام عائد کیا اور اس کے نقشے بھی برآمد کر لیے جو بعد ازاں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اور الزام لگانے والوں نے ہی اسے ڈرامہ قرار دیا، لیکن اس بھونڈے الزام کو بنیاد بنا کر پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ جرائم کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی گئی اور ہزاروں بے گناہوں کو ماورائے عدالت وقانون قتل کیا گیا۔

سندھ کے سابق گورنر حکیم سعید کے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم پر لادا گیا جو بعد ازاں جھوٹا ثابت ہوا۔ بھتہ خوری اوربوری بند لاشیں کے الفاظ محاورے کے طور پر استعمال کیے جانے لگے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بھتے کی پرچیاں کراچی کے کس علاقے سے جاری کی گئیں اور پورے شہر میں ایک منظم طریقے سے تقسیم کرکے بھتہ وصول کیاجانے لگا۔ شناختی کارڈ دیکھ کر انسانوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔ اگر آج آپ ملک کے دیگر حصوں کا دورہ کریں تو نوجوان نسل سمیت ہر شخص ایم کیو ایم پر اس طرح تنقید کرتا ہے جیسے اس نے ایم کیو ایم پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر سند حاصل کی ہو۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کب تک صرف الزامات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیاجاتا رہے گا اور اس ترقی یافتہ سوچ کو پھیلنے سے روکا جاتا رہے گا۔ اس سیاست کی وجہ سے ملک نہ صرف تقسیم ہوا، بلکہ آج بھی مذہبی انتہا پسندی، نظریاتی ابتری، نسلی و لسانی نفرتوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر آن پہنچا ہے۔

دوسری جانب اجتماعی آبرو ریزی، خواتین کا استحصال، طاقتور عناصر کی نجی جیلیں اور تشدد کی مختلف وارداتیں اخلاقی ناسور بن چکی ہیں اور ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا شہری دستیاب نہیں جو مکمل طور پر حقوق و فرائض قانون کے دائرے میں رہ کر انجام دیتا ہو۔ ہم کیوں نہ مذہبی رواداری ، نسلی اور لسانی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے اس قوم کی تشکیل کے لیے کام کریں جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا اور بالخصوص قائد اعظم کے افکار و خیالات کا عکاس ہو، لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایم کیو ایم سے نفرت کا سلسلہ نئے ہزارئیے میں بھی جاری ہے۔ جس کی مثال 12 مئی 2007ء کے واقعات ہیں جس میں ایک بار پھر ایم کیوا یم کو نشانہ بنایا گیا، لیکن کسی سطح پر بھی اسے ثابت نہ کیاجاسکا۔ جناح پور کی طرز پر مہاجر ری پبلکن آرمی کا شوشہ چھوڑا گیا اور انیس ہزار کنٹینرز کی گمشدگی کا عجوبہ بھی ایم کیو ایم کے کھاتے میں ڈالا گیا۔ یہ الزامات بھی ماضی کے الزامات کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

بنیادی طور پر منطق کی بنیاد پر اگر اس پوری بحث کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ اگر دوسری جماعت کے بچے کو بھی بے جا تنقید ، دشنام طرازیوں اور الزامات کا تواتر کے ساتھ سامنا ہو تو اس کا رد عمل سامنے آسکتا ہے، یہاں تو پھر بھی ایک ایسا طبقہ آپ کے سامنے ہے جس نے علم کو اپنی میراث اور شاندار روایات کو اپنا شعار بنایا ہوا ہے اور اسے مسلسل اس قسم کے الزامات کا سامنا ہے جس سے اس کا دور پرے کا کوئی تعلق نہیں، اس کا ردِ عمل آنا بھی کوئی غیر فطری بات نہ ہوگی۔ اس موقعے پر راقم یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ الطاف حسین ایک شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ طاقت کے ذریعے جسموں پر حکومت کی جاسکتی ہے لیکن دلوں پر حکمرانی کے لیے ایک مضبوط نظریے اور ایک قابل عمل کردار کی ضرورت ہوتی ہے اور الطاف حسین کی شخصیت میں یہ صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین عوام کے دلوں میں بستا ہے اور اس کی محبت عوام کے دلوں سے مٹانا طاقت کے ذریعے ممکن نہیں۔ آخر کب تک طاقت کے ذریعے محبت کو نفرت میں بدلنے کی سعی لاحاصل کی جاتی رہے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں