سائیکل مل گئی…
یہ بات بہت اہم ہے کہ جب ہمارا ملک اقتصادی طورپر بے حد خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے
2013 پاکستان کے لیے اس قدر مبارک ثابت ہوا کہ جس میں ایک جمہوری حکومت نے بخیر و خوبی اپنی آئینی مدت مکمل کرلی، ملک کے سابق صدر بھی اپنی مدت صدارت پوری کرکے بڑے عزت و احترام کے ساتھ ایوان صدارت سے رخصت ہوئے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح برسر اقتدار جماعت نے بھی اپنے عظیم الشان جلسوں میں کئی خوشنما وعدے کرکے عوام کو خوش گمانیوں میں مبتلا کیا تھا، ان وعدوں میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی سے نجات سرفہرست تھے۔ لوگ سمجھے کہ حکومت کے بدلتے ہی ملک کے حالات راتوں رات تبدیل ہوجائیں گے اور وہ جو زندگی کے عذاب جھیل رہے تھے وہ سب قصہ پارینہ ہوجائیں گے، ہر طرف خوشحالی، امن و سکون اور بھائی چارے کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی کہ چشم فلک نے اس سے قبل کبھی روئے زمین پر نہ دیکھی ہوگی۔
نئی حکومت کے ابتدائی سو دن بھی ماشاء اﷲ مکمل ہوچکے ہیں، حالات جوں کے توں بلکہ کچھ شعبوں میں پہلے سے بھی بدتر ہوچکے ہیں۔ خوش گمانیاں بدگمانیوں میں اور خوشحالی ایک ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوچکی ہے۔ برسر اقتدار جماعت کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے وعدوں اور منشور کو عملی جامہ نہ پہنا سکی۔ ابھی تک ایک مسئلہ بھی حل نہ ہوسکا۔ غربت، غربت کی لکیر سے نیچے، بہت نیچے اور امارت (چند خاندانوں کی) آسمان کو چھو رہی ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہیں مگر گدا گری کی صنعت نے جو ترقی کی ہے وہ واقعی قابل داد ہے۔ ہم بھی سینہ ٹھونک کر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی کسی نہ کسی شعبے میں ترقی ہوئی ہے، ویسے ترقی تو دہشت گردی، لوٹ مار، ڈاکا اور راہ زنی کے علاوہ قومی اداروں کے انحطاط میں بھی خوب ہوئی ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ جب ہمارا ملک اقتصادی طورپر بے حد خطرناک صورتحال سے گزر رہا ہے، جب قوم کا بچہ بچہ مقروض ہے تو اصلاح احوال کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ جس کو دیکھو مہنگائی اور غربت کے باعث مدد کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے۔ اتنے برے حالات میں بھی نہ شادی بیاہ کی دھوم دھام، نہ جہیز کے لین دین، نہ دکھاوے اور نمائش میں کسی قسم کی کمی نظر آئی بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ مگر بات ہورہی تھی ملک میں غربت کے باوجود دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بڑھئی، دھوبی، پلمبر حتیٰ کہ گٹر صاف کرنیوالا، چولہے، کوکر کی مرمت کرنیوالا غرض ہر شخص موٹر بائیک پر اپنا کام کرنے نکلتا ہے، پٹرول کی مہنگائی کا شور الگ، ان موٹر بائیک سے نکلتے دھوئیں اور شور سے آلودگی میں اضافہ الگ ہورہا ہے۔
تقریباً تین سال سے میرا یہ معمول ہے کہ جب کام کے لیے گھر سے نکلتی ہوں تو سارے راستے سائیکل تلاش کرتی رہتی ہوں، اتنے عرصے میں کسی دن دو کسی دن صرف ایک سائیکل سوار نظر آتا ہے ورنہ ساری سڑک پر موٹر بائیک کی ہی ریس ہورہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کسی دکان کے پاس کوئی سائیکل کھڑی نظر آتی اور میں حیران ہوتی ہوں کہ اتنی غربت اور مہنگائی کے باوجود لوگ آخر سائیکل استعمال کیوں نہیں کرتے۔ شہر کراچی جہاں سفری سہولتوں کا فقدان ہے وہاں ہر شخص کار یا بائیک ہی کیوں استعمال کرتا ہے۔ تقریباً ہر اہم سڑک پر ایک نہیں کئی کئی پل بن گئے مگر ٹریفک کے اژدھام پر کوئی اثر نہیں اور نہ ہی ٹریفک کی روانی بحال ہوئی جب کہ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں اچھے بھلے لوگ سائیکل کا باقاعدہ استعمال کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں پر سائیکل کے لیے الگ ٹریک بنائے جاتے ہیں۔ خاص کر طلبا تو اپنے تعلیمی اداروں میں سائیکل پر ہی آتے ہیں۔ دور کیوں جائیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں آج بھی سائیکل کا استعمال ہورہا ہے اور چین جیسے ترقی یافتہ ملک کے تو وزرا بھی سائیکل کے استعمال کو اپنی شان کے خلاف نہیں سمجھتے مگر ہمارے یہاں تو طلبا بھی گاڑی میں آنا پسند کرتے ہیں ورنہ کم از کم موٹر سائیکل تو ضرور ہو۔
آلودگی میں اضافہ کرتی ہوئی موٹر سائیکلوں کے بجائے اگر سائیکل کا رواج عام کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس سلسلے میں ہمارے ذرایع ابلاغ بے حد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ اشتہاری کمپنیاں اگر اپنی برانڈ کی تشہیر میں سائیکل کو نمایاں کریں، اشتہارات کے کاپی رائٹرز اپنے کرداروں کو سائیکل پر سوار دکھائیں تو کم از کم نوجوان تو اس کو بطور فیشن ہی استعمال کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔ سائیکل دوڑ کے مقابلوں کا انعقاد بھی سودمند ہوگا۔ اچھی سائیکلنگ پر انعامات اور حوصلہ افزائی کے سرٹیفکیٹ بھی شاید سائیکل کے استعمال میں اضافے کا باعث ہوں۔
یہ خیال تو مجھے کئی برس سے ڈس رہا تھا کہ آخر جب ہم ایک غربت زدہ اور مقروض قوم ہیں تو ہم اپنے حالات درست کرنے کے لیے سادگی کیوں اختیار نہیں کرتے؟ مگر کل جب میں گھر سے نکلی تو میری نظر ایک سائیکل سوار پر پڑی جو خاصی پرانی سی سائیکل پر پیچھے گھاس کاٹنے والی مشین باندھے اور سامنے ہینڈل پر درختوں کی ٹہنیاں کاٹنے والی بڑی قینچی لٹکائے آواز لگاتا اور لوگوں کو متوجہ کرتا ہوا آہستہ آہستہ سائیکل چلاتا جارہا تھا کہ شاید کوئی اس کو آواز دے کر اپنے لان کی گھاس کٹوالے۔ یقین جانیے برسوں کی تلاش کے بعد جب سائیکل مل گئی اور وہ بھی اپنے ہی گھر کیسامنے تو میں نے جلدی سے بڑھ کر ان صاحب کو روکا اور ان سے تفصیلی انٹرویو لیا۔
معلوم ہوا کہ وہ حال ہی میں اپنے پنڈ (گائوں) سے تلاش معاش میں کراچی تشریف لائے ہیں، آہستہ آہستہ اپنی آمدنی سے کچھ پس انداز کرکے وہ بھی کسی کچی آبادی میں ایک کمرہ یا کسی خالی پلاٹ پر جھونپڑی ڈال کر اپنے تمام گھر والوں کو شہر بلالیں گے۔ میں سوچنے لگی کہ چلو آج سائیکل تو دریافت ہوگئی اور اب بہت جلد مزید ایک خاندان کا اضافہ شہر کراچی میں ہوجائے گا، پھر جب ان صاحب کے گھر کی خواتین گھروں میں کھانا پکانے اور صفائی کے کام پر لگ جائیں گی اور لڑکے چوکیداری، مالی یا مزدوری پر لگ جائیں گے تو ماشاء اﷲ اچھی خاصی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور یہ بھی صاحب موٹر سائیکل پر ہوجائیں گے اور ان کے لڑکے بھی فراٹے سے بائیک لہراتے سڑکوں پر گھومتے نظر آئیںگے۔ کراچی میں دھوئیں اور شور سے آلودگی میں مزید اضافے کے علاوہ سڑکوں پر لہراتی بل کھاتی موٹر سائیکلوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
یہ تو اس کہانی کا ایک پہلو ہے مگر ایسی کہانیوں کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل گلشن اقبال میں چار خواتین ڈاکا زنی میں ملوث ہونے کے باعث گرفتار کی گئی تھیں۔ ان سے تفتیش پر پورے ایسے گروہ کا انکشاف ہوا جس کی عورتیں گھروں میں کام کرتیں اور مرد مالی کا۔ یہ خواتین بڑی محنت اور خوش دلی سے کام کے علاوہ باجی کو خوش رکھنے کے لیے اضافی کام بھی بخوبی کرتی تھیں اور اپنی باجیوں کی بے حد لاڈلی اور سر چڑھی تھیں، ان کے خلوص کو دیکھ کر باجی ان پر کچھ زیادہ ہی اعتبار اور انحصار کرنے لگی تھیں، یہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے باجی سے گھر کے کئی اہم راز معلوم کرلیتیں، حتیٰ کہ گھر میں کتنا کیش رہتا ہے، کتنا سونا ہے، باجی نے کل بڑے خوبصورت بندے کانوں میں پہنے ہوئے تھے، آج بے حد قیمتی ٹاپس پہنے ہوئے ہیں اور ان کے دریافت کرنے پر باجی بڑے فخر سے ان کی قیمت تک بتادیتی۔
پیسوں کی ضرورت ہو تو باجی جو آرام سے بستر پر لیٹی کسی اخبار یا رسالے کا مطالعہ کررہی ہوتی، ماسی سے کہتی کہ فلاں جگہ پیسے رکھے ہیں، سو روپے یا پانچ سو روپے، اس میں سے ڈرائیور کو دے دو اور فلاں چیز منگوالو۔ غرض یہ کہ وہ باجی کو خوش کرنے کے لیے کبھی ان کے پائوں دبا رہی ہیں، کبھی سر میں تیل کی مالش کررہی ہیں اور باجی اس اضافی خدمت پر بے حد خوش ہیں، کچھ عرصے میں جب ساری معلومات حاصل کرلیں تو اپنے مردوں کو جاکر اطلاع دی اور انھوں نے اسلحے کے زور پر اگر باجی گھر میں تنہا ہیں تو ان کو (کیوںکہ ماسی کو گھر کے تمام افراد کی آمد ورفت کے معمولات کا علم تھا) اور اگر کوئی اور بھی تو اس کو یرغمال بناکر پورے گھر کا صفایا کردیا۔ کراچی افرادی قوت میں مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد میں بھی خود کفیل ہوتا گیا، موجودہ صورتحال سے سب واقف ہیں۔