لوگ دبئی کیوں جاتے ہیں

گزشتہ سات سال میں دبئی میں کافی نشیب و فراز آئے اور برصغیر کے تاجروں کا سرمایہ بھی بڑی تعداد میں ڈوبا

تین عشرے قبل سرکاری ٹی وی پر مقبول ہونے والا ڈرامہ ''دبئی چلو'' پیش ہوا تھا اور عام رجحان تھا کہ دبئی میں روزگار کے وسیع ذرایع موجود ہیں جس کی وجہ سے کاروباری لوگ، ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ ہی نہیں بلکہ ان پڑھ لوگ بھی دبئی جانے کو ترجیح دیتے تھے۔ 2006 میں راقم کو پہلی بار دبئی جانے پر ایک بھارتی نے بتایا تھا کہ دبئی میں صرف تیس فیصد لوگ مقامی اور ستر فیصد غیرملکی ہیں جن میں اکثریت بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش والوں کی ہے اور دبئی کی تعمیروترقی میں ان تینوں ملکوں کے باشندوں کا اہم کردار ہے مگر دبئی کے مقامی لوگ ان کی قدر نہیں کرتے جب کہ گورے خالی ہاتھ جاکر بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

گزشتہ سات سال میں دبئی میں کافی نشیب و فراز آئے اور برصغیر کے تاجروں کا سرمایہ بھی بڑی تعداد میں ڈوبا اور کروڑ پتی مالی نقصان اٹھاکر اپنے اپنے وطن واپس لوٹے۔ ان سات سالوں میں مجھے متعدد بار دبئی اور ایک ایک بار ابوظہبی، شارجہ اور اجمان جانے کا موقع ملا اور حال ہی میں دبئی سے متعلق بے شمار معلومات حاصل ہوئیں اور کچھ سمجھ میں آیا کہ لوگ دبئی کیوں جاتے ہیں۔ 12 سال قبل بلدیہ عظمیٰ کے فوجی ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر عبدالحق نے راقم کو بتایا تھا کہ پاکستان میں قوانین کو پامال کرنے والے یہی لوگ دبئی جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین کو ہاتھ میں لینا تو بڑی بات وہاں وہ ٹریفک قانون کا بھی مکمل احترام اور عمل کرتے ہیں کیونکہ وہاں قوانین پر عمل اور خلاف ورزی پرکڑی سزا ملتی ہے اور پاکستان میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کو معمول سمجھنے والے دبئی میں ٹریفک قوانین ہی نہیں بلکہ میونسپل قوانین پر بھی سختی سے عمل کرتے ہیں اور خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کا خوف انھیں ایک مہذب شہری بننے پر مجبور رکھتا ہے۔

اب دبئی میں محنت کشوں کو پہلے جیسی کمائی رہی ہے اور نہ اب وہاں روزگار کے اچھے ذرایع میسر ہیں مگر اپنے ملک میں بیروزگاری سے تنگ لوگ اب بھی ملازمت کے لیے دبئی جاتے ہیں اور کم تر ملازمت اور کم معاوضے کے باوجود وہاں رہتے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے اپنے ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ سے وہاں نوکریوں اور ٹیکسی و دیگر گاڑیوں کے ڈرائیور بننے پر مجبور ہیں۔ محنت مزدوری کرکے اپنے وطن زرمبادلہ بھیجتے ہیں اور دہشت گردی اور عالمی سطح پر اپنے ملک کو ملنے والی بدنامی کے باعث خود کو پاکستانی بتاتے ہوئے کترانے ضرور لگے ہیں مگر اپنے ملک کو وہ کبھی نہیں بھولتے اور اپنے اس دکھ کا اظہار اپنے ہم وطنوں کے سامنے ضرور کرتے ہیں۔

پاکستان میں برسوں سے جاری دہشت گردی میں مساجد اور شاہراہوں پر خودکش حملوں نے دبئی ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی مسلمانوں کو شرمندہ کررکھا تھا اور باقی کسر پشاور میں چرچ دھماکوں نے پوری کردی ہے۔ کرپشن نے پاکستانیوں کو الگ پریشان کر رکھا ہے اور ڈیڑھ دو سال ملازمت کرکے چھٹیوں پر وطن آتے ہوئے بھی انھیں خوف آنے لگا ہے اور خاص طور پر کراچی کے حالات سے وہ زیادہ پریشان ہیں کہ وہ واپسی پر اپنے گھر خیریت سے پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ دبئی میں جتنے ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات ہوئی ان میں زیادہ تر کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا جو وہاں برسوں سے جاری دہشت گردی اور اپنے عزیزوں کی ہلاکتوں کے باعث دبئی میں سرکاری ٹیکسیاں چلا رہے ہیں۔ ان میں بعض نے اعتراف کیا کہ انھیں دن رات کے دوران صبح 5 بجے یا شام 5 بجے 12 گھنٹوں کی ڈیوٹی کے دوران اپنے کمیشن کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے تیز رفتاری سے مسافر بھی پکڑنے ہوتے ہیں جس کے بعد انھیں چارساڑھے چار ہزار درہم ماہانہ کمیشن بن جاتا ہے اس کے علاوہ انھیں سہولت کوئی نہیں البتہ گاڑی کے حادثے اور ٹریفک چالان کی رقم انھیں ادا کرنا پڑتی ہے اور چھٹی لینے پر انھیں کچھ نہیں ملتا۔


دبئی میں ٹریفک قوانین سخت ہونے کے باوجود مقامی لوگ ویک اینڈ پر جمعرات اور جمعے کو تیز رفتاری کے باعث حادثے کر بیٹھتے ہیں۔ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے سڑکوں پر لگے کیمروں کی گرفت میں ضرور آجاتے ہیں مگر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔ دبئی کی آبادی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے پراپرٹی ویلیو بہت بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے دبئی میں ملازمت اور کاروبار کرنے والے شارجہ اور اجمان میں رہائش پذیر ہونے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے شارجہ اور دبئی کی شاہراہ پر ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے اس سلسلے میں فلائی اوور اور انڈرپاس دبئی میں زیادہ ہونے کے باوجود شام کو رش مسلسل بڑھ رہا ہے اور ٹریفک جام زیادہ ہونے کی شکایات شارجہ میں زیادہ ہیں کیونکہ وہاں دبئی جیسی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ دبئی کی شاہراہوں پر پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہروں کی طرح موٹر گاڑیوں کے ہارنوں کا کوئی شور نہیں ہوتا اور شادونادر ہی کسی ہارن کی آواز سنائی دیتی ہے اور گاڑیاں اپنی قطار میں رہ کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کرتیں اور نہ کسی کو اوور ٹیک کیا جاتا ہے۔

دبئی کی صاف ستھری سڑکوں کے کنارے اور مخصوص مقامات پر ٹوکن لے کر پارکنگ کی سہولتیں موجود ہیں، وہاں نہ غلط طور پر پارکنگ کا رجحان ہے نہ گاڑیاں لفٹروں کے ذریعے اٹھائی جاتی نظر آتی ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور مسافر کے اشارے پر ٹیکسی روکنے اور میٹر کے مطابق کرایہ وصول کرنے اور کرایے کی رسید دینے کے بھی پابند ہیں اور من مانی نہیں کرسکتے۔

سڑکوں کے کنارے چھوٹے اور بڑے کچرے دان وہ بھی صاف ستھرے رکھے گئے ہیں۔ دن میں بھی عملہ صفائی معمولی معمولی کاغذ، ٹشو اور سگریٹ اٹھاتا نظر آتا ہے۔ لوگوں کی سہولت کے لیے سگریٹ نوشی کے لیے بھی جگہیں مخصوص ہیں۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ صاف اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہیں جہاں لوگ خود بھی صفائی برقرار رکھتے ہیں پان اور گٹکوں کی پیکیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ اسٹریٹ لائٹس دبئی میونسپلٹی کے وقت کے مطابق آن آف ہوتی ہیں اور دبئی کے لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے تو نام سے بھی واقف نہیں ہیں۔ 7 سال میں دبئی آتے جاتے کبھی بجلی بند نہیں دیکھی اور گیس سلنڈروں کی بہتات سے کبھی کہیں کھانے پکانے کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔

دبئی میں پانی مہنگا اور پٹرول سستا صرف پونے دو درہم لیٹر ہے جہاں حکومت نے پٹرول کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ دبئی میں بھی پاکستان کی طرح گراں فروشوں کو من مانی قیمتیں وصول کرنے کی آزادی ہے۔ صبح 8 بجے سے دکانیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان پر شاپ ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔

دبئی میں سیاست اور فرقہ پرستی کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے اور وہاں بعض ناخوشگوار واقعات بھی ہوجاتے ہیں مگر اس کی ہماری طرح تشہیر نہیں ہوتی اور سب اچھا نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک کے حالات سے مایوس لوگ دبئی سخت گرمی کے باوجود جاتے ہیں اور صرف یہی خواہش ہوتی ہے کہ کاش! پاکستان بھی دبئی جیسا ہوجائے۔
Load Next Story