’’شخصیت ‘‘ بمقابلہ انفرادیت…
اس کے برعکس انفرادیت آپ کو مصنوعی بلندی سے نیچے اتارتی ہے۔
شخصیت۔۔۔۔شخصیت کوئی ایسا باریک سا ریشمیں نقاب نہیں جسے آپ پہن لیں تو چند لمحوں کے بعد آپ کو اس کے وجود کا احساس بھی باقی نہ رہے۔ شخصیت تو ایک وزنی عمامہ ہے۔ جو ہر لحظہ آپ کو اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے اور ہر قدم پر آپ کو سربلندی کی دعوت دیتا ہے۔ اس طلسمی عمامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے پہنتے ہی آپ کو ہر شے چھوٹی اور حقیر نظر آنے لگتی ہے اور آپ خود کو ہفت اقلیم کے تاجدار محسوس کرنے لگتے ہیں اور خواہ آپ کوتاہ قد ہی کیوں نہ ہوں آپ کو انسانوں کا جم غفیر کیڑوں مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگتا دکھائی دیتا ہے اور آپ اپنی خودی کے اونچے سنگھاسن پر تشریف فرما ایک نگاہ غلط انداز سے ہر کس و ناکس کو مسترد کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سے آپ کے اور دیگر لوگوں کے درمیان ایسی خلیج پیدا ہوجاتی ہے جو پھرکوشش کرنے پر بھی عبور نہیں ہو پاتی۔
اس کے برعکس انفرادیت آپ کو مصنوعی بلندی سے نیچے اتارتی ہے۔ آپ کے سر سے عمامہ اتار کر ایک طرف رکھ دیتی ہے۔ اپنی نازک نازک انگلیوں سے آپ کی اکڑی ہوئی گردن سہلاتی ہے۔ حتیٰ کہ گردن کے پٹھوں میں لچک سی پیدا ہوتی ہے اور آپ گردن جھکاکر ''اندر'' کی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں۔ شخصیت تصادم اور حرکت کی پیداوار ہے لیکن انفرادیت خاموشی اور عافیت سے جنم لیتی ہے۔ خود فطرت بھی تو شخصیت کی نفی کرتی ہے۔ شیشم کے کسی جھنڈ میں داخل ہوکر دیکھیے اپنے رنگ، روپ اور باس میں ایک پیڑ دوسرے پیڑ سے مختلف نہیں۔ بھیڑوں کے کسی ریوڑ کو ہانک کر دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بھیڑیں ایک ہی سانچے میں خلق کی ہیں۔ انسانوں کے کسی گروہ پر نظر دوڑایے معمولی تبدیلیوں سے قطع نظر بنیادی صورت میں یک رنگی کا احساس ہوگا۔ پھر یہی نہیں فطرت کا ہر جاندار اپنے پس منظر میں ضم ہونے کے لیے بے تاب ہے۔گلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑ گلے میں دوبارہ داخل ہونے پر اطمینان کا سانس لیتی ہے۔
انسان اپنے قبیلے یا گھر میں لوٹ کر ہی مسرت حاصل کرتا ہے۔ خود فطرت ''جز'' کو ''کل'' میں گم کردینے پر آمادہ ہے۔ طوطا سبز پتوں میں غائب ہونے کے لیے سبز رنگ اختیار کرتا ہے۔ چیتا جنگل کی چتکبری فضا میں خود کو چھپانے کے لیے ویسا ہی لباس پہن لیتا ہے۔ رنگین پھولوں میں اڑنے والی تتلی خود بخود رنگین پروں سے خود کو مزین کرلیتی ہے۔ کیوں۔۔۔۔؟ کیوں اس لیے کہ فطرت کی نظر میں اخفاء ہی تحفظ ذات کا بہترین حربہ ہے اور اخفاء کیا ہے؟ شخصیت کی نفی، جز کا کل میں گم ہوجانا۔ شے کا اپنے ماحول میں ضم ہوکر اپنی شخصیت کو مٹا دینا۔لیکن ہر شے اگر اپنے پس منظر کی ردا میں چھپ جانے کو بے تاب ہے تو پھر ارتقاء کس طرح ممکن ہے؟اس کا جواب قطعاً مشکل نہیں۔ فطرت، شخصیت کی نفی کرتی ہے۔ کیونکہ شخصیت ایک ایسی مصنوعی کیفیت ہے جو باہر سے عاید ہوتی ہے۔ ازخود فطرت کی کوکھ سے جنم نہیں لیتی۔ دوسری طرف فطرت کی ہموار سطح کے نیچے انفرادیت کا عمل برابر جاری رہتا ہے۔
اس عمل کو دیکھنے کے لیے شہر کی فضا بالکل سازگار نہیں کیونکہ وہاں تو پہلے ہی دھواں اگلتی چمنیوں اور شخصیتوں کا بول بالا ہے۔ اگر آپ فطرت کے اس خاموش عمل کو دیکھنے کے متمنی ہیں تو کسی گاؤں میں جائیے چند روز کسی دیہاتی کے مکان میں ٹھہریے تاکہ آپ اس انوکھے تجربے سے آشنا ہوسکیں تاکہ آپ کسی کو بتا سکیں کہ فطرت کی خاموش سطح کے نیچے انفرادیت کی نمو کا عمل کس طرح جاری ہے۔ مثلاً ایک گندم کے کھیت پر نظر دوڑائیے۔ دیکھیے یہ فصل کیسے ضعیف اور مدقوق سی ہے۔ موسمی تغیرات، اندرونی امراض اور بیرونی حملوں نے اسے کتنا کمزور کردیا ہے۔ لیکن اس کمزور فصل میں گندم کے اس خوشے کی طرف دیکھیے کس قدر مضبوط، تازہ اور سربلند ہے۔
آپ پوچھتے ہیں کہ یہ سرسبز خوشہ کہاں سے آیا ہے؟ یہ خوشہ ازخود فطرت کی کوکھ سے ابھرا ہے۔ یہی وہ ''دیدہ ور'' ہے جو بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے لیکن جب وجود میں آتا ہے تو اپنی نسل سے زیادہ توانا اور سربرآوردہ ہوتا ہے۔ اس کی اپنی ایک انفرادیت ہے جس کے پرتو نے اسے ایک انوکھی عظمت عطا کردی ہے۔ یہ عظمت اس نے براہ راست فطرت کی لازوال قوتوں سے اخذ کی ہے۔ اس سماجی امتیاز سے حاصل نہیں کی جسے آپ شخصیت کا نام دیتے ہیں جو آپ کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے اور وہ دیہاتی خوش ہے کہ اس کے کھیت میں اس خوشے نے جنم لیا ہے۔ اب وہ اسے توڑے گا۔ اس کے ہر بیج میں سے ایک نیا خوشہ پیدا کرے گا۔ ان خوشوں میں پھر بیج نکالے گا۔ اور یوں کسی روز اس کی پیدا کی ہوئی گندم کی یہ قسم سارے کھیت میں لہلہائے گی اس سے ارتقاء کی دوڑ میں ایک نئے سنگ میل کا اضافہ ہوگا اور اس کی جیب میں بھی کچھ سکے کھنکنے لگیں گے۔
ایک بار نہیں کتنی ہی بار آپ نے خود کو اپنی شخصیت کے بوجھ تلے کراہتے ہوئے پایا ہوگا۔ جب ساون کی گھنگھورگھٹائیں امڈ امڈ کر آتی ہیں اور آپ ہی کی گلی کے لوگ لباس کے بندھنوں سے آزاد ہوکر نہاتے ہیں، آپ بھی لپک کر ان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرپاتے۔ اس وقت آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ شخصیت کا خول دراصل روح کا بندی خانہ ہے۔ اور یہ بندی خانہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے۔ اس شاعر کی طرح جس نے خود کو ایک ذہنی قفس کے سپرد کرکے محبت کے جذبے کو سلاخوں سے باہر ہی روک لیا تھا۔ پھر ایک دن جب اس نے قفس سے باہر نکل کر اڑنے کی کوشش کی تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے پروں میں تو اڑنے کی سکت ہی باقی نہیں آپ اپنے پروں کو مفلوج نہ ہونے دیں آج آپ ایک انوکھا فیصلہ کریں۔ ''خود کو آزادی دلانے، مصنوعی بندھنوں سے خود کو نجات دلانے کا فیصلہ۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں ہم دیکھیں گے کہ آپ صبح اٹھتے ہی ورزش کریں گے۔ پھر کوئی فلمی گیت گنگناتے بھرے بازار سے گزریں گے۔ چاٹ والے کی دکان پر کھڑے ہوکر ایک پلیٹ تیز مصالحے والی چاٹ کھائیں گے۔ پان والے کی دکان سے ایک میٹھا پان لے کر اپنے کلے میں دبا کر بازار میں سرخ پیک سے چھڑکاؤ کرتے ہوئے نثار شہید پارک کا رخ کریں گے۔ سبزے پر لوٹ پوٹ ہوکر زمین کی خوشبو سونگھیں گے یا گلہری کی تقلید میں کسی درخت پر چڑھ جائیں گے۔ باغ کی پختہ سڑک پر پھونک پھونک کر قدم رکھتے، کسی گہرے خیال میں مستغرق کسی درخت کے تنے سے کمر لگا کر اور درخت کی موٹی شاخ پر اپنی ٹانگیں پسار کر ایک ایسا بے ہنگم قہقہہ لگائیں گے کہ درخت سے ننھی ننھی سنہری چڑیاں پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گی۔ وہیں کوئی اہل شخصیت یکایک چونک کر آپ کی سمت دیکھے گا اور آپ کو پاگل سمجھ کر جلدی جلدی قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن یقین رکھیے کہ فطرت آپ کو اس حال میں دیکھ کر مسکرا رہی ہوگی کہ ایک اور غلام آزاد ہوگیا۔