تصور انسانیت اور اسلام پہلا حصہ
قرآن حکیم ہر دور کے انسان کے لیے اس کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔
خاتم النبین، سیدالمرسلین، رحمۃاللعالمینؐ نبی رحمت ہیں۔ آپؐ کی پوری حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ عفو و درگزر، رحمت ورافت اور مثالی مذہبی رواداری سے عبارت ہے۔ انسانیت کے محسن اعظم، ہادی عالم، رحمت مجسم، حضرت محمدؐ نے غیر مسلم اقوام اور اقلیتوں کے لیے مراعات، آزادی اور مذہبی رواداری پر مبنی ہدایات اور عملی اقدامات تاریخ انسانی کے اس تاریک دور میں روا فرمائے کہ جب لوگ مذہبی آزادی و رواداری سے ناآشنا تھے اور مذہبی آزادی و رواداری کے مفہوم و تصور سے انسانی ذہن خالی تھا۔
رسول اللہؐ نے عصبیتوں کے خاتمے کے لیے عربوں کے تقریباً تمام اہم قبائل میں شادیاں کیں۔ اسوہ رسولؐ کا اثر یہ ہوا کہ آقا و غلام، قریشی و غیر قریشی، عربی و عجمی، حبشی و رومی و ایرانی ایک ہی صف میں شانہ بشانہ رہتے تھے اور قدیم جاہلی اختلافات کا ذرا سا بھی لحاظ نہیں کیا جاتا تھا۔
دنیا میں ایک طرف انسان نے بھائی چارے کو اتنا بھلادیا تھا کہ دوسرے بھائی کو چھونا تو درکنار اس کا سایہ بھی اپنے سائے پر پڑنے دینا گوارا نہ کرسکتا تھا۔ علم و عرفان کے متعلق اتنی خود غرضی تھی کہ کوئی اجنبی چھونا تو درکنار محض سن بھی لیتا تو سزا میں پگھلتا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں ڈال کر اسے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔
انسان کے اصولی و فطری مساوات پر پرہیزگاری کے اکتسابی فضیلت و برتری کے نئے نظریے نے وہ تمام مصنوعی اور انسان ساز بت ملیا میٹ کردیے جو اب بھی غیر اسلامی سماجوں میں موجود اور انسانوں میں نہ ختم ہونے والی تلخی اور فساد انگیزی پیدا کر رہے ہیں۔ آپؐ نے اپنے دشمنوں کے ساتھ جس اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سارے جہانوں کے لیے رحمۃ اللعالمین بناکر بھیجا ہے۔ اسلام نے مکمل آزادی دی ہے، جو چاہے اسلام قبول کرے، جو چاہے کفر اختیار کرے۔ آپؐ نے امت مسلمہ کو بھی رواداری اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
شجر ہے فرقہ آرائی' تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''شباب المسلم فسوق وقتالہ کفر'' پس رسول اللہؐ کی تعلیمات کی روشنی میں مختلف گروہوں کا ایک دوسرے کو گالی دینا اور پھر مسلمانوں کا آپس میں قتل کفر کردیا گیا۔
فرقے ہیں کہیں' کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آپؐ نے تمام انسانیت کو توحید باری تعالیٰ اور امن و سلامتی کے قیام اورجہالت کے خاتمے کی بے مثال تعلیمات و اسلامی تہذیب سے روشناس فرمایا اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک مکمل اور ابدی نظام حیات عطا فرمایا تاکہ انسانیت کفر و شرک اور جاہلیت سے نکل کر امن و سکون، اور انسان دوستی پر مبنی پرامن بقائے باہمی کے عظیم اور ہمیشہ زندہ رہنے والے اصولوں کو اختیار کرے جوکہ دراصل اسلام کا ہی خاصہ ہیں اور دربدر ظلمت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے بجائے صراط مستقیم کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔
قرآن حکیم ہر دور کے انسان کے لیے اس کی پوری زندگی کا لائحہ عمل ہے۔ قرآن حکیم کی ایک اہم خوبی بلکہ اس کا طغرائے امتیاز یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کی جزئیات پر بھی اتنی ہی توجہ دیتا ہے جتنا اصولیات و اساسیات پر اور پھر اس کی بلاغت تو اپنی نظیر آپ ہے۔ یہ ایک بہت وسیع مضمون کو اپنے مخصوص اور بے تکلف انداز میں اتنے اختصار سے بیان کردیتا ہے کہ اس کے ایک چھوٹے سے جملے پر سیکڑوں صفحات لکھے جاسکتے ہیں اور تاریخ عالم کا ایک خاص سلسلہ واقعات اسی کی مناسبت سے اس کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے۔ آیت کریمہ میں تو صرف زندگی بخش کام کی طرف اشارہ ہے، لیکن قرآن حکیم میں جابجا ان زندگی بخش کاموں کی تشریح ملتی ہے جن میں سے چند مثالیں ذیل میں درج ہیں:
1۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔(سورۃ البقرہ:11)۔ 2۔لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو۔ (سورۃ البقرہ: 83)۔ 3۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔ (سورۃ البقرہ:148)۔ 4۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ (سورۃ البقرہ: 195)۔ 5۔اور ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرو۔ (سورۃ البقرہ:237)۔ 6۔جو کچھ جاتا رہا، اس کا افسوس نہ کرو۔ (سورۃ آل عمران: 153)۔ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو۔ (سورۃ المائدہ:6)۔ 8 ۔عدل کرو۔ یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ (سورۃ المائدہ:8)۔ 9۔ کرۂ ارض پر پھرو۔ (سورۃ الانعام:11)۔ 10۔کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو۔ (سورۃالاعراف:41)۔
حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے قرآنی موتیوں جیسے خوبصورت جملے اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز ہیں، نیز خود بخود انسان کے دل میں اترتے چلے جاتے ہیں اور پھر جب یہ جملے سرور کائناتؐ کی پرتاثیر زبان سے ادا ہوں اور ان کے اسوۂ حسنہ سے مترشح ہوں تو وہ ایک لاکھ بیس ہزارکیا، پانچ ارب کو بھی مسخر کرسکتے ہیں۔
ان کا اوڑھنا بچھونا بن سکتے ہیں۔ حضور پاکؐ نہایت تحمل و بردباری اور شفقت و محبت سے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اسے ہر وقت دارالاسلام یعنی دارالامن بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ اسلام ایک عالمگیر دین ہے، اس لیے اس کے پیش نظر صرف اور صرف بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود ہے۔ یہ وحدت پر یقین رکھتا ہے اور قبائل اقوام کو محض پہچان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی ثقافت، زبان، ادب، آرٹ اور فن تعمیر، نام اور نام رکھنے کے اصولوں، رواجات، روایات، عادات، میلانات کے امتیاز کو تسلیم کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرہ رواداری پر یقین رکھتا ہے۔
غزوۂ خیبر میں دوسرے مال غنیمت کے ساتھ تورات کے چند نسخے بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں آئے تھے۔ جب یہودیوں نے آپؐ سے ان کو مانگا تو آپؐ نے دلوادیا۔ آپؐ کے اس طرز عمل کا یہودیوں پر بڑا اثر پڑا اور ان کے دل میں آپؐ کی بڑی وقعت پیدا ہوگئی اور اس احسان کو انھوں نے ہمیشہ یاد رکھا جب کہ 70ھ میں یہودی یروشلم پر قابض ہوئے تھے تو کتب مقدسہ کو پیروں سے روندا تھا اور آگ میں جلادیا تھا۔ جب متعصب عیسائیوں نے اندلس میں یہودیوں کو تباہ کرنے کے لیے خوں ریز لڑائیاں کیں تو تورات کے نسخوں کو بھی جلادیا۔ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں کتنا عظیم الشان فرق ہے۔
ایک مستشرق عالم گاسٹن ویاٹ نے لکھا ہے کہ 563ھ میں خلیفہ نے نصاریٰ اور مسلمانوں میں مساوات برتنے کے لیے ایک فرمان جاری کیا تھا یہ رواداری کا وہ نمونہ تھا، جس پر یورپ صدیوں کے بعد عمل کرسکا۔ مسلمانوں کی فتوحات کے زمانے میں اور اس کے بعد ان کی حکومت کے تعمیری دور میں جب عیسائی اور مجوسی عربوں کی رواداری کو دیکھتے تھے تو ان پر ان کا اعتماد اور بڑھ جاتا تھا۔
انھوں نے دیکھا کہ عرب یہود و نصاریٰ کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے معاہدوں کا لحاظ رکھتے ہیں، ان کے گرجوں اور کینسوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک طرف عبدالمالک نے 104ھ میں مصر میں بتوں اور مجسموں کے توڑنے کا حکم دیا تو دوسری طرف موسیٰ بن عیسیٰ نے جو ہارون رشید کی جانب سے مصر کا والی تھا، ان کینسوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت دی جن کو علی بن سلیمان نے توڑ دیا تھا۔ مصر کے سارے کینسے اسلام اور صحابہؓ و تابعینؒ کے زمانے میں تعمیر ہوئے۔
عرب فرماں رواؤں نے اپنے انتہائی عروج و اقتدار کے زمانے میں بھی رومانی کلیسا کو اسلامی ملکوں میں تبلیغ و اشاعت کے لیے مبلغین بھیجنے کی اجازت دی تھی۔ باوجود یہ کہ یہ کلیسا اسلامی حکومتوں کے مقابلے میں ان حکومتوں کا زیادہ لحاظ کرتا تھا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں باہم اتنا اتحاد پیدا ہوگیا تھا کہ عیسائی اپنے جماعتی اختلافات کا فیصلہ بھی اسلامی عدالتوں سے کراتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے ابتدائی دور میں جب کسی فوجی مسلمان اور عیسائی میں کوئی تنازعہ ہوتا تھا تو عموماً عیسائی کے حق میں فیصلہ ہوتا تھا۔ ہندوستان میں پورے اسلامی دور حکومت میں ہمیشہ مذہبی اور سماجی رواداری کی مستقل روایت رہی ہے۔ بت شکن محمود غزنوی نے خود اپنے دارالسلطنت میں اپنی ہندو رعایا کو الگ محلوں میں بتوں کی پوجا کی اجازت دے رکھی تھی۔
(جاری ہے۔)