سری لنکا سے سری لنکا تک پاکستان میں کرکٹ کا سلسلہ جہاں ٹوٹا وہیں سے جڑے گا

آئی لینڈرز کا یہ کامیاب ٹور دوسری ٹیموں کو بھی خوف کی دیوار گرانے میں مدد دے گا۔


Husnain Anwer September 27, 2019
آئی لینڈرز کا یہ کامیاب ٹور دوسری ٹیموں کو بھی خوف کی دیوار گرانے میں مدد دے گا۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا وہیں سے جڑنے والا ہے، جس ٹیم پر دہشتگرد حملے سے ارض پاک انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے نوگو ایریا بنی ، وہی ٹیم پھر میدان آباد کرنے پہنچ چکی ہے۔

سری لنکا پر رکنے والا انٹرنیشنل کرکٹ کا سلسلہ سری لنکا سے ہی شروع ہونے والا ہے، اگرچہ 10 برس کے دوران انٹرنیشنل میچز بھی ہوئے مگر پہلی بار کوئی ٹیم زیادہ دنوں کیلیے پاکستان آئی اور 2 الگ الگ شہروں میں ون ڈے اور ٹوئنٹی 20 کرکٹ کھیلنے والی ہے۔ یہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی سرگرمیوں کو معمول پر لانے کی جانب ایک اور بڑا قدم ہے، آئی لینڈرز کا یہ کامیاب ٹور دوسری ٹیموں کو بھی خوف کی دیوار گرانے میں مدد دے گا۔

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کوئی آسان کام نہیں تھا، ان 10 برس کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہر سربراہ نے غیرملکی ٹیموں کو ٹور پر آمادہ کرنے کیلیے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی تاہم ملک میں امن و امان کی صورتحال میں ہونے والی بہتری اور پی سی بی کی جانب سے پی ایس ایل مقابلوں کے اپنے وطن میں انعقاد جیسے جراتمندانہ فیصلوں سے غیرملکی کرکٹ برادری کی خدشات کم کرنے میں مدد ملی۔ سری لنکا نے ایک بار پھر حق دوستی ادا کرتے ہوئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجی جوکہ 3 ون ڈے اور اتنے ہی ٹی 20 میچز کیلیے نیشنل اور قذافی اسٹیڈیم میں رنگ جمائے گی۔

سری لنکا کی ٹیم میں اگرچہ نام نہاد اسٹارز شامل نہیں مگر جو کھلاڑی پاکستان آئے ہیں وہ انٹرنیشنل کرکٹ میں اتنے بھی 'اجنبی' نہیں جتنے کے دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے ٹور سے انکار کرنے والے 10 کھلاڑیوں میں سے اکثریت فارم میں نہیں تھی کچھ کو فٹنس مسائل اور کچھ کو دیگر مسائل کا سامنا ہے، کچھ اپنے کیریئر کے اختتام کو پہنچے ہوئے ہیں، انجیلو میتھیوز ایک طرف تو مختلف فٹنس مسائل کا شکار ہیں تو دوسری جانب فکسنگ الزامات کے حوالے سے صفائیاں دینے میں مصروف ہیں، لسیتھ مالنگا ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے چکے اور کھینچ تان کر اپنے کیریئر کو آئندہ برس آسٹریلیا میں شیڈول ٹی 20 ورلڈ کپ تک لے جانا چاہتے ہیں۔

پاکستان آنے والے سری لنکا کے 15 رکنی ون ڈے اسکواڈ میں شامل ونود بھانوکا وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھیں ابھی تک انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں ہے، کپتان لاہیرو تھریمانے 125 ون ڈے میچز کا تجربہ رکھتے ہیں، انھوں نے 35 ٹیسٹ اور 26 ون ڈے میچ کھیل رکھے ہیں، ٹیم میں ان کا اہم مقام ہے۔ نوان پردیپ 40 ایک روزہ، 28 ٹیسٹ اور 9 ٹی 20 میچز کا تجربہ رکھتے ہیں۔



اسی طرح دنوشکا گونا تھلاکا (8 ٹیسٹ، 36 ون ڈے ، 16 ٹی 20)، ڈاسن شناکا (3 ٹیسٹ، 20 ون ڈے، 30 ٹی 20)، لکشن سنداکن (11 ٹیسٹ، 20 ون ڈے، 8 ٹی 20)، اسورو اڈانا (14 ون ڈے، 24 ٹی 20)، اویشکا فرنانڈو (13 ون ڈے، 6 ٹی 20)، لاہیرو کمارا (17 ٹیسٹ، 11 ون ڈے، 1 ٹی 20)، وانندو ہاسورنگا( 10 ون ڈے، 3 ٹی 20)، شیہان جیاسوریا (10 ون ڈے، 13 ٹی 20)، کاسن راجیتھا (5 ٹیسٹ، 6 ون ڈے، 6 ٹی 20) ، سادیراسارا وکرما (4 ٹیسٹ، 6 ون ڈے، 6 ٹی 20)، اوشیدا فرنانڈو (2 ٹیسٹ، 5 ون ڈے ) اور

انجیلو پریرا (5 ون ڈے، 5 ٹی 20)انٹرنیشنل لیول پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرچکے ہیں، زیادہ تر کھلاڑی نوجوان اور کافی پرجوش ہیں، سینئر ٹیم میں کھیلنے کے موقع سے دونوں ہاتھوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستانی کھلاڑی بھی کافی پرجوش ہیں، طویل عرصے بعد یہاں پر ون ڈے انٹرنیشنل سیریز منعقد ہورہی ہے۔ آخری مرتبہ زمبابوے نے 50 اوورز کے میچز 2015 میں لاہور میں کھیلے تھے۔ پلیئرز اپنے ہوم کراؤڈ کے سامنے صلاحیتوں کے اظہار کیلیے بے چین ہیں، ٹیم کی قیادت تو سرفراز احمد کے ہی ہاتھوں میں ہوگی تاہم حکمت عملی نئے ہیڈ کوچ مصباح الحق تیار کریں گے، یہ اور بات کہ خود ان کے اپنے دور میں پاکستان ٹیم ایک روزہ کرکٹ میں روبہ زوال رہی مگر بطور کوچ کچھ حلقے ان سے محدود اوورز کی کرکٹ میں معجزاتی تبدیلیوں کی توقع کررہے ہیں۔

شائقین کی دلچسپی کو بڑھاوا دینے کیلیے بیٹنگ کیلیے سازگار کنڈیشنز کا امکان ہے تاہم ہائی اسکورننگ میچ کیلیے دونوں جانب کے بیٹسمینوں کو بہرحال اپنے بیٹ کو زحمت دینا پڑے گی، ورلڈ کپ میں ناکام رہنے والے فخر زمان سے جہاں ہارڈ ہٹنگ کی امیدیں وابستہ ہیں وہیں پر شائقین خاص طور پر بابر اعظم کو اپنی آنکھوں کے سامنے عمدہ اسٹروک کھیلتا ہوا دیکھنے کیلیے بے چین ہیں، دوسرے کھلاڑیوں کے پاس بھی کراؤڈ کو اپنی صلاحیتوں سے متاثر کرنے کا موقع موجود ہوگا۔

مہمان ٹیم میں نام نہاد اسٹارز کی عدم موجودگی کے باعث سیریز کے یکطرفہ ثابت ہونے کا بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے مگر یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ہے کہ ناقابل پیشگوئی کے لیبل کی حامل پاکستانی ٹیم اکثر و بیشتر 'کرکٹ بائی چانس' کے معقولے کو عملی جامہ پہنانے پر تل جاتی ہے، اسی لیے حریف سائیڈ سے زیادہ خود گرین شرٹس سے اس بات کی بہرحال توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ نا صرف مقابلوں کو سنسنی خیز بنائیں گے بلکہ اپنی پرفارمنس سے شائقین کے 'بلڈ پریشر' میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں، امید ہے کہ شائقین کو اپنے ہوم گراؤنڈز پر 'پیسہ وصول' کرکٹ دیکھنے کو ملے گی اور سری لنکا کی آمد سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی معمول پر آجائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں