احساسِ ندامت
عصر حاضر میں کون ایسا متقی اور پاک باز ہے جو نفس امارہ (جو انسان کو شر پر اکساتا ہے) کے دامن میں گرفتار نہ ہوا ہو؟
اﷲ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے، مفہوم : '' کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی کی ہے تم اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ۔ بے شک اﷲ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ واقعی وہ بڑی بخشش والا بڑی رحمت والا ہے۔'' (سورۃ الزمر )
خالقِ کائنات کتنا رحیم و کریم ہے کہ ہمیں زندگی بھی دی، زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ بھی دکھا دیا، اپنی بے پناہ نعمتوں سے فیض یاب بھی کیا ہے، ہمارے گناہوں کو درگزر بھی کر رہا ہے پھر ہمیں گناہوں کو بخشوانے کی نہ صرف دعوت دے رہا ہے بل کہ اپنا محبوب ترین بندہ بھی قرار دے رہا ہے۔ وہ غفور الرحیم تو اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت تو اس کے غضب پر غالب اور اس کی رحمت ہماری بداعمالیوں سے زیادہ ہے۔ اگر انسان توبۃ النصوح یعنی صدق دل سے توبہ مانگے تو اﷲ رب العزت کا وعدہ ہے کہ انسان کا ہر گناہ معاف فرما دے گا، سوائے کفر و شرک کے۔
خود احتسابی کا عمل:
عصر حاضر میں کون ایسا متقی اور پاک باز ہے جو نفس امارہ (جو انسان کو شر پر اکساتا ہے) کے دامن میں گرفتار نہ ہوا ہو؟ کون ایسا باکردار ہے جسے اپنی غلطی اور گناہ کی وجہ سے ندامت نہ محسوس ہوئی ہو ؟ کون ایسا مسلمان ہے جسے اصلاح کی ضرورت نہیں ؟ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ سورۃ البقرہ میں اﷲ رب العزت خود اپنے بندوں کو توبہ کی دعوت دے رہا ہے، مفہوم: '' مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور ان کو ظاہر کردیں تو ایسے لوگوں پر میں متوجّہ ہوجاتا ہوں۔ میری تو بکثرت عادت ہے توبہ قبول کرلینا اور مہربانی فرمانا۔''
بارگاہ رحمت کی شان دیکھیے کہ عفو و درگزر اس کی امتیازی صفت ہے۔ اﷲ کی نافرمانی اگرچہ ہمارے لیے ہلاکت و تباہی کا سامان ہے لیکن اصل تباہی اور ہلاکت یہ ہے کہ انسان کو توبہ کرنے کی توفیق نہ ملے اور وہ اﷲ کی وسیع تر رحمت کا فائدہ نہ اٹھائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی دعا جو سورۃ الاعراف میں ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ نے اس دعا کی برکت سے حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول فرمالی۔ اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے اور گھٹن محسوس ہوئی تو فوراً دعا مانگی اس دعا کی برکت سے رہائی نصیب ہوئی۔
توبہ کی قبولیت کی شرائط و ارکان قرآن کی روشنی میں:
(1) توبہ کی قبولیت کا حق صرف انہی لوگوں کو ہے جو مسلمان ہوں۔ کفر و شرک کی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی۔ (2) دانستگی یا نادانستگی میں کوئی بُرا فعل سرزد ہوجائے اور ندامت کا احساس ہوجائے تو توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ (3) آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلیں اور اس کا تدارک جو اس کے اختیار میں ہو پورا کریں۔ مثال کے طور پر نماز، روزہ اور زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی تو اس کو پورا کریں۔
قضا کا اہتمام کریں، کسی کی حق تلفی کی تو اس کی تلافی کریں اگر کسی کو تکلیف پہنچائی تو اس سے معافی طلب کریں۔ (4) وہ لوگ جو گناہ کا ارتکاب کرتے چلے جائیں اور جب موت کا وقت قریب آجائے تو توبہ کرلیں ایسی توبہ اﷲ قبول نہیں کرتا جب کہ نزع روح شروع ہوجائے، فرشتے اور عالم آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آجائیں، جیسے کہ فرعون اور آل فرعون نے غرق ہونے کے وقت پکارا کہ ہم رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لاتے ہیں مگر ان کو عذاب ملا کہ اب ایمان لاتے ہو جب ایمان لانے کا وقت گزر چکا۔
رب کریم کا وعدہ برائیوں کی جگہ نیکیاں عنایت ہوں گی:
اﷲ رب العزت سچی توبہ کرنے سے گناہ نیکیوں میں تبدیل کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ سورۃ الفرقان میں رب کریم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : '' مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرتا رہے، سو ایسے لوگوں کو اﷲ ان کی برائیوں کی جگہ نیکیاں عنایت کرے گا اور اﷲ تو ہے ہی بڑا مغفرت والا، بڑی رحمت والا ہے۔''
گناہوں کی دوا استغفار:
رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : ''ہر بیماری کی دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے۔'' یعنی دنیا میں موجود ہر بیماری کی دوا بھی اﷲ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور گناہ بھی ایک مرض ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کا علاج بھی بتادیا ہے کہ اپنے گناہوں کی زیادہ سے زیادہ معافی مانگنا چاہیے اور آئندہ بچنے کا پختہ عزم کرنا چاہیے۔ ایک اور موقع پر حضورؐ نے فرمایا : ''بہترین دعا استغفار ہے۔'' سرورِ کائنات آقائے دو عالم رحمت للعالمین ﷺ خود دن بھر میں سو سے زاید مرتبہ استغفار پڑھتے تھے۔
رزق کی کشادگی:
رسالت مآب ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : ''جس نے اپنے اوپر دعائے استغفار کو لازم کرلیا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر غم اور ہر تنگی کو کشائش و راحت سے بدل دے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جس کا اسے گمان تک نہ تھا۔''
اﷲ توبہ و استغفار کی برکت سے عذاب الٰہی نازل نہیں فرماتا:
سورۃ الانفال میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اور اﷲ کا یہ قاعدہ نہیں کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے۔'' اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ عذاب الٰہی سے محفوظ وہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر استغفار کو لازم کرتے ہیں۔ یعنی ایسی بستی پر اﷲ کا عذاب نہیں آتا۔
دل کو سیاہ ہونے سے بچائیں:
گناہوں کے مسلسل ارتکاب سے دل میں سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے، اگر توبہ کرلیں تو یہ سیاہ دھبا مٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر توبہ نہ کریں اور گناہوں کا ارتکاب ہوتا چلا جائے تو پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے یہاں تک دل پر زنگ آجاتا ہے، پھر نیک و بد، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا فرق ختم جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بل کہ دل جو سینوں میں ہے وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔''
توبہ مانگنے کا وقت:
قرآن مجید فرقان حمید میں اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب بندوں کی یہ امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ سحر کے اوقات میں اﷲ کے حضور گڑگڑاتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اﷲ کی رحمت سے پُرامید رہتے ہیں۔ اﷲ بھی ایسے بندوں کو اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دیتا ہے۔ توبہ کی اہمیت و فضیلت واضح ہونے کے بعد اب یہ ضروری ہے کہ اﷲ رب العزت سے توبہ و استغفار مانگنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
توبہ کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں نہایت ہی عجز و انکساری اور حمد و ثناء کرنے کے بعد استغفار کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا جائے۔ ماضی پر ندامت، حال میں معافی کی درخواست اور آئندہ بچے رہنے کے لیے پختہ عزم اور استقامت کی درخواست اﷲ کی بارگاہ میں پیش کی جائے۔ درود و سلام کی کثرت کی جائے تاکہ رسول کریم ﷺ کے وسیلے سے اﷲ رب العزت راضی ہوجائے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری توبہ کو قبول فرما کر اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دے۔ آمین
خالقِ کائنات کتنا رحیم و کریم ہے کہ ہمیں زندگی بھی دی، زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ بھی دکھا دیا، اپنی بے پناہ نعمتوں سے فیض یاب بھی کیا ہے، ہمارے گناہوں کو درگزر بھی کر رہا ہے پھر ہمیں گناہوں کو بخشوانے کی نہ صرف دعوت دے رہا ہے بل کہ اپنا محبوب ترین بندہ بھی قرار دے رہا ہے۔ وہ غفور الرحیم تو اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ میں اس کی مغفرت کروں۔ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت تو اس کے غضب پر غالب اور اس کی رحمت ہماری بداعمالیوں سے زیادہ ہے۔ اگر انسان توبۃ النصوح یعنی صدق دل سے توبہ مانگے تو اﷲ رب العزت کا وعدہ ہے کہ انسان کا ہر گناہ معاف فرما دے گا، سوائے کفر و شرک کے۔
خود احتسابی کا عمل:
عصر حاضر میں کون ایسا متقی اور پاک باز ہے جو نفس امارہ (جو انسان کو شر پر اکساتا ہے) کے دامن میں گرفتار نہ ہوا ہو؟ کون ایسا باکردار ہے جسے اپنی غلطی اور گناہ کی وجہ سے ندامت نہ محسوس ہوئی ہو ؟ کون ایسا مسلمان ہے جسے اصلاح کی ضرورت نہیں ؟ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ سورۃ البقرہ میں اﷲ رب العزت خود اپنے بندوں کو توبہ کی دعوت دے رہا ہے، مفہوم: '' مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور ان کو ظاہر کردیں تو ایسے لوگوں پر میں متوجّہ ہوجاتا ہوں۔ میری تو بکثرت عادت ہے توبہ قبول کرلینا اور مہربانی فرمانا۔''
بارگاہ رحمت کی شان دیکھیے کہ عفو و درگزر اس کی امتیازی صفت ہے۔ اﷲ کی نافرمانی اگرچہ ہمارے لیے ہلاکت و تباہی کا سامان ہے لیکن اصل تباہی اور ہلاکت یہ ہے کہ انسان کو توبہ کرنے کی توفیق نہ ملے اور وہ اﷲ کی وسیع تر رحمت کا فائدہ نہ اٹھائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی دعا جو سورۃ الاعراف میں ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ نے اس دعا کی برکت سے حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول فرمالی۔ اسی طرح حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے اور گھٹن محسوس ہوئی تو فوراً دعا مانگی اس دعا کی برکت سے رہائی نصیب ہوئی۔
توبہ کی قبولیت کی شرائط و ارکان قرآن کی روشنی میں:
(1) توبہ کی قبولیت کا حق صرف انہی لوگوں کو ہے جو مسلمان ہوں۔ کفر و شرک کی حالت میں توبہ قبول نہیں ہوتی۔ (2) دانستگی یا نادانستگی میں کوئی بُرا فعل سرزد ہوجائے اور ندامت کا احساس ہوجائے تو توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ (3) آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلیں اور اس کا تدارک جو اس کے اختیار میں ہو پورا کریں۔ مثال کے طور پر نماز، روزہ اور زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی تو اس کو پورا کریں۔
قضا کا اہتمام کریں، کسی کی حق تلفی کی تو اس کی تلافی کریں اگر کسی کو تکلیف پہنچائی تو اس سے معافی طلب کریں۔ (4) وہ لوگ جو گناہ کا ارتکاب کرتے چلے جائیں اور جب موت کا وقت قریب آجائے تو توبہ کرلیں ایسی توبہ اﷲ قبول نہیں کرتا جب کہ نزع روح شروع ہوجائے، فرشتے اور عالم آخرت کی چیزیں انسان کے سامنے آجائیں، جیسے کہ فرعون اور آل فرعون نے غرق ہونے کے وقت پکارا کہ ہم رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لاتے ہیں مگر ان کو عذاب ملا کہ اب ایمان لاتے ہو جب ایمان لانے کا وقت گزر چکا۔
رب کریم کا وعدہ برائیوں کی جگہ نیکیاں عنایت ہوں گی:
اﷲ رب العزت سچی توبہ کرنے سے گناہ نیکیوں میں تبدیل کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ سورۃ الفرقان میں رب کریم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : '' مگر ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرتا رہے، سو ایسے لوگوں کو اﷲ ان کی برائیوں کی جگہ نیکیاں عنایت کرے گا اور اﷲ تو ہے ہی بڑا مغفرت والا، بڑی رحمت والا ہے۔''
گناہوں کی دوا استغفار:
رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : ''ہر بیماری کی دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے۔'' یعنی دنیا میں موجود ہر بیماری کی دوا بھی اﷲ تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور گناہ بھی ایک مرض ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کا علاج بھی بتادیا ہے کہ اپنے گناہوں کی زیادہ سے زیادہ معافی مانگنا چاہیے اور آئندہ بچنے کا پختہ عزم کرنا چاہیے۔ ایک اور موقع پر حضورؐ نے فرمایا : ''بہترین دعا استغفار ہے۔'' سرورِ کائنات آقائے دو عالم رحمت للعالمین ﷺ خود دن بھر میں سو سے زاید مرتبہ استغفار پڑھتے تھے۔
رزق کی کشادگی:
رسالت مآب ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے : ''جس نے اپنے اوپر دعائے استغفار کو لازم کرلیا تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر غم اور ہر تنگی کو کشائش و راحت سے بدل دے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جس کا اسے گمان تک نہ تھا۔''
اﷲ توبہ و استغفار کی برکت سے عذاب الٰہی نازل نہیں فرماتا:
سورۃ الانفال میں اﷲ رب العزت کے ارشاد کا مفہوم ہے: '' اور اﷲ کا یہ قاعدہ نہیں کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے۔'' اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ عذاب الٰہی سے محفوظ وہ لوگ ہیں جو اپنے اوپر استغفار کو لازم کرتے ہیں۔ یعنی ایسی بستی پر اﷲ کا عذاب نہیں آتا۔
دل کو سیاہ ہونے سے بچائیں:
گناہوں کے مسلسل ارتکاب سے دل میں سیاہ دھبا پڑ جاتا ہے، اگر توبہ کرلیں تو یہ سیاہ دھبا مٹ جاتا ہے۔ لیکن اگر توبہ نہ کریں اور گناہوں کا ارتکاب ہوتا چلا جائے تو پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے یہاں تک دل پر زنگ آجاتا ہے، پھر نیک و بد، حلال و حرام، جائز و ناجائز کا فرق ختم جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: '' آنکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بل کہ دل جو سینوں میں ہے وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔''
توبہ مانگنے کا وقت:
قرآن مجید فرقان حمید میں اﷲ رب العزت نے اپنے محبوب بندوں کی یہ امتیازی خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ سحر کے اوقات میں اﷲ کے حضور گڑگڑاتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اﷲ کی رحمت سے پُرامید رہتے ہیں۔ اﷲ بھی ایسے بندوں کو اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دیتا ہے۔ توبہ کی اہمیت و فضیلت واضح ہونے کے بعد اب یہ ضروری ہے کہ اﷲ رب العزت سے توبہ و استغفار مانگنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
توبہ کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں نہایت ہی عجز و انکساری اور حمد و ثناء کرنے کے بعد استغفار کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا جائے۔ ماضی پر ندامت، حال میں معافی کی درخواست اور آئندہ بچے رہنے کے لیے پختہ عزم اور استقامت کی درخواست اﷲ کی بارگاہ میں پیش کی جائے۔ درود و سلام کی کثرت کی جائے تاکہ رسول کریم ﷺ کے وسیلے سے اﷲ رب العزت راضی ہوجائے۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری توبہ کو قبول فرما کر اپنی رحمت کے سائے میں پناہ دے۔ آمین