بلڈنگ بائی لاز میں زلزلے سے بچاؤ کیلیے کوئی موثر قانون موجود نہیں
90 فیصد رقبہ سیسمک زون میں واقع، تعمیراتی انجینئرنگ، ڈیزائننگ تبدیل کرنیکی ضرورت
پاکستان کا 90 فیصد سے زائد رقبہ دنیا کے خطرناک ترین سیسمک زون میں واقع ہے۔
پاکستان میں جہاں چھوٹی اوربڑی شدت کے زلزلوں کا ہمیشہ خطرہ موجود ہے لیکن حکومتوں کی عدم دلچسپی اور محکموں کی غفلت کے سبب ملک میں عام رہائشی عمارات سے لیکر سکائی سکریپرز تک کی تعمیر میں زلزلہ کی شدت برداشت کرنے کی غرض سے''اسٹرکچرل انجیئرنگ''اور''بلڈنگ کنسٹرکشن میٹریل''کے بارے میں کوئی موثر قانون موجود نہیں ہے۔
پاکستان بلڈنگ کوڈ سمیت صوبائی سطح پربنائے گئے بلڈنگ بائی لازمیں بھی زلزلہ سے عمارت کو محفوظ رکھنے کیلئے سرسری شقیں تو رکھی گئی ہیں لیکن جغرافیائی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جس سنجیدگی اور تکنیکی جدت کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اسے نظر اندازکیا گیا ہے۔
ماہرین تعمیرات کاکہنا ہے کہ پاکستان میں تعمیراتی انجینئرنگ اور ڈیزائننگ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ارضیاتی اورجغرافیائی ماہرین کاکہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بلند عمارتوں کو فروغ دینے کی پالیسی لیکرآئی ہے ایسے میں زلزلوں کے خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں بالخصوص گنجان آباد علاقوں میں تعمیرات کا ڈیزائن اورمیٹریل بدلنا ہوگا۔
پاکستان میں صرف چولستان کے علاقے کو ہی زلزلوں سے قدرے محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے، کراچی سے 60 میل کے فاصلے پر تین فالٹ لائنز آپس میں ملتی ہیں لہذا یہ بھی خطرناک ہے۔
پاکستان میں جہاں چھوٹی اوربڑی شدت کے زلزلوں کا ہمیشہ خطرہ موجود ہے لیکن حکومتوں کی عدم دلچسپی اور محکموں کی غفلت کے سبب ملک میں عام رہائشی عمارات سے لیکر سکائی سکریپرز تک کی تعمیر میں زلزلہ کی شدت برداشت کرنے کی غرض سے''اسٹرکچرل انجیئرنگ''اور''بلڈنگ کنسٹرکشن میٹریل''کے بارے میں کوئی موثر قانون موجود نہیں ہے۔
پاکستان بلڈنگ کوڈ سمیت صوبائی سطح پربنائے گئے بلڈنگ بائی لازمیں بھی زلزلہ سے عمارت کو محفوظ رکھنے کیلئے سرسری شقیں تو رکھی گئی ہیں لیکن جغرافیائی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جس سنجیدگی اور تکنیکی جدت کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اسے نظر اندازکیا گیا ہے۔
ماہرین تعمیرات کاکہنا ہے کہ پاکستان میں تعمیراتی انجینئرنگ اور ڈیزائننگ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ارضیاتی اورجغرافیائی ماہرین کاکہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بلند عمارتوں کو فروغ دینے کی پالیسی لیکرآئی ہے ایسے میں زلزلوں کے خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں بالخصوص گنجان آباد علاقوں میں تعمیرات کا ڈیزائن اورمیٹریل بدلنا ہوگا۔
پاکستان میں صرف چولستان کے علاقے کو ہی زلزلوں سے قدرے محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے، کراچی سے 60 میل کے فاصلے پر تین فالٹ لائنز آپس میں ملتی ہیں لہذا یہ بھی خطرناک ہے۔