دنیا خبردار رہے
پاکستان کوئی کمی کمین نہیں ہے کہ صرف یہی دنیا کا ہر مطالبہ تسلیم کرے اور بھارت اس خطے میں اپنی من مانیاں کرتا رہے۔
وزیر اعظم پاکستان ان دنوں امریکا میں موجود ہیں اور ایک ایسے وقت امریکا میں موجود ہیں جب جنوبی ایشیاء میں انسانی تاریخ کا بد ترین بحران جنم لے چکاہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو گھروں میں بند کیے گئے دو ماہ ہونے کو آئے ہیں، پاکستان دنیا کے ہر فورم پر کشمیریوں کا مقدمہ نہایت کامیابی سے پیش کر رہا ہے اور دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
اَسی َلاکھ مسلمان زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ، جمہوریت کا راگ الاپنے اور انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک پر ابھی تک جوں بھی نہیں رینگی سوائے مسلمان ملک ترکی کے جس کے وزیر اعظم نے نیویارک میں کھڑے ہو کر پاکستان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کشمیر اور مسلمان کشمیریوں کے حالات اقوام عالم تک پہنچائے ہیں۔
مجھے محسوس یوں ہوتا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کو ان کے ترک آباؤ اجدادکی جانب سے جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے پیش کی گئی قربانیوں کی داستانیں یاد ہیں اور وہ ان کے ذہن سے ابھی محو نہیں ہوئیں اس لیے وہ برصغیر کے مسلمانوں کی حمایت کر کے ان کا احسان یاد کر رہے ہیں جب ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات تک اتار کر جنگ آزادی کے لیے پیش کر دئے تھے۔
یہ بات الگ ہے کہ جب ہمارے ایک وزیر اعظم کی بیگم کو ترکی کے وزیر اعظم کی بیگم نے اپنے گلے سے ہار اتار کر دیا تو ان کا یہ عمل بھی اس احسان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہی تھا مگر ہمارے وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ نے وہ ہار قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیا اور بعد میں جب اس کی پڑتال شروع ہوئی تو ان کو وہ انمول ہار واپس جمع کرانا پڑ گیا۔ یہ ہمارا قومی کردار ہے کہ ہم ہر جگہ سے لوٹ مار کر لیتے ہیں اور پھر اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔
دوسری طرف اگر ہم اپنے دوسرے مسلمان ممالک جن کو ہم مسلم امہ کا نام دیتے ہیں اورپاکستان ازخود ان کی حفاظت کی ذمے داری کا اعلان بھی کرتا رہتا ہے انھوں نے کشمیر کے اہم مسئلہ پر جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بھی مسلمانوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔کل ہی ہمارے ہمسایہ ملک ایران جس کے لیے ہمیں امریکا نے ثالث بنایا ہے ان کے صدر نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے عالم اسلام کو مختلف ممالک کے ساتھ درپیش تنارعات کا بڑے جوش سے ذکرکیا ہے مگر کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلا۔ حالانکہ ہم مسلم امہ کی دستگیری کے لیے مرے جارہے ہوتے ہیں مگر مسلم امہ کا جو کردار ہم دیکھ رہے ہیں اس کردار کو دیکھ کر پاکستان کو اپنے مستقبل کی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام عالم کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے متعلق جس مایوسی کا اظہار کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی مختلف عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کے بارے میں دہائی کے باوجود کوئی بھی ملک ٹس سے مس نہیں ہورہا اس لیے ہمارے وزیر اعظم دنیا کے اس رویے سے مایوس ہیںاور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی بالکل درست پیرائے میں کہی جارہی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنارعہ کشمیر میں موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی اَسی لاکھ کشمیری قیدو بند کی صورتحال کا شکار ہیں خوراک اور دواؤں کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں اس صورتحال میں صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور یہ پیمانہ چھلک پڑنے کو ہے ۔
عمران خان دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا اگر پاکستان کی حمایت اس لیے نہیں کر رہی کہ بھارت کے ساتھ اس کے تجارتی مفاد وابستہ ہیں تو دنیا کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر دو ایٹمی ملکوں میں کشمیر کا تنارعہ جنگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ دنیا کے تجارتی تعلقات کا کیا بنے گا۔
کیونکہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اپنی امن کی لاکھ کوشش کے باوجود اگر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا تو پاکستان اور بھار ت کی جنگ روایتی جنگ نہیں ہو گی۔ یہ جنگ عالمی جنگ کا روپ اختیار کرے گی۔ بھارت میں اگر ایک ارب سے زائد انسان موجود ہیں تو کشمیر کے ہمسائے میں چین میں بھی یہ تعداد ایک ارب سے زائد ہے جب کہ پاکستان کی اکیس کروڑ عوام شہادت کا درجہ پانے کے لیے اگلے مورچوں میں ہو گی۔
امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر عمران خان اور مودی کو زبانی کلامی کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کردیں انھوں نے بھارت کی جانب سے مسترد کردہ اپنی ثالثی کی پیشکش کا پھر اعادہ کیا ہے ۔ اصل میں امریکا کشمیر کے مسئلے پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ۔ امریکی صدر مودی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جلسے کر رہے ہیں ۔
ہمارے وزیر اعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اس وقت جو حالات ہیں ان میں حکمرانی کرنا مشکل کام ہے ۔ عمران خان نیویارک میں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں سے مل رہے ہیں اور کشمیر پر اپناموقف ان پر واضح کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ پاکستان کا جو موقف ہے وہ بڑا واضح ہے اور پہلی دفعہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر پر اپنا دوٹوک موقف دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ بھارت اور اس کی حامی دنیا کو اس پاکستانی موقف کی روشنی میں دنیا کے اس ایٹمی خطے کا جائزہ لینا چاہیے ۔ اس کے بغیر اس خطے میں امن کی پائیداری ممکن نہیں ہے۔ بات بڑی صاف ہے کہ کشمیر جیسے بنیادی بلکہ واحد تنارع کا حل نکالا جائے جس کے بعد ہی ایٹمی پاکستان بھارت کی طرف دوستی کا مضبوط ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔
اس سے پہلے دوستی کی پیشکشوں کو ہماری کمزوری سمجھا گیا۔ پاکستان کوئی کمی کمین نہیں ہے کہ صرف یہی دنیا کا ہر مطالبہ تسلیم کرے اور بھارت اس خطے میں اپنی من مانیاں کرتا رہے۔ عمران خان دنیا کو بروقت خبردار کر رہے ہیں۔
اَسی َلاکھ مسلمان زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ، جمہوریت کا راگ الاپنے اور انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ممالک پر ابھی تک جوں بھی نہیں رینگی سوائے مسلمان ملک ترکی کے جس کے وزیر اعظم نے نیویارک میں کھڑے ہو کر پاکستان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے کشمیر اور مسلمان کشمیریوں کے حالات اقوام عالم تک پہنچائے ہیں۔
مجھے محسوس یوں ہوتا ہے کہ ترکی کے وزیر اعظم کو ان کے ترک آباؤ اجدادکی جانب سے جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے پیش کی گئی قربانیوں کی داستانیں یاد ہیں اور وہ ان کے ذہن سے ابھی محو نہیں ہوئیں اس لیے وہ برصغیر کے مسلمانوں کی حمایت کر کے ان کا احسان یاد کر رہے ہیں جب ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے زیورات تک اتار کر جنگ آزادی کے لیے پیش کر دئے تھے۔
یہ بات الگ ہے کہ جب ہمارے ایک وزیر اعظم کی بیگم کو ترکی کے وزیر اعظم کی بیگم نے اپنے گلے سے ہار اتار کر دیا تو ان کا یہ عمل بھی اس احسان کی یاد تازہ کرنے کے لیے ہی تھا مگر ہمارے وزیر اعظم کی بیگم صاحبہ نے وہ ہار قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنے پاس رکھ لیا اور بعد میں جب اس کی پڑتال شروع ہوئی تو ان کو وہ انمول ہار واپس جمع کرانا پڑ گیا۔ یہ ہمارا قومی کردار ہے کہ ہم ہر جگہ سے لوٹ مار کر لیتے ہیں اور پھر اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔
دوسری طرف اگر ہم اپنے دوسرے مسلمان ممالک جن کو ہم مسلم امہ کا نام دیتے ہیں اورپاکستان ازخود ان کی حفاظت کی ذمے داری کا اعلان بھی کرتا رہتا ہے انھوں نے کشمیر کے اہم مسئلہ پر جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بھی مسلمانوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔کل ہی ہمارے ہمسایہ ملک ایران جس کے لیے ہمیں امریکا نے ثالث بنایا ہے ان کے صدر نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے عالم اسلام کو مختلف ممالک کے ساتھ درپیش تنارعات کا بڑے جوش سے ذکرکیا ہے مگر کشمیر کے بارے میں ایک لفظ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلا۔ حالانکہ ہم مسلم امہ کی دستگیری کے لیے مرے جارہے ہوتے ہیں مگر مسلم امہ کا جو کردار ہم دیکھ رہے ہیں اس کردار کو دیکھ کر پاکستان کو اپنے مستقبل کی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام عالم کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے متعلق جس مایوسی کا اظہار کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی مختلف عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کے بارے میں دہائی کے باوجود کوئی بھی ملک ٹس سے مس نہیں ہورہا اس لیے ہمارے وزیر اعظم دنیا کے اس رویے سے مایوس ہیںاور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی بالکل درست پیرائے میں کہی جارہی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان تنارعہ کشمیر میں موجودہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جا سکتی اَسی لاکھ کشمیری قیدو بند کی صورتحال کا شکار ہیں خوراک اور دواؤں کے ذخیرے ختم ہو رہے ہیں اس صورتحال میں صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور یہ پیمانہ چھلک پڑنے کو ہے ۔
عمران خان دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا اگر پاکستان کی حمایت اس لیے نہیں کر رہی کہ بھارت کے ساتھ اس کے تجارتی مفاد وابستہ ہیں تو دنیا کویہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر دو ایٹمی ملکوں میں کشمیر کا تنارعہ جنگ کی صورت اختیار کر جاتا ہے تو پھر بھارت کے ساتھ دنیا کے تجارتی تعلقات کا کیا بنے گا۔
کیونکہ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اپنی امن کی لاکھ کوشش کے باوجود اگر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا گیا تو پاکستان اور بھار ت کی جنگ روایتی جنگ نہیں ہو گی۔ یہ جنگ عالمی جنگ کا روپ اختیار کرے گی۔ بھارت میں اگر ایک ارب سے زائد انسان موجود ہیں تو کشمیر کے ہمسائے میں چین میں بھی یہ تعداد ایک ارب سے زائد ہے جب کہ پاکستان کی اکیس کروڑ عوام شہادت کا درجہ پانے کے لیے اگلے مورچوں میں ہو گی۔
امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر عمران خان اور مودی کو زبانی کلامی کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کردیں انھوں نے بھارت کی جانب سے مسترد کردہ اپنی ثالثی کی پیشکش کا پھر اعادہ کیا ہے ۔ اصل میں امریکا کشمیر کے مسئلے پر اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ۔ امریکی صدر مودی کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر جلسے کر رہے ہیں ۔
ہمارے وزیر اعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اس وقت جو حالات ہیں ان میں حکمرانی کرنا مشکل کام ہے ۔ عمران خان نیویارک میں دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہوں سے مل رہے ہیں اور کشمیر پر اپناموقف ان پر واضح کر رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ پاکستان کا جو موقف ہے وہ بڑا واضح ہے اور پہلی دفعہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر پر اپنا دوٹوک موقف دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ بھارت اور اس کی حامی دنیا کو اس پاکستانی موقف کی روشنی میں دنیا کے اس ایٹمی خطے کا جائزہ لینا چاہیے ۔ اس کے بغیر اس خطے میں امن کی پائیداری ممکن نہیں ہے۔ بات بڑی صاف ہے کہ کشمیر جیسے بنیادی بلکہ واحد تنارع کا حل نکالا جائے جس کے بعد ہی ایٹمی پاکستان بھارت کی طرف دوستی کا مضبوط ہاتھ بڑھا سکتا ہے۔
اس سے پہلے دوستی کی پیشکشوں کو ہماری کمزوری سمجھا گیا۔ پاکستان کوئی کمی کمین نہیں ہے کہ صرف یہی دنیا کا ہر مطالبہ تسلیم کرے اور بھارت اس خطے میں اپنی من مانیاں کرتا رہے۔ عمران خان دنیا کو بروقت خبردار کر رہے ہیں۔