آج کا ہٹلر
نریندر مودی کی توسیع پسندی و ملک گیری کی خواہش اسے مزید اقدامات پر مجبور کرے گی۔
واقعہ یہ تھا کہ 1930ء میں طویل ترین جدوجہد ولاتعداد قربانیوں کے باعث اسپین میں حقیقی جمہوریت قائم ہوئی تھی۔ لوگوں کے لیے اصلاحی و فلاحی کاموں کا آغاز ہوچکا تھا بڑے بڑے جاگیرداروں سے زرعی اراضی جوکہ جنرلوں سے واپس لے کر چھوٹے و بے زمین کسانوں کو تقسیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا، انسانی حقوق بحال ہوچکے تھے گویا اسپین اب ایک مکمل جمہوری نظام کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا، جو جاگیردار زرعی اراضی سے محروم ہوئے تھے۔
ان میں اکثریت ریٹائرڈ وحاضر سروس جنرلوں کی تھی۔ جب اسپین میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو رہی تھیں تو دوسری جانب جرمن آمر ایڈولف ہٹلر جرمنی پر مسلط ہو چکا تھا اور پوری دنیا کو آگ و بارود کے حوالے کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھا چنانچہ ہٹلرکا اولین ہدف بنا اسپین۔
یہ ذکر ہے 1936ء کا چنانچہ ہٹلر نے اسپین کی نومولود جمہوریت پر شب خون مارتے ہوئے جنرل فرانکوکی پیٹھ ٹھونکی اور اسے اسپین پر مسلط کر دیا۔ ایڈولف ہٹلر کے اس اقدام سے خود ساختہ مہذب دنیا نے مکمل خاموشی اختیار کرلی تھی مگر دنیا کے جمہوریت پسند تڑپ ہی تو اٹھے اور آمر فرانکو کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کر لیا اور ملکوں ملکوں سے جمہوریت پسند جن میں اہل قلم، کسان، عام محنت کش تھے اسپین میں آمر فرانکو کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ انمیں امریکا، فرانس، برطانیہ و جرمنی کے جمہوریت پسند بھی شامل تھے جو فوجوں کے دانت کھٹے کر رہے تھے۔
اسی باعث کہا جا رہا تھا کہ اسپین کے جمہوریت پسندوں نے دراصل یورپ کو بچا لیا ہے۔ ان جمہوریت پسندوں میں انگلستان سے تعلق رکھنے والا ڈیوڈ گیسٹ بھی شامل تھا جو شاعر تھا، ادیب تھا اور ماہر ریاضیات تھا۔ شریک تو اس جنگ میں رالف فاکس بھی تھا وہ ایک حساس ترین ادیب تھا مگر جب اسپین میں جمہوریت کے تحفظ کا معاملہ درپیش تھا تو قلم چھوڑ کر عملی طور پر جنگ میں شریک ہوگیا یوں یہ دونوں ادبا بھی جمہوریت کے تحفظ کی جنگ میں اپنی جانیں نچھاور کرگئے۔
ہٹلر اب وہ پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے ایک خطرناک ترین فیصلہ کیا ، جرمنی میں اپنی نازی پارٹی کو منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس نے جرمنی میں دیگر تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی اور تمام پارٹیوں کے فنڈ ضبط کرلیے بلکہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ ہٹلر بڑی ہوشیاری سے جرمن قوم کے ذہنوں پر سوار ہوچکا تھا، اس نے سرمایہ داروں سے وعدہ کیا کہ تمہیں اقتدار میں پورا پورا حصہ دیا جائے گا وکلا و ڈاکٹروں سے کہا گیا کہ تمہاری بیروزگاری کے باعث یہی یہودی جرمن ہیں۔ عوام کو شب و روز اس نے اسلحہ سازی پر لگادیا یوں بیروزگاری میں کمی کرنے میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔
جرمن عوام سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر ہمارا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو پوری دنیا ہمارے قدموں میں ہوگی۔ 1939ء تک فاشسٹ ہٹلر اٹلی کے آمر مسولینی و جاپان کے تشدد پسند حکمرانوں کو اپنا اتحادی بنانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ چنانچہ انھی حالات میں اس نے فوج میں جبری بھرتی کا اعلان کیا تو دنیا نے یہ اس کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔
جب وہ چیکوسلواکیہ سے اس کا ایک ضلع سوڈیٹس لینے میں کامیاب ہوگیا تو دنیا خاموش رہی البتہ جب 18 مارچ 1939ء میں اس نے چیکوسلواکیہ پر قبضہ کرلیا تو دنیا نے آنکھیں کھولیں مگر اب کافی تاخیر ہوچکی تھی کیونکہ ہٹلر نے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے آسٹریا پر بھی قبضہ کرلیا دوسری جانب اٹلی کے آمر مسولینی ہٹلر کی پیروی کرتے ہوئے حبشہ پر چڑھ دوڑا پھر جاپان نے بھی موقع غنیمت جانا اور مانچوریا پر قبضہ کرلیا پھرکیا تھا ہٹلر کی قیادت میں جرمن اٹلی و جاپان کی فوجیں دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھتے ہوئے پوری دنیا کو تاراج کرتے رہے۔
سلواکیہ میں جیولیس فیوچک فرانس میں گیبریل پیری نے آزادی کی جنگ میں بالترتیب 25 اگست 1943ء و جولائی 1941ء میں پھانسی گھاٹ پر جانیں قربان کیں اور دنیا کو بتادیا کہ جبر کو جدوجہد سے ہی روکا جاسکتا ہے نہ کہ اپیل و گزارش کرنے سے۔ سرمایہ داروں کی سرپرستی میں جنگ کا کھیل کھیلنے والا ہٹلر 22 جون 1942ء میں محنت کشوں کی اولین ریاست سوویت یونین پر حملہ آور ہوا مگر یہاں اسٹالن کی قیادت میں عام فوج کم و اپنی ریاست کا دفاع کرنے کے لیے سرخ فوج کی تعداد زیادہ تھی جوکہ محنت کشوں پر مشتمل سوویت یونین میں جنگ نے کئی بار کروٹ بدلی کبھی جرمن تو کبھی سرخ فوج غالب آتے رہے اور بالآخر مئی 1945ء میں ہٹلر و اس کے حاشیہ بردار عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگئے انجام یہ کہ پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والا ہٹلر نہ صرف جان سے گیا بلکہ اس کا اپنا ملک جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔
اب ہم ذکرکرتے ہیں، آج کے ہٹلر کا یہ ہٹلر اچانک سامنے نہیں آیا بلکہ اس ہٹلر کے پس پردہ 72 سالہ آر ایس ایس کی انتہا پسندی کا فکروفلسفہ ہے، ہماری مراد ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جس کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ چنانچہ آج کیفیت یہ ہے کہ نریندر مودی نے تمام تر عالمی و اپنے ملکی قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر کو جوکہ ایک 72 برس سے ایک متنازعہ ریاست ہے کو اس کی قانونی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے یہ ایک ایسا اقدام ہے جیساکہ ہٹلر نے چیکوسلواکیہ کے ایک ضلع سوڈیٹس پر اپنا حق جتاتے ہوئے اسے جرمنی میں شامل کر لیا تھا اور بعد میں پورے چیکو سلواکیہ پر قابض ہو گیا۔
چنانچہ نریندر مودی کی توسیع پسندی و ملک گیری کی خواہش اسے مزید اقدامات پر مجبور کرے گی اور وہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھتے ہوئے ماسوائے سری لنکا و مالدیپ کے دیگر تمام سارک ممالک کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے کے لیے عسکری اقدامات اٹھاتے ہوئے کوشش کرے گا، البتہ یہ ضرور ہے کہ نریندر مودی کے ناپاک عزائم کے راستے کی سب سے رکاوٹ ہے۔ پاکستان مگر عصر حاضر میں عسکری محاذ پر پاکستان کو شکست نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ 2019ء ہے 1965ء یا 1971ء نہیں ہے اور اگر بھارت دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے تو پاکستان بھی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے ۔
یہ ضرور ہے کہ بھارت پاکستان کے دیگر محاذوں پر سرگرم ہوچکا ہے بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اقتصادی، تجارتی و سفارتی سطح پر کمزور کردیا جائے تاکہ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ اقدامات میں رکاوٹ نہ بن سکے اور بھارت اگر پاکستان نہیں تو ممالک کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنا سکے۔ اگر بھارت ایسا کرے گا تو لازمی بات ہے بھارت ایشیا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کا امن و استحکام برباد کرے گا چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان مودی کے ناپاک عزائم کا ادراک کرتے ہوئے سفارتی محاذ پر ڈٹا رہے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرتا رہے تاوقت یہ کہ کشمیر کا مثبت حل نکل آئے۔